2
Thursday 22 Feb 2024 01:28

ملت کا روشن ستارہ، ثاقب اکبر نقوی

ملت کا روشن ستارہ، ثاقب اکبر نقوی
تحریر: سید محمد تعجیل مہدی

گھر کا ماحول دینی ہونے کی وجہ سے بچپن سے ہی کئی معروف حتیٰ غیر معروف غیر معمولی ہستیوں سے آشنائی ہوگئی۔ مختلف شخصیات کا تذکرہ ہونا معمول تھا۔ملت کی تاریخ پر گفتگو ہوتی تو اکثر والد محترم ایک نظم کے چند اشعار سنایا کرتے۔
پھر چھ جولائی آئے گا
باطل کو بہت دہلائے گا 
طاغوت کا دل گھبرائے گا
غازی کا علم لہرائے گا

والد بزرگوار شعر سے شغف رکھتے ہیں اور ان سے یہ جراثیم مجھ تک بھی پہنچے۔ اس نظم کے خالق سے غائبانہ تعارف چھوٹی عمر میں ہی ہوگیا۔ اس کے علاوہ ایک شعر اکثر و بیشتر سننے کو ملا جو حافظے میں محفوظ رہ گیا۔
شب زندہ دار قاری دعائے کمیل کا
یا صاحب الزماں کی صدا دے کے سوگیا


اگرچہ بظاہر محو بھی ہو جائیں مگر بچپن کی یادیں ذہن پر تادیر نقش رہتی ہیں۔ وقت کا دھارا بہتا رہا اور لڑکپن سے جوانی کی طرف آتے پتہ ہی نا چلا۔ کچھ گھر کی تربیت اور کچھ اچھے حلقوں کے سبب کتب کی طرف رغبت ہوئی تو تاریخ یعقوبی جو البصیرہ نے شائع کی تھی، خرید لی جبکہ ابھی انٹر میں تھا۔ عالم اسباب میں ہر شے دوسری سے متصل ہوتی ہے۔ مترجم کا نام دیکھ کے ذہن میں کوندا سا لپکا کہیں یہ وہی تو نہیں مگر ابھی چونکہ قدرت کو منظور نا تھا۔ 2017ء میں میرا باقاعدہ رابطہ بلاواسطہ سید ثاقب اکبر کے ساتھ ہوا۔ دل میں ایسی خوشی ہوئی، جس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ ناکافی ہیں۔ ایک ایسا شخص جس کا ذکر میں بچپن سے سنتا پڑھتا آرہا تھا، اس سے ہمکلام ہونا میرے لیے اعزاز تھا۔ اس قدر عظیم اور شفیق شخصیت تھی کہ ایک اٹھارہ سال کے جوان کو بھی باقاعدہ طور پر جواب دے رہے تھے۔

وقت کے بے رحم ہاتھوں نے 2020ء میں اسلام آباد آن پھینکا۔ میں نے رابطہ کیا تو فرمایا بسم اللہ تشریف لائیں۔ پہلی ملاقات میں ہرگز کہیں سے نہ لگتا تھا کہ ہماری بالمشافہ پہلی ملاقات ہے۔ عمر کا تفاوت کہیں آڑے نہیں آرہا تھا۔ شعر سنانے کا حکم ہوا۔ اب دل دھک دھک کر رہا تھا کہ میری کیا بساط مگر پھر فرمایا کہ بے جھجک ہو کر سناؤ، غزل کے چند شعر سنے تو داد اور دعا سے نوازا۔ میرے ساتھیوں میں سے ایک نفسیات کا طالبعلم تھا تو اس موضوع پر بات شروع کر دی اور نفسیات کے کئی نظریات پر روشنی ڈالی اور پھر مذہبی نقطہ نظر سے بھی بات کی۔ یا حیرت یہ کیسا شخص ہے! جس طرف بھی جاؤ، وہاں اس کی مہارت ہے۔ لائبریری دیکھی تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اس سب کے باوجود اس قدر شفقت اور عجز کہ چار گھنٹے سے زائد وقت ہمارے ساتھ گزارا۔

وہ مجموعہ اضداد تھے۔ یو ای ٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم اور اسی زمانہ طالب علمی میں شیعہ جوانوں کی ملک گیر تنظیم امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی مرکزی صدارت، صرف صدارت ہی نہیں بلکہ انقلاب اسلامی کو ملک کے گوش و کنار تک پہنچانے میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے دست راست کی حیثیت سے کام کرنا اور پھر محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی کے ساتھ تفسیر نمونہ کی نوک پلک سنوارنے کا کام کرنا اور پھر ایران سے اعلیٰ دینی تعلیم کا حصول، حجت الاسلام ہونے کے باوجود بجائے بھاری بھرکم عالمانہ لباس کے عوام الناس میں گھل مل کر سادہ و میسر رہنا، اخوت اکادمی کا آغاز اور پھر البصیرہ جیسے ادارے کی داغ بیل۔۔۔ اتحاد امت کی کاوشیں اور اس کے لیے اس حد تک جانا کہ اپنے نام تک کو تبدیل کر لیا۔ آخر کون کون سی خدمات لکھی جائیں آپ کی! 

دھیما مزاج، نرم لہجہ، جذبہ جوان اور ہمت بلند رکھتے تھے۔ نہایت خوش اخلاق اور نفیس و نستعلیق انسان تھے۔ کوئی آپ کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔ قرآن مجید سے خصوصی انس تھا اور اس لیے اپنے فرزند علی عباس نقوی کو قرآن مجید کی تعلیمات میں ڈاکٹریٹ کروایا۔ ہمارے طرح طرح کے سوالات کے علمی و تشفی بخش جوابات دیتے نہ تھکتے۔ ہماری تاریخ پر پڑی غلط فہمی کی دبیز گرد ہٹائی اور کئی ابہام واضح کیے۔ ڈاکٹر شہید کے ذکر پر آپ کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔ آپ نے اپنے رفیق شہید ڈاکٹر کے لیے ایک کتاب "رفیق محبوب" بھی لکھی اور ایک نظم "ابھی تو آجائے گا کہیں سے" مجھے بہت پسند ہے۔ ہم آپ کو ڈاکٹر صاحب کی جگہ دیکھتے تھے۔ آپ اپنے واقعات سناتے تو ہم کھو جاتے۔

اسلام آباد میں کئی یادگار نشستیں رہیں۔ لاہور جاتے تو وہ دن ایسے تھے کہ میں بھی پہنچ جاتا اور گھنٹوں ان سے مستفید ہوتے، مگر ذرا برابر تکان نہ ہوتی ۔افتاد طبع کے باعث میں بہت زیادہ کوتاہی کرتا تھا تو وہ خود کال کرتے اور خیریت کا دریافت کرتے پھر حاضر ہونے کا حکم دیتے۔ شاہ اللہ دتہ میں نشستوں کا انعقاد کرتے اور خود کال کرکے بلاتے۔ ہمارا ایک مشاعرہ کروانے کا ارادہ تھا، جو بوجوہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ ساری زندگی علمی و فکری کار ہائے نمایاں انجام دینے میں گزار دی۔شاعری کی دو کتب شائع ہوچکی ہیں اور اس کے علاوہ کئی موضوعات پر تصانیف موجود ہیں۔ ان چار پانچ سالوں کی کئی یادیں ہیں، جن کو لکھنے بیٹھیں تو الفاظ کم پڑ جائیں۔

میرا ماننا یہ ہے کہ سادہ و سلیس مگر خلوص دل سے لکھے الفاظ تصنع زدہ بھاری بھرکم الفاظ سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔ آپ کے ساتھ گزرے لمحات کی یادیں اس قدر ہیں کہ اس ایک مضمون میں نہیں سما سکتیں۔ آپ کی خدمات کا ہم سب پر فرض ہے کہ آپ کو یاد رکھا جائے۔ عظیم لوگوں میں ایک خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ کم یاب ہوتے ہیں۔ ان کے نرم رویئے کی وجہ سے ہر کہ و مہ کو ایسا لگتا کہ اس قدر قریب بس اسی ایک سے ہیں، مگر وہ تو اپنی خوشبو ہر جگہ یکساں بکھیرتے ہیں۔ اس عظیم الشان ہستی کے ساتھ بھی وہی ہوا کہ جانے کے بعد کئی ایک ایسے لوگ سامنے آگئے، جو ان کے نام سے اپنا قد بڑا کرنا چاہتے ہیں مگر خدا بڑا کارساز ہے۔حیدر نقوی بیمار ہوئے تو خاصی پریشانی تھی۔ لاہور میں شہید ڈاکٹر کی برسی سے واپس لوٹ رہے تھے تو دعا کا کہا۔

کچھ عرصہ بعد آپ کی بیماری کا سن کر لگا کہ ابھی ٹھیک ہو جائیں گے، مگر خدا کو کچھ اور منظور تھا۔ شاید ہم نے ان کی قدر نہیں کی! اسلام آباد سے واپس آتے ہوئے ہسپتال جانا چاہا، مگر پھر یہ پتہ چلا کہ حالت نازک ہے۔ میں گاؤں میں تھا اور دل پریشان تھا۔ 21 فروری 2023ء کی شام کو اچانک یہ خبر موصول ہوئی کہ آفتاب غروب ہوگیا اور مجھ سمیت بہت ساروں کو بے سہارا چھوڑ گیا۔ اس وقت کے جذبات ناقابل بیان ہیں۔ دل کہہ رہا تھا کہ ابھی نہ جائیں، ہم شہید نقوی کے بعد اتنا بڑا نقصان برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے، مگر جو خدا کی رضا۔ آپ کے بعد اس قد و قامت کی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی۔ مگر آپ کی فکر و نظر اب بھی زندہ و جاوید ہے۔ آپ کا کام زندہ ہے اور صدقہ جاریہ ہے۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
خبر کا کوڈ : 1110887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش