0
Tuesday 27 Feb 2024 19:13

پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی کا مسلم ووٹروں کیلئے ’خفیہ پلان‘

پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی کا مسلم ووٹروں کیلئے ’خفیہ پلان‘
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

بھارت کے پارلیمانی الیکشن 2024ء میں بی جے پی تاریخ رقم کرنے کے موڈ سے میدان میں اتر رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بی جے پی کو 370 سیٹ اور این ڈی اے کو 400 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا نعرہ دیا ہے۔ ہندوستانی سیاست میں 400 سے زائد سیٹیں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد محض ایک بار ہی کانگریس جیت سکی ہے اور ملک میں مسلسل تین بار الیکشن جیت کر وزیراعظم بننے کی تاریخ بھی پنڈت جواہر لال نہرو کے نام ہی درج ہے۔ اب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقتدار کی ہیٹ ٹرک لگانے اور 400 پار سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا ہے، جسے پورا کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے۔ واضح ہے کہ بی جے پی جنوبی ہندوستان اور مسلم اکثریتی سیٹوں پر جیت درج کئے اپنے مقررہ ہدف کو پورا نہیں کرسکی ہے، جس ہدف کو راست طور پر سادھنے کے بجائے خاموش یا خفیہ مسلم پلان بنایا گیا ہے۔

بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 15 فیصد ہے، لیکن وہ پانچ درجن سے زیادہ پارلیمانی سیٹوں پر جیت اور ہار کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تین درجن نشستوں پر ان کا اہم کردار ہے۔ ایسے میں مسلم ووٹوں کی سیاسی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سیاسی پارٹیاں انہیں اپنی طرف لانے کی کوشش کررہی ہیں۔ بی جے پی ہندوتوا کے ایجنڈے پر انتخابی بساط بچھانے میں مصروف ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے ووٹوں کو براہ راست اپنی طرف لانے کی کوشش کرنے کے بجائے وہ اپنے اتحادی ساتھیوں کے ذریعے سیاسی تانا بانا بُن رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے ان پارٹیوں کو بھی اپنے الائنس میں شامل کیا ہے، جن کا مسلم معاشرے میں اچھا خاصا اثر ہے۔

نیشنل کانگریس پارٹی ’این سی پی‘ کے اجیت پوار، جو حال ہی میں بی جے پی کی قیادت والے نیشنل ڈیموکریٹک الائینس ’این ڈی اے‘ کے ساتھ ہیں، سے لے کر راشٹریہ لوک دل ’آر ایل ڈی‘ کے سربراہ جینت چودھری اور جنتا دل یونائیٹڈ کے سربراہ نتیش کمار تک، ان تمام لیڈران کی مسلمانوں کے درمیان مقبولیت رہی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ ہونے کے باوجود نتیش کمار مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتے رہے ہیں اور جینت چودھری مسلسل جاٹ اور مسلمانوں کے سہارے ہی کام کرتے رہے ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ الائنس کرنے کے بعد بھی راشٹریہ لوک دل ’آر ایل ڈی‘ کے مسلم اراکین اسمبلی نے نہ تو انہیں چھوڑا ہے اور نہ ہی باغی رخ اختیار کیا ہے بلکہ وہ جینت چودھری کے ساتھ بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مسلم اراکین اسمبلی اجیت پوار کے ساتھ بھی بنے ہوئے ہیں اور حال ہی میں بابا صدیقی نے کانگریس چھوڑ کر این سی پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔

نیشنل کانگریس پارٹی پر قبضہ جما کر بی جے پی کے ساتھ مل کر ریاست مہاراشٹرا کے نائب وزیراعلٰی بنے اجیت پوار مسلمانوں کو اپنے حق میں لانے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں رائے گڑھ میں ایک اجلاس کے دوران مسلمانوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آئے۔ اجیت پوار نے مسلم خواتین کو ایجوکیشن کے مین اسٹریم میں لانے کے لئے خواتین اور مردوں کے لئے الگ الگ ہاسٹل بنانے کی بات کہی ہے۔ اس دوران قبرستانوں اور عیدگاہوں کو تجاوزات (انکروچمنٹ) سے بچانے کے لئے حفاظتی دیواروں کی تعمیر، اردو اسکولوں میں اساتذہ کی بھرتی، ذات پات کی مردم شماری، مسلمانوں کو خصوصی ریزرویشن دینے اور پسماندہ طبقات کے لئے بنائی گئی ’بارٹی‘ کی طرز پر مسلمانوں کے لئے ’مارٹی‘ کی تشکیل کا مطالبہ کیا، اسے مسلمانوں کو جوڑنے کے نقطہ نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

مہاراشٹر میں مسلمانوں کے ایک حصے میں ادھو ٹھاکرے کی گرفت مضبوط ہورہی ہے۔ کانگریس، شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کے ایک ساتھ آنے کی وجہ سے 2024ء میں مسلم ووٹوں کے بکھرنے کا امکان کم نظر آتا ہے۔ ریاست میں مسلم ووٹروں کی تعداد تقریباً 16 فیصد ہے، جن میں اسدالدین اویسی اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ کانگریس اور ادھو ٹھاکرے بھی ان پر نظر جمائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں مسلم ووٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے فرنٹ فٹ پر آنے کے بجائے بی جے پی اجیت پوار کے ذریعہ بیک ڈور کارڈ کھیل رہی ہے تاکہ مسلمانوں کے ایک طبقے کے کچھ ووٹ جوڑے جا سکیں۔ اس فارمولے کے تحت اجیت پوار نے کانگریس کے سینئر لیڈر رہے بابا صدیقی کو شامل کیا ہے اور شرد پوار کے قریبی نواب ملک بھی ان کے ساتھ ہیں۔

بہار کے وزیراعلٰی نتیش کمار کی سیاسی کروٹ کے ساتھ ہی بہار کے سیاسی حالات بدل گئے ہیں۔ بھلے ہی نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ مل کر دوبارہ حکومت بنائی ہے، اب ان کی توجہ مسلم ووٹوں کو برقرار رکھنے پر ہے۔ حالانکہ نتیش کمار اس سے پہلے بھی بی جے پی کے ساتھ تھے، اس لئے انہیں مسلمانوں کے ایک طبقے کا ووٹ ملتا رہا ہے، لیکن ان کی گرفت تھوڑی کمزور ہوگئی ہے۔ 2020ء میں جے ڈی یو سے ایک بھی مسلم ’ایم ایل اے‘ منتخب نہیں ہوسکا، اس لئے نتیش کمار نے بی ایس پی کے ٹکٹ سے ایم ایل اے زمان خان کو کابینہ کا حصہ بنایا تھا۔ جے ڈی یو نے 11 مسلم امیدوار کھڑے کئے تھے، جبکہ 2015ء میں پارٹی کے 5 مسلم ایم ایل اے تھے۔ مانا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے کے بعد نتیش کمار ایک بار پھر زمان خان کو وزیر بنا سکتے ہیں۔

دراصل بہار میں تقریباً 16 فیصد مسلم ووٹرس ہیں۔ ریاست میں پارلیمنٹ کی 8 سیٹیں ایسی ہیں، جہاں مسلم ووٹروں کا اہم رول ہے۔ ان علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی 20 سے 40 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ سیمانچل کی چاروں پارلیمانی سیٹوں پر مسلم ووٹرس فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں۔ بی جے پی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ نتیش کمار کے مخالف کیمپ میں ہونے کی وجہ سے مسلم ووٹ متحد رہ سکتا ہے، جس کی وجہ سے اسے کئی سیٹوں پر سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نتیش کمار کے این ڈی اے میں شامل ہونے کے بعد بی جے پی کو پچھلے دروازے سے مسلم ووٹروں کو جوڑنے کا آپشن نظر آرہا ہے، کیونکہ جے ڈی یو مسلم لیڈروں کے ساتھ الیکشن لڑتی رہی ہے اور ووٹ بھی حاصل کرتی رہی ہے۔ ایسے میں بی جے پی سے ہاتھ ملانے کے بعد نتیش کمار اب مسلم طبقے کا اعتماد جیتنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کے لئے انہوں نے اپنے قریبی مسلم لیڈروں کو اس مہم میں لگا دیا ہے۔

سماجوادی پارٹی کے ساتھ الائنس توڑ کر بی جے پی کے ساتھ آئے آر ایل ڈی کے سربراہ جینت چودھری کا سیاسی گراف مغربی اترپردیش کے علاقے میں ہے۔ ان کی پکڑ جاٹ ووٹروں کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان بھی ہے۔ مغربی اترپردیش کی کئی سیٹوں پر مسلم ووٹر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں، جو کسی بھی پارٹی کا کھیل بنانے اور بگاڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان بی جے پی جانتی ہے کہ اس کی کتنی پکڑ ہے اور اگر کھل کر انہیں توجہ دی گئی تو پھر ہندو ووٹوں کے ناراض ہونے کا خدشہ ہے۔ بی جے پی نے اسی صورتحال کے پیش نظر جینت چودھری کو اپوزیشن کے خیمے سے اپنے ساتھ لائی ہے تاکہ جاٹ ووٹوں کو یکطرفہ طریقے سے اپنے ساتھ لایا جاسکے اور مسلمانوں کو پچھلے دروازے سے اپنے پالے میں لایا جاسکے۔

دراصل مسلمان اور جاٹ ووٹرس ہی ’آر ایل ڈی‘ کے روایتی ووٹرس رہے ہیں۔ کچھ مواقع کو چھوڑ دیا جائے تو چودھری چرن سنگھ، چودھری اجیت سنگھ سے لے کر جینت چودھری تک ان طبقوں کا تقریباً یکمشت ووٹ آر ایل ڈی کو ملتا رہا ہے۔ اسی فارمولے کی بدولت اجیت سنگھ مرکز اور صوبے کی سیاست میں اپنی شناخت بنائے رکھنے میں کامیاب رہے تھے۔ جینت چودھری کے بی جے پی کے ساتھ جانے سے سیاسی حالات بدلے ہیں، لیکن آر ایل ڈی کے مسلم اراکین اسمبلی نے بھی ابھی تک ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ مسلم ووٹوں کو ساتھ رکھنے کے لئے جینت چودھری اترپردیش میں اپنے ایک مسلم ایم ایل اے کو وزیر بھی بنوا سکتے ہیں۔ بی جے پی سے الائنس کرنے کے بعد بجنور ضلع کے سیوہارا کے مسلم چیئرمین فیصل وارثی نے آر ایل ڈی کا دامن تھام لیا ہے۔ شاہد صدیقی، ڈاکٹر معراج الدین اور احتشام خان جیسے مسلم لیڈر آر ایل ڈی میں ہیں، جن کا مغربی اترپردیش کی سیاست میں ایک اہم نام ہے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی بھلے ہی مسلم ووٹوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے کھل کر کوئی کھیل نہ کھیل رہی ہو، لیکن اپنی اتحادی جماعتوں کے ذریعہ وہ ضرور یہ حربہ آزمائے گی۔ مسلم ووٹ ملک کی کئی ریاستوں میں فیصلہ کن کردار میں ہیں، جنہیں بغیر ساتھ لئے این ڈی اے چار سو پار کے نمبر تک نہیں پہنچ سکتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں جس طرح سے متحد ہوکر 2024ء کے پارلیمانی الیکشن میں اترنے کا پلان بنا رہی ہیں، اس کے پیچھے ایک حکمت عملی مسلم ووٹوں کو متحد رکھنے کی ہے۔ اس بات کو بی جے پی بخوبی سمجھ رہی ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ مسلم ووٹرس اگریکمشت ووٹ اس کے خلاف کسی ایک پارٹی کو ووٹ کرتے ہیں تو پھر ملک میں 80 پارلیمانی سیٹیں وہ نہیں جیت سکے گی۔ بی جے پی کی حکمت عملی ہے کہ مسلم ووٹوں کو براہ راست چھیڑنے کے بجائے اتحادی پارٹیوں کے ذریعہ یہ کام انجام پائے اور اس کے لئے بی جے پی کمر بستہ ہے اور کوئی ایک دقیقہ بھی ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1118345
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش