0
Thursday 29 Feb 2024 12:44

اسرائیل کیلئے حزب اللہ کا سرپرائز کیا ہے؟ (1)

اسرائیل کیلئے حزب اللہ کا سرپرائز کیا ہے؟ (1)
تحریر: لیاقت تمنائی

2006ء کی اسرائیل حزب اللہ جنگ شروع ہوتے ہی امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے اعلان کیا تھا کہ اب نیا مشرق وسطیٰ جنم لے گا۔ ان کا مطلب ایسا مشرق وسطیٰ جہاں حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت کا وجود ہی نہ ہو۔ 33 روز تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد نیا مشرق وسطیٰ واقعی میں وجود میں آچکا تھا، لیکن وہ کونڈولیزا رائس والا مشرق وسطیٰ نہیں بلکہ مزاحمت کے محور کا مشرق وسطیٰ، جس میں اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کا تصور پاش پاش ہو کر رہ گیا۔ 2006ء کی جنگ کو دو عشرے مکمل ہونے کے قریب ہیں، ان 18 سالوں میں مشرق وسطیٰ میں اسلامی مزاحمت ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے، صیہونی جارحیت کو ایک سو پینتالیس روز گزرنے کے باوجود حماس کی ثابت قدمی ثابت کرتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسلامی مزاحمت کس قدر طاقتور ہے اور اسرائیل کے اندازوں سے کئی گنا مضبوط ہے۔

یہ 2006ء کا Scenario بن رہا ہے، یعنی اسرائیل کے غلط اندازے، اینٹیلجنس ناکامی۔ اگر ہم حزب اللہ کی بات کریں تو یہ اسرائیل کے تصور سے کئی گنا آگے ہے۔ حالیہ طوفان الاقصیٰ کے دوران ہم اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ حزب اللہ کے تابڑ توڑ حملوں کے باوجود صیہونی ریاست اسلامی مزاحمت کیساتھ مکمل جنگ سے گریز کر رہی ہے اور اس جنگ کو "سرحدی جھڑپوں" تک محدود رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اگر مکمل جنگ چھڑ جاتی ہے تو صیہونی حکومت کو جو خمیازہ بھگتنا پڑے گا، اس کا بخوبی اندازہ خود انہیں ہے۔ اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت میں صیہونی تجزیہ کار ایوی اسکاروف نے ایک آرٹیکل میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ لبنان سرحد پر کشیدگی بڑھ رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ دونوں فریقین مکمل جنگ کی طرف بڑھیں، لیکن اس بات کا کوئی اندازہ نہیں کہ اسرائیل کے مکمل حملے کی صورت میں حزب اللہ کا ردعمل کیا ہوگا۔

صیہونی ریاست کے خوف کی سب سے بڑی وجہ حزب اللہ کے مقابلے میں اس کی مکمل انٹیلیجنس ناکامی ہے۔ اسرائیل کو کوئی اندازہ نہیں کہ حزب اللہ کے پاس کس قسم کی عسکری صلاحیت اور ٹیکنالوجی ہے۔ حالیہ جنگ میں حزب اللہ جب سے انٹر ہوئی ہے اپنا کارڈ بڑے منظم اور ٹیکنیکل انداز میں کھیل رہی ہے اور ایک ایک کرکے صیہونی حساس تنصیبات کو نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں میں اندھا دھند گولہ باری کر رہا ہے۔ عسکری ماہرین کے نزدیک حالیہ جنگ میں حزب اللہ کی کارروائیاں بہت ہی منظم، accurate اور دنیا کی کسی بھی تربیت یافتہ فوج سے کم نظر نہیں آتیں۔
 
جنگ سے پہلے امن کا دورانیہ درحقیقت جنگ کی تیاری کا وقت ہوتا ہے، حزب اللہ نے اس دورانیہ کو بڑے اچھے انداز میں استعمال کیا ہے اور اس دوران شام میں دہشتگردوں کیخلاف کارروائیوں میں بھی اچھے خاصے تجربے حاصل کیے ہیں، یہ تجربے حالیہ جنگ میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ حالیہ جنگ میں حزب اللہ کی پلاننگ کے کچھ پہلو ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اسلامی مزاحمت نے محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے اور اپنے سارے کارڈ شو ہی نہیں کر رہی، وہ چن چن کر لبنانی سرحد پر حساس ترین صیہونی تنصیبات کو تباہی کر رہی ہے۔

ان فوجی تنصیبات میں جدید ترین جاسوسی کے آلات، عسکری انسٹالیشن موجود ہیں، لبنانی سرحد پر 90 فیصد فوجی تنصیبات حزب اللہ کے حملوں سے بری طرح متاثر یا مکمل تباہ ہوچکی ہیں۔ میرون بیس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ بیس اسرائیل کی حساس ترین فوجی تنصیبات میں شمار ہوتا ہے، جو اب حزب اللہ کے بار بار حملوں سے غیر موثر ہو کر رہ گیا ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق اسرائیل لبنان سرحد پر صیہونی عسکری انسٹالیشن اور آلات کو چن چن نشانہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ مکمل جنگ چھڑ جانے کی صورت میں حزب اللہ کو مقبوضہ سرحدوں میں پیش قدمی میں آسانی ہوگی۔

کیونکہ لبنانی سرحد پر موجود ان تنصیبات اور جاسوسی مراکز سے صیہونی فوج چوبیس گھنٹے جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں میں ہر قسم کے نقل و حرکت پر نظر رکھتی ہے۔ یہ جنگ جوں جوں طول پکڑتی جا رہی ہے، لبنان کی اسلامی مزاحمت روز ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے اور نئے ہتھیاروں کی "نقاب کشائی" کر رہی ہے۔ حزب اللہ نے نئے ہتھیاروں کی نقاب کشائی کے ساتھ ساتھ صیہونی ٹھکانوں پر بے مثال حملے کیے ہیں اور انہیں تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے بڑے ہرمیس 450 ڈرون کو جسے حزب اللہ نے گذشتہ دنوں الطوفہ کے علاقے میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سے مار گرایا تھا، آج بھی صہیونی حلقوں میں موضوع بحث ہے اور قابض افواج کی گہری تشویش کا باعث ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1119319
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش