0
Wednesday 28 Feb 2024 18:16

امریکی شہریوں کی ترجمانی!

امریکی شہریوں کی ترجمانی!
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

پیر 26 فروری کے دن یہ اتفاق پیش آیا، جب دنیا کے میڈیا میں ایک دھماکہ خیز خبر سامنے آئی۔ امریکی فضائیہ کے ایک افسر نے غزہ میں اسرائیلی حکومت کے بھیانک جرائم پر احتجاج کرتے ہوئے خود کو "واشنگٹن ڈی سی" میں صہیونی سفارت خانے کے سامنے پہنچا کر اپنے آپ کو آگ لگا دی۔ اس کا کہنا تھا کہ میں غزہ میں ہونے والی نسل کشی میں مزید شریک نہیں بننا چاہتا۔ "میں اب غزہ میں ہونے والی نسل کشی میں شراکت دار نہیں بننا چاہتا، یہ ایک کلیدی جملہ تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی مسلح افواج غزہ جنگ میں شامل ہیں اور امریکی فوجی کا بیان غزہ میں ہونے والے خوفناک جرائم میں شرکت کی گواہی ہے۔ 150 دنوں سے بھی کم عرصے میں تقریباً 30,000 لوگوں کا قتل عام، جن میں سے 90% عام شہری اور تقریباً 12000 کم سن اور شیر خوار بچے شامل ہیں۔ یہ تمام واقعات ضمیر رکھنے والے شخص کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔

اس واقعہ سے متعلق اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس خود سوزی کا امریکی مسلح افواج پر کیا اثر ہوسکتا ہے۔ گذشتہ روز الجزیرہ ٹی وی نیٹ ورک کے ماہر "خلیل العنانی" نے اس ٹی وی چینل پر آکر اس واقعے کو امریکہ کے لئے ایک بڑا صدمہ قرار دیا۔ العنانی کے مطابق یہ واقعہ امریکی فوج کو سخت نقصان پہنچا سکتا ہے، کیونکہ امریکی مسلح افواج میں بہت سے نوجوان ایسے ہیں، جو اپنے ریاستی حکمرانوں کے خلاف ہیں اور وہ اسرائیل جیسی حکومت کا دفاع کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہم ایک نوجوان کی بات کر رہے ہیں، ایک فوجی جس کی عمر صرف 25 سال ہے۔۔۔۔ اس نے غزہ میں جو کچھ دیکھا، اس نے اس کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ایک بے مثال اقدام کیا۔ انہوں نے ایک ایسے معاملے کے بارے میں بہت واضح طور پر بات کی ہے، جسے امریکہ میں ابھی تک سرکاری طور پر نسل کشی کے طور پر قبول نہیں کیا  گیا ہے۔

وہ ایک انتہائی اہم فوجی ادارے سے وابستہ ہے، ایک ایسا ادارہ جس کا خطے میں سنجیدہ کردار ہے اور اس میں بحیرہ احمر اور غزہ کی پٹی دونوں شامل ہیں۔ اس نے یہ بات واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے کی۔ ایک  ایسا علامتی اور موثر عمل جس سے کسی کو نقصان نہ پہنچا۔ گویا اس نے اپنے آپ کو انسانی ہمدردی اور ایک مقصد کے لیے قربان کر دیا۔ اس نوجوان نے جو امریکہ کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں موجود ہے، اس نے امریکی احساسات و جذبات کی بڑی حد تک نمائندگی و ترجمانی کی ہے۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ یہ واقعہ امریکی نوجوانوں کی برین واشنگ اور پروّپیگنڈوں میں امریکہ کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ نوجوان ان امریکیوں میں شامل ہے، جنہیں اسرائیل کی غیر معینہ مدت تک حمایت کرنے کے لیے برین واش کیا گیا ہے۔ ہم ایک بہت اہم اثر کے بارے میں بات کر رہے ہیں، خاص طور پر اس جیسے دوسرے لوگوں پر جو امریکی حکام کی پالیسیوں پر نالاں ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرنے والے دو تہائی نوجوان بائیڈن انتظامیہ اور ڈیموکریٹس کی پالیسیوں سے بڑے پیمانے پر غیر مطمئن ہیں۔ اسرائیل کے حوالے سے اس واقعہ کے عوامی رائے کی سطح پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسا نہیں لگتا کہ علاقائی مسائل کے حوالے سے امریکی پالیسیوں پر کوئی اثر پڑے گا۔ لیکن عوامی رجحان کے حوالے سے امریکی فوج کو بہت بڑا جھٹکا پڑے گا۔"

محمد بوعزیزی کی تکرار
کچھ لوگوں نے 25 سالہ امریکی فضائیہ کے افسر ہارون بشنیل کی خود سوزی کا موازنہ 2010ء میں تیونس کے 26 سالہ محمد بوعزیزی کی خود سوزی سے کیا ہے۔ بوعزیزی نے اپنی خود سوزی کے ذریعے مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ میں امریکہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے کچھ آمروں اور بادشاہوں کے خاندانی اقتدار کو تباہ کر دیا تھا۔ سائبر اسپیس میں ’’بشنیل‘‘ کی کئی تصاویر شائع ہوچکی ہیں۔ امریکی سیاستدانوں نے اب تک اس واقعہ پر خاموش رہنے کو ترجیح دی ہے۔ امریکہ اور صیہونی حکومت سے وابستہ فارسی زبان کے ذرائع ابلاغ نے بھی اس کہانی کی حقیقت کو "un seen" قرار دینے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ تاہم صہیونی اس اسکینڈل کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’تضحیک‘‘ کا ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔

ایک ہتھیار جسے بھوک کہتے ہیں
ان تمام مظاہروں اور سکینڈلز کے باوجود مجرم صیہونی حکومت اب بھی امریکی سیاستدانوں کی حمایت سے نسل کشی میں مصروف ہے۔ یہ نسل کشی صرف ملٹی ٹن بموں یا فاسفورس سے نہیں ہوتی۔ یہ صرف ہسپتالوں اور پناہ گاہوں پر بمباری کرنے سے نہیں ہوتی۔ "بھوک کا ہتھیار" ان ہتھیاروں میں سے ایک ہے، جسے وہ کچھ عرصے سے غزہ میں رہنے والے شہریوں کو مارنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس نسل کشی کا مقصد مسلح فلسطینی نوجوانوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔ اس سلسلے میں یونیسیف نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں 10 لاکھ بچوں کو غذائی تحفظ نہیں ہے اور وہ بھوکے ہیں اور انہیں صحت کے بحران کا سامنا ہے۔

یونیسیف تنظیم نے یہاں تک اس بات پر زور دیا ہے کہ "غزہ میں 95 فیصد سے زیادہ فلسطینی خاندانوں نے بالغوں کے کھانے میں کمی کر دی ہے، تاکہ بچوں کو زیادہ خوراک مل سکے۔ اس وقت انسانی امداد کو محفوظ اور غیر مشروط طریقے سے پہنچانے کی ضرورت ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ تباہ شدہ فلسطینی کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں۔ غزہ پٹی میں قطر نے صہیونیوں پر نسل کشی کا الزام بھی لگایا ہے۔ جیسا کہ ٹیلی گرام چینل "فلسطین نیوز" نے لکھا ہے، قطر کے بین الاقوامی تعاون کے وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ صہیونی فوج غزہ میں جو کچھ کر رہی ہے، وہ نسل کشی ہے۔

"لولوح خاطر" نے مزید کہا ہے کہ 2023ء مغربی کنارے میں فلسطینی شہریوں کے لیے خونی ترین سال تھا، کیونکہ صیہونی حکومت نے اس سال مغربی کنارے پر اپنے حملے تیز کر دیئے، جس کے دوران 400 کے قریب افراد شہید ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک سلامتی کونسل تین مرتبہ غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس قطری وزیر نے زور دے کر کہا کہ سلامتی کونسل جدید تاریخ میں ایک بار پھر جنگ بندی کی قرارداد جاری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قطری وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ ہم فوری جنگ بندی اور غزہ پر کسی بھی حملے اور جارحیت کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

 انتقام
مسلح فلسطینی نوجوانوں نے نسل کشی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس دباؤ کو تسلیم نہیں کیا اور وہ آج بھی صہیونیوں سے نبرد آزما ہیں۔ صیہونیوں نے شدید سنسرشپ کے باوجود اپنے تقریباً 600 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ ایک ایسی تعداد جو اعلان کردہ تعداد سے دوگنا یا تین گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ گذشتہ روز اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں گذشتہ 24 گھنٹوں کی لڑائی کے دوران اس کے 7 فوجی زخمی ہوئے اور اب تک  2,981 افسر اور فوجی زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 1,421 زمینی کارروائیوں کے دوران زخمی ہوئے۔ ان زخمیوں میں سے 465 قریب المرگ ہیں۔

گذشتہ روز خان یونس میں چار صہیونی فوجیوں کو مسلح فلسطینی نوجوانوں نے جہنم واصل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس "میزائل" حملے میں صہیونیوں کی ایک بڑی تعداد زخمی بھی ہوئی ہے۔ گذشتہ روز الزیتون محلے میں صیہونی حکومت کی ایک بکتر بند گاڑی کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل اعلان کیا گیا تھا کہ اس عرصے میں صیہونیوں کے تقریباً 1000 ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تباہ ہوئي ہیں۔

مظاہرے جاری ہیں
تاہم مغربی اور عرب ممالک کے سیاستدانوں کے برعکس دنیا بھر کے ممالک کے عوام مظلوم فلسطینی قوم کو ایک دن کے لیے بھی نہیں بھولے اور سڑکوں پر مظاہرے کرکے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کر رہے ہیں۔ گذشتہ روز بائیڈن کے CNN ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی عمارت میں داخل ہونے سے پہلے، امریکی عوام کے ایک گروپ نے عمارت کے سامنے امریکی حکومت کی طرف سے صیہونی حکومت کی حمایت کے خلاف نعرے لگائے۔

جنگ بندی، جھوٹ یا حقیقت؟
کچھ عرصے سے مغربی میڈیا، شخصیات اور صیہونی حکومت کے حامی یہ کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات اچھے طریقے سے جاری ہیں اور اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ کل بائیڈن کی آئس کریم کھاتے ہوئے تصاویر جاری کی گئیں، جس میں کہا گیا ہے کہ "اگلے پیر تک جنگ بندی کا اعلان ہونے کا امکان ہے۔" رائٹرز نے بھی اس معاہدے کے بارے میں لکھا اور اس کی تفصیلات حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ادھر حماس کا کہنا ہے کہ یہ تمام خبریں سراسر جھوٹ ہیں اور صیہونی حکومت کے حامی ان افواہوں سے نفسیاتی جنگ کر رہے ہیں۔ رائٹرز نے اپنی رپورٹ کے ایک حصے میں دعویٰ کیا ہے کہ حماس اپنے بعض مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1119171
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش