0
Wednesday 21 Feb 2024 19:57

ایک اور ویٹو

ایک اور ویٹو
تحریر: علی محمدی

ایک طرف امریکہ انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کا دعویٰ کرتا ہے اور  فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ میں براہ راست شرکت کی وجہ سے رائے عامہ کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف عالمی اداروں میں اسرائیل کی حمایت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ نے صیہونی حکومت کے جرائم کی حمایت کرتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی کے مسودے کو تیسری بار ویٹو کر دیا ہے۔غزہ میں جنگ بندی کے قیام کے لیے قرارداد کا مسودہ جو کہ الجزائر کی جانب سے اقوام متحدہ میں عرب ممالک کے نمائندوں کے گروپ کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تھا، منگل کو اس کونسل کے اجلاس میں 13 مثبت ووٹوں کے باوجود مسترد کر دیا گیا، کیونکہ امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا۔ امریکہ نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی مجوزہ قرارداد کو ویٹو کر دیا۔

برطانیہ نے غزہ پٹی میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کے ایک اور حامی کے طور پر اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ غزہ پٹی میں 7 اکتوبر سے آج تک اور صیہونی حکومت کی جانب سے نسل کشی کے نئے دور کے آغاز کے بعد سے یہ تیسرا موقع ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے قیام اور فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے قرارداد پیش کی گئی۔ جسے امریکہ نے ویٹو کر دیا ہے۔ سلامتی کونسل میں منظوری کے لیے بغیر مخالفت کے 9 ووٹوں یا اس کونسل کے پانچ مستقل ارکان (امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور فرانس) کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر اور مستقل نمائندہ "لنڈا تھامس گرین فیلڈ" نے دعویٰ کیا ہے کہ الجزائر کی طرف سے پیش کردہ قرارداد دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو متاثر کرتی ہے۔

 دوسری جانب اقوام متحدہ میں فلسطین کے نمائندے ریاض منصور نے امریکا کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کے مسودے کو ویٹو کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک خطرناک اقدام اور فلسطینیوں کے قتل عام میں اضافے کا سبب قرار دیا۔ امریکہ نے غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد کے مسودے کو ایسے عالم میں ویٹو کر دیا ہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ پر صیہونی حکومت کی جارحیت کے آغاز سے اب تک فلسطینی شہداء کی تعداد 29 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور زخمیوں کی تعداد تقریباً ستر ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے۔ الجزائر کی طرف سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد کے مسودے کو امریکہ نے ایسے حالات میں ویٹو کر دیا کہ صیہونی حکومت غزہ کے جنوب میں سرحدی شہر رفح پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جہاں اس وقت لاکھوں فلسطینی جمع ہیں۔ اسرائیلی حکومت کے حکام کا یہ فیصلہ ایک گنجان آباد علاقے کے خلاف ایک سنگین خطرہ ہے، جہاں غزہ پر صیہونی حملوں کی وجہ سے 10 لاکھ 400 ہزار افراد اس علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہو کر رفع پہنچ چکے ہیں۔ اس  حملے کے ناقابل تلافی نتائج ہوسکتے ہیں۔

غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے امریکی اقدام کے نتائج
جنگ بندی کی قرارداد کے ویٹو کو جائز قرار دینے اور سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ درجنوں اسرائیلی قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں خلل ڈالنے کا امریکہ کا دعویٰ ایسے حالات میں سامنے آیا ہے کہ غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کے آغاز سے اب تک ایک لاکھ فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ اس جارحیت میں سینکڑوں صیہونی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ قیدیوں کے تبادلے کی کوشش کے بارے میں امریکہ کا ویٹو کا فیصلہ اور اسرائیل کا دعویٰ ہرگز قابل اعتبار نہیں ہے۔ امریکہ کی طرف سے ویٹو کے فیصلے کو اسرائیل کے حملوں میں اضافے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرکے صیہونی حکومت کے غزہ پر حملے جاری رکھنے کے حوالے سے اسرائیل کو ہری جھنڈی دکھا رہا ہے، تاکہ صیہونی حکومت غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کرکے وہاں کے باشندوں کو جبری نقل مکانی پر محبور کر دے۔

یہ ایسی عالم میں ہے کہ صیہونی حکومت کے اعلیٰ حکام نے بارہا مالی امداد کے عوض غزہ میں مقیم مہاجرین کو اردن اور مصر کی طرف ہجرت کرنے کی ترغیب دی ہے۔ امریکہ بھی اسرائیل کی طرح اس جبری ہجرت میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرچکا ہے۔ اگرچہ اس مؤقف کی فلسطینیوں اور خطے کے ممالک کی طرف سے شدید مخالفت کی جا رہی ہے، لیکن صہیونی دشمن اور اس کے حامیوں بالخصوص امریکہ اور انگلستان کی سازشوں کو  ہرگز کم نہیں سمجھا جانا چاہیئے۔ اس سے پہلے بھی عرب اسرائیل جنگ میں فلسطینیوں کو اردن کی طرف جبری ہجرت پر مجبور کیا گیا تھا۔ ماضی میں عرب اسرائیل جنگ، اردن میں مستقل فلسطینیوں کی ہجرت کا باعث بنی تھی، جس کا آج تک کوئی مناسب جل تلاش نہیں کیا گیا۔ بہرحال غزہ میں جنگ کو فوری طور پر بند کرنے کی قرارداد کے اجراء کو روکنے کا اصل ذمہ دار امریکہ ہے اور اگر اس ویٹو کے بعد غزہ میں بالخصوص سرحدی شہر رفح میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے تو بائیڈن حکومت اس کی براہ راست ذمہ دار ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 1117722
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش