1
0
Thursday 29 Feb 2024 14:06

انتخابات اور امام خمینی کا نقطہ نظر

انتخابات اور امام خمینی کا نقطہ نظر
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
 
یہ 1979ء کی بات ہے، انقلاب اپنے عروج پر تھا اور امام خمینیؒ کی قیادت  میں انقلاب کا نعرہ استقلال، آزادی اور حکومت اسلامی کی صورت میں ایران کی گلی کوچوں میں گونج رہا تھا۔ یہ نعرہ اس وقت استقلال، آزادی اور جمہوری اسلامی میں تبدیل ہوا، جب امام خمینی نے انقلاب کے بعد ایران کا نام اسلامی جمہوریہ ایران قرار دیا۔ امام خمینی کے پاس جب نئے نظام کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران سمیت مختلف نام لائے گئے تو آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کا انتخاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ نہ ایک لفظ کم نہ ایک کلمہ اضافہ۔ امام خمینی نے اس طرح ساری دنیا کے سامنے اس بات کا اعلان کر دیا کہ انقلاب کا مقصد شہنشاہی حکومت کا خاتمہ اور ایک جمہوری و عوامی حکومت کا قیام ہے، جس کی بنیاد اسلام کے احکامات اور قوانین پر ہوگی۔

جمہوری اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینیؒ نے اپنے پیغامات اور تقاریر میں شہنشاہی حکومت کے مقابلے میں اسلامی احکام اور عوامی آراء کی بنیاد پر حکومت کی تشکیل دینے پر مسلسل تاکید فرمائی ہے۔ امام خمینیؒ نے سب سے پہلے جمہوری اسلامی کی اصطلاح پیرس میں اپنے مدنظر آئیڈل نظام کی وضاحت کے لئے استعمال کی۔ جمہوریت کا معنی وہی رائج معنوں میں اس کی عوامی بنیاد پر قائم ہونا ہے۔ انہوں نے 12 اکتوبر 1978ء میں ایک صحافی کے جمہوری اسلامی کی شکل و صورت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرمایا: "اسلامی ریاست اور جمہوری اسلامی ایک ایسی ریاست ہے، جس کی بنیاد عوامی آراء اور ریفرنڈم پر ہوگی۔"

اس بنیاد پر جمہوریت سے مراد ایسا نظام ہے، جس میں عوام کو اپنے سیاسی نظام اور اپنے حکمرانوں کے انتخاب کی جانب متوجہ کیا گیا ہے اور یہ چیز امام خمینی کے مورد نظر حکومت کی شکل و صورت کو تشکیل دیتی ہے۔ اس نظام میں عوام کی حیثیت اسلامی جمہوریہ کو قانونی حیثیت دینے والے ایک رکن کی ہے اور عوام کی آراء کی حیثیت صرف نظام کی ابتدائی تشکیل تک محدود نہیں بلکہ جمہوری اسلامی عوام کی مسلسل شرکت، موجودگی اور حکومتی اہلکاروں پر ان کی نظارت کی بھی علامت ہے۔ البتہ امام کی نطر میں اس کے ساتھ ساتھ اسلامیت کو بھی نظام کے ایک اہم رکن کی حیثیت حاصل ہے، جس پر انہوں نے بارہا تاکید کی ہے۔ درحقیقت یہی رکن ہی ہے، جو جمہوری اسلامی کو مغربی جمہوریت سے ممتاز کرتا ہے۔ اسلام ایک ایسے نظام کو تشکیل دیتا ہے، جس میں اسلامی ضوابط، احکامات، اسلامی مقررات، سیاست اور قوانین کی اصلی و حقیقی بنیاد شمار ہوتے ہیں۔

امام خمینی (رح) کے زاویۂ نگاہ سے انتخاب کے معیار
اسلامی اور قومی قوانین کی تدوین کے لئے قوم کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والے افراد کی عظیم ذمہ داری اور کردار کے پیش نظر ان منتخب افراد کو ایسی خصوصیات کا حامل ہونا چاہیئے، جس سے متعلقہ مقاصد حاصل کئے جاسکیں۔ تمام قوانین اور طاقتوں کا مرکز پارلیمنٹ ہے۔ پارلیمنٹ رہنمائی کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کے کردار اور فرض کے پیش نظر قوم کو اپنے امیدواروں کا انتخاب کرنا چاہیئے، جو ہر اعتبار سے اپنی قوم کی نمائندگی کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ وہ نظام کے دو اہم ارکان یعنی جمہوریت اور اسلام پر یقین رکھتے ہوں، تاکہ بلز اور تجاویز کے جائزے کے وقت ان دو اہم ارکان کو مدنظر رکھیں۔

بانی انقلاب اسلامی نے اپنے ایک اور خطاب میں پارلیمنٹ کے اراکین کی خصوصیات کے بارے میں فرمایا ہے: "میں انکساری کے ساتھ آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ ممکنہ حد تک افراد کو منتخب کرنے کے سلسلے میں آپس میں اتفاق رائے پیدا کریں، اسلامی، فرض شناس اور اللہ تعالی کے صراط مستقیم سے نہ ہٹنے والے افراد کو مدنظر رکھیں۔ اسلام اور اپنے ملک کی تقدیر ایسے افراد کو سونپیں جو اسلام، اسلامی جمہوریہ اور آئين کے قائل ہوں، اللہ تعالی کے نورانی احکامات پر ایمان رکھتے ہوں اور ذاتی مفاد کو ملک کے مفاد پر ترجیح نہ دیتے ہوں۔" امام خمینی (رح) نے بارہا صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ علمائے دین سمیت کسی کو بھی عوام پر اپنی رائے مسلط کرنے کا حق نہیں ہے اور یہ فقط عوام کا حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں۔ جمہوریت یہ ہے کہ اکثریت کے ووٹ، وہ بھی ایسی اکثریت جو قابل قبول ہے۔ اکثریت کا جو فیصلہ ہو، وہ قابل قبول ہے۔

آپ نے تاریخ میں درج کرنے کے لئے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ جمہوریہ کے وہی معنی ہیں، جو دوسری جگہوں پر مراد لئے جاتے ہیں۔ لیکن یہ جمہوریہ ایک ایسے آئین پر استوار ہے، جس کی بنیاد اسلام کا قانون ہے۔ ہم جب اسلامی جمہوریہ کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ منتخب ہونے والے افراد کی خصوصیات اور ایران میں نافذ کئے جانے والے احکامات کی بنیاد اسلام ہے۔ لیکن انتخاب کا حق قوم کا ہے اور جمہوریت کی طرز وہی ہے، جو سب جگہ ہے۔ امام خمینی (رح) نے انتخابات میں عوام کی شرکت کی اہمیت کے بارے میں فرمایا ہے: "یہ ایک الہیٰ فرض ہے، یہ قومی فرض ہے، یہ انسانی فرض ہے، جو ہمیں ادا کرنا ہے، ہم سب کو انتخابات میں حصہ لینا چاہیئے۔"

امام خمینیؒ نے فقہی، سیاسی اور انسانی حقوق کو سمجھنے کے حوالے سے بہت اہم اقدامات اٹھائے اور نئے در کھولے ہیں۔ انہوں نے فقہی مباحث میں انسانی حقوق کے حوالے سے انسان کی اہمیت اور اس کی عرفانی شخصیت کو داخل کیا اور اجتہاد میں دو اہم عناصر زمان اور مکان کو بنیاد بناتے ہوئے معاصر انسان کے لئے متناسب اسلامی نصوص کے فہم و ادراک کے لئے صاحب نظر افراد کے لئے نئے افق روشن کئے۔ امام خمینیؒ انقلاب کے رہبر اور جمہوری اسلامی کے بانی کے حیثیت سے اپنی تقاریر میں معاشرے میں افراد کی قانون کی رو سے برابری اور مساوی ہونے پر تاکید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اسلام، مساوات اور بھائی چارے کا دین ہے۔اسلام میں جو چیز اہمیت کی حامل ہے، وہ تقویٰ، طہارت، بھائی چارہ اور مساوات ہے۔ افراد کی امتیازی حیثیت صرف ان کی عدالت اور تقویٰ کی بناء پر ہے۔ قانون کے  مقابلے میں تمام افراد برابر ہیں اور سب کو قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہیئے۔

امام خمینیؒ اسلامی معاشرے میں مساوات کی مثال دیتے ہوئے حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی معاشرے کے رہبر کی حیثیت سے ایک یہودی کے مقابلے میں قانونی لحاظ سے برابری کا ذکر کرتے ہوئے اس داستان کو معاشرے میں اسلامی رویہ اور سلوک کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں۔ امام خمینی ؒ کی نظر میں دینی اور مذہبی اقلیت ہونا سیاسی حقوق سے محرومیت کا باعث نہین بنتا اور حتیٰ انہیں پارلیمنٹ میں اپنے نمائندوں کے تعین کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ امام خمینیؒ اپنے الہٰی وصیت نامے میں اقلیتوں کا ذکر کرنا نہیں بھولے اور انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: "مذہبی اقلتیوں کو باقاعدہ وصیت کرتا ہوں کہ وہ پہلوی دور کی حکومت سے عبرت لیں اور اپنے نمائندوں اور وکیلوں کا انتخاب اپنے مذہب اور جمہوری اسلامی کے پابند افراد میں سے کریں، جو عالمی استعماری طاقتوں کے آلہ کاروں سے وابستہ نہ ہوں، جو ملحد اور انحرافی و التقاطی مکاتب کی طرف مائل نہ ہوں۔
خبر کا کوڈ : 1119374
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
جمھوری اسلامی ایران رسمی سرکاری آج بھی یہی نام, فارسی اردو سے ملتی جلتی زبان ہے، درست حرف بہ حرف استقلال, آزادی. جمھوری اسلامی یہ نعرہ تھا۔
ہماری پیشکش