1
0
Monday 5 Dec 2011 09:44

کربلا، درس تسلیم و رضا

کربلا، درس تسلیم و رضا
تحریر:علامہ محمد رمضان توقیر
 
محرم الحرام کا متبرک و مبارک مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ ان ایام میں یوں تو تاریخ انسانی و اسلامی میں کئی ایک واقعات، سانحات، حادثات اور منسوبات موجود ہیں لیکن گذشتہ چودہ سو سال سے محرم کا مہینہ بالخصوص پہلا عشرہ نواسۂ رسول، جگر گوشہ بتول، دلبند امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ع، امام عالی مقام حضرت امام حسین ع کے ساتھ منسوب و منسلک ہو چکا ہے۔ رسول پاک ص اور آل رسول ص کے ساتھ تمام مسلمانوں کی محبت، عقیدت اور ایمان تو اپنے مقام پر واضح اور روشن ہے لیکن ان پاک ہستیوں کے ساتھ مسلمانوں سے ہٹ کر پوری انسانیت محبت و ہمدردی اور احترام کے ساتھ پیش آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیاں گذرنے کے باوجود حسین ع اور کربلا کا ذکر آج بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ زندہ و قائم ہے۔
 
امام حسین ع اور کربلا کے ساتھ یوں تو متعدد موضوعات وابستہ ہیں، ہزاروں واقعات منسلک ہیں، متعدد تاریخی حقائق موجود ہیں، لیکن آج ہم تسلیم و رضا جیسے اہم موضوع کی طرف آپ کی توجہ مرکوز کریں گے اور جائزہ لیں گے کہ امام عالی مقام نے مصائب و آلام اور مشکلات و حادثات کے جم غفیر میں کس طرح صبر، تسلیم، رضا اور حکمت کا مظاہرہ فرمایا اور اس کا نتیجہ کس طرح حاصل کیا۔؟ 

صبر و تسلیم و رضا کی تاریخ انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ چلی آ رہی ہے، خدا کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے، خدا کی مرضی کے ساتھ اپنی رضا شامل کرنے اور خدا کے فیصلوں کو من وعن تسلیم کرنے کا نام تسلیم و رضا ہے۔ یہ عمل حضرت آدم ع سے شروع ہوا، جنہوں نے خدا کی طرف سے زمین پر بھیجے جانے کے حکم کو تسلیم کیا اور آسمان پر سہولت و عشرت چھوڑ کر زمین میں محنت و مشقت کی زندگی شروع کی، لیکن خدا کے فیصلے سے روگردانی نہیں کی۔
 
اسی طرح حضرت نوح ع نے اپنی قوم کے مظالم سہے، انہیں سینکڑوں سال تبلیغ کی، لیکن مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ ہونے اور قوم کی بدکرداریوں میں اضافہ ہونے کے بعد جب خدا نے ان کی قوم پر عذاب نازل فرمایا اور ان کی بیوی اور بیٹے سمیت تمام لوگ غرق ہوئے، تب بھی حضرت نوح ع نے خدا کے فیصلے کو تسلیم کیا اور صبر کیا۔ 
پھر حضرت موسی ع کی زندگی کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے فرعون جیسے طاغوت سے ٹکر لی اور آگ میں جلنے جیسے فرعونی عمل سے گذر گئے، لیکن صبر و تسلیم کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ حضرت ایوب ع کا صبر تو دنیا میں ایک مثال بن چکا ہے۔ پھر حضرت یعقوب ع و حضرت یوسف ع کا صبر، تسلیم اور رضا کا منفرد انداز بھی دنیائے انسانیت کی روشن مثال ہے۔ جبکہ حضرت ابراہیم ع و حضرت اسماعیل ع نے حکم خدا کے سامنے جس انداز سے اپنے آپ کو پیش کیا اور خواب کی شکل میں ہی سہی، لیکن حکم خدا کو پورا کرنے کے لیے اپنے آپ کو ذبح ہونے کے لیے پیش کردیا۔ 

حضرت عیسی ع نے بھی صلیب پر سزا پانا قبول کر لیا لیکن صبر و رضا اور تسلیم سے استفادہ کرنا ترک نہیں کیا۔ یہاں تک کہ صبر و تسلیم و رضا کا یہ سلسلہ پیغمبر گرامی قدر، نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پر تکلیف دور تک پہنچا، جس میں کفار مکہ اور مشرکین نے اول روز سے ہی آپ ص پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، آپ ص کو طرح طرح کی تکالیف دیں، کوڑا کرکٹ ڈالنے والی بڑھیا سے لے کر ابو جہل و ابو لہب کی خونریز جنگوں تک ایذا رسانی کا سلسلہ جاری رہا، لیکن پھر بھی رحمت اللعالمین ص نے خدا کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور صبر و تحمل کے ساتھ ان مشکلات کا مقابلہ کیا یو ں یہ سلسلہ نانے سے نواسے تک آن پہنچا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ میدان کربلا میں 10 محرم کا معرکہ سجنے سے پہلے بھی امام عالی مقام ع حالات کا جائزہ لے رہے تھے اور انہیں مستقبل کے بارے میں واضح رہنمائی مل رہی تھی کہ یزیدی عزائم کس انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں اور یزیدی نظام کسی طریقے سے امام حسین ع سمیت پوری امت کو کچلنے کے لیے آمادہ نظر آرہا ہے۔ اگرآپ ع چاہتے تو اپنے قیام کا ارادہ ترک کرطدیتے اور اپنی جان بچا کر اپنے آل و اصحاب کو بھی ظلم و ستم اور قتل و قتال سے بچا سکتے تھے، لیکن آپ کو معلوم تھا کہ خدا نے کچھ اور طے کر دیا ہے۔
 
خدا نے اپنے قرآن اور پاک پیغمبر ص کی شریعت و سنت کے ذریعے کچھ اور پیغام دیا ہے۔ اس پیغام کو رہتی دنیا اور انسانیت کے آخری فرد تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ سرتسلیم خم کیا جائے اور اپنے آپ کو صبر کے ساتھ خدا کی رضا اور فیصلے کے سامنے جھکا دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ع کسی قسم کی ذاتی، خاندانی، گروہی اور سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے بلکہ صرف اور صرف رضائے خدا اور حکم قرآن و پیغمبر ص کو سامنے رکھتے ہوئے تمام تر مصائب برداشت کرنے کے لیے اپنے اور اپنے آل و اصحاب کو تیار کیا۔

خدا کے حکم کے سامنے تسلیم و رضا کا عملی نمونہ اس وقت سامنے آیا جب روز عاشور اہل بیت ع و اصحاب کے بے گناہ نفوس شہادت کی طرف جانے لگے۔ دن کے لمحات گذرتے گئے اور امام عالی مقام ایک ایک کر کے اپنی قربانی بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے رہے۔ اس دوران مکمل صبر و استقامت کا مظاہرہ فرمایا۔ اپنے دل پارے، جگر گوشے اور پیارے بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں، بھائیوں سمیت اپنے پیارے اصحاب و انصار کو راہ خدا میں پیش کرکے جب یزیدی افواج کے سامنے تنہا کھڑے ہوئے، تب بھی حوصلہ اور ہمت نہیں ہاری بلکہ اس موقع پر بھی یزیدی افواج کو دین خدا، سنت رسول ص اور حکم قرآن کی طرف دعوت دیتے رہے اور پھر صبر و تسلیم کی انتہا اس وقت اپنی آخری حدوں سے گذر گئی، جب امام عالی مقام یہ کہتے ہوئے اپنی جان سے گذر گئے کہ رزن بقضائک و تسلیم لامرک۔
 
اسی صبر و رضا کا نتیجہ ہے کہ چودہ صدیاں گذرنے کے باوجود حسین ع آج بھی زندہ ہیں۔ حسینیت آج بھی زندہ ہے اور جس اسلام کے لیے حسین ع نے صبر و رضا اختیار کی وہ اسلام بھی زندہ ہے، وہ قرآن بھی زندہ ہے، اسلامی احکام بھی زندہ ہیں، انسانیت اور انسانی اقدار بھی زندہ ہیں۔ خداوند تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں امام حسین ع کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے احکام کی خاطر، اپنے نبی ص کی شریعت کے تحفظ کی خاطر، اپنے قرآن پر عمل کی خاطر اور اپنے نبی ص کے آل و اصحاب کی سیرت پر عمل کرنے کی خاطر تمام مصائب، آلام، مشکلات، مصائب، واقعات، حادثات اور دہشتگردی کے سامنے صبر، استقامت، رضا اور تسلیم کے ہتھیار سے مالامال کرے اور ہمیں صحیح معنوں میں صابر و شاکر بنائے، کیونکہ صبر و شکر اور تسلیم و رضا والوں کے لیے جنت الفردوس کا وعدہ اور خوشخبری موجود ہے۔
خبر کا کوڈ : 119513
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

انیه زهره
Pakistan
علامہ رمضان توقیر صاحب کی تسلیم و رضا اور کربلا والی گفتگو اگر کچھ تحقیقی انداز مین ہوتی تو زیادہ بھتر تھا۔
ہماری پیشکش