0
Monday 26 Dec 2011 11:19

قائداعظم رہ سے ملاقات کا احوالِ کرب انگیز

(بابائے قوم کے یوم پیدائش 25 دسمبر کے حوالے سے خصوصی درد دل)
قائداعظم رہ سے ملاقات کا احوالِ کرب انگیز
تحریر:سید اظہار مہدی بخاری

پاکستان کے بانی، محسن، مربی، سرپرست، مالک، ہمدرد، وارث اور حقیقی حکمران حضرت قائداعظم محمد علی جناح رہ کی خدمت، زحمت، جانثاری، فداکاری، بصیرت، تدبر، حکمت عملی اور انداز سیاست و حکمرانی کی تعریف و توصیف پاکستان میں کم و بیش اکثر سرکاری و سیاسی تقاریب میں کی جاتی ہے۔ ۱۹۴۸ء سے لے کر اس لمحے تک یا پھر یوں کہیے کہ لیاقت علی خان سے لے کر آصف علی زرداری تک ہر حاکم قائداعظم ہی کو اپنا رہبر و رہنماء تسلیم کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلنے کے عزم کا اظہار کرتا رہا ہے۔ حتی کہ پاکستان پر غیر قانونی اور غیر آئینی قبضہ کرنے والے آمروں نے بھی اپنی آمریت کو قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر سے تعبیر کرتے ہوئے پاکستان کو قائداعظم کے خطوط کے مطابق چلانے کے اعلانات کئے تھے۔ اسی تسلسل میں ۱۱ ستمبر ۱۹۴۸ء سے اب تک ہر سال بانی پاکستان کی برسی اور سالگرہ نہایت اہتمام اور احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہے اور اس موقع پر بڑھ چڑھ کر عہد کیا جاتا ہے کہ پاکستان کو قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر بنایا جائے گا اور پاکستان کا حلیہ اور نقشہ قائد اعظم کے فرامین کے مطابق مرتب کیا جائے گا۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟ یہ پاکستان کا عام شہری بھی جانتا ہے۔ 

میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اور پاکستان کے مسائل و مشکلات کے حوالے سے بہت حساس اور آگاہ ہونے کے سبب سال کے اکثر ایام میں بالعموم اور ۱۱ ستمبر  و ۲۵ دسمبر کے دنوں میں بالخصوص فکر میں مبتلا ہوتا ہوں کہ قائداعظم نے پاکستان کے بارے میں کیا سوچا، کیا کیا اور کیا فرمایا؟ لیکن بعد میں پاکستان کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا قائداعظم کی روح یہ سب کچھ دیکھ رہی ہو گی؟ گذشتہ ۶۲ سال سے پاکستان کے ساتھ جو کچھ حکمرانوں سمیت تمام طبقات اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کر رہے ہیں اس سے قائداعظم آگاہ ہوں گے؟ وہ براہ راست اپنی چھوڑی ہوئی مسلم لیگوں، بعد میں پیدا ہونے والی پیپلز پارٹیوں اور آمروں کے تشکیل شدہ نظاموں اور جماعتوں کو بھی دیکھ رہے ہوں گے؟ ان کے کارنامے، جرائم، دعوے، کرتوت اور خطرناک عزائم کا ملاحظہ کر رہے ہوں گے؟ اگر ایسا ہے تو قائداعظم کیا سوچتے ہوں گے؟ کیا نتیجہ اخذ کرتے ہوں گے؟ کیا وہ حالیہ ترقی سے خوش ہوں گے؟ کیا وہ پاکستان کو ایک غلام ملک دیکھ کر افسردہ نہیں ہوں گے؟ اور ان کی دی ہوئی امانت ’’پاکستان‘‘ کے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد کا مشاہدہ نہیں کر رہے ہوں گے؟ 

اس قسم کے سینکڑوں سوالات میرے ذہن کے نہاں خانوں سے ابھرتے اور لاجواب ہوکر دفن ہوتے رہتے ہیں بطور مضمون نگار و صحافی میری خواہش رہی ہے کہ جس طرح ان سوالات اور مسائل و مشکلات کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کا موقف حاصل کیا جاتا ہے اور ان کی رائے معلوم کر کے عوام تک پہنچائی جاتی ہے کاش اسی طرح قائداعظم سے بھی میں ان کے پاکستان کے بارے میں تازہ موقف حاصل کر سکوں؟ کاش میں ان سے پوچھ سکوں کہ حضور آپ آج کے پاکستان کے بارے میں کیا اظہار خیال فرماتے ہیں؟ اسی فکر، سوچ، تردد، پریشانی اور خواہش کی حالت میں جب میں عالم خواب میں گیا تو میری حیرت اور مسرت کی انتہا نہ رہی کہ پارلیمنٹ ہاؤس سے لے کر پانچ روپے کے کرنسی نوٹ تک جس شخص کی تصویر آویزاں و کنداں ہے وہی جانا پہچانا شخص میرے سامنے تشریف فرما ہے چونکہ میں اس شخص کی تصاویر مسلسل دیکھتا رہتا ہوں اور ان دنوں اس کے بارے میں سوچتا بھی رہا ہوں اس لئے میں فوراً پہچان گیا کہ یہ تو ہمارے بابائے قوم ہیں۔
 
بیت کی لکڑی سے تراشیدہ نشست پر براجمان بابائے قوم کا لباس حسب توقع مرقع تھا اور وضع بھی اعلی و معیاری تھی لیکن ان کے چہرے پر افسردگی اور پریشانی کے آثار شدت کے ساتھ واضح اور نمایاں تھے۔ میں کچھ لمحے انہیں دیکھتا اور سوچتا رہا کہ آپ اس کیفیت میں کیوں مبتلا ہیں؟ چونکہ میں نے تاریخِ پاکستان کے مطالعے کے دوران پڑھا ہے کہ بابائے قوم اپنے ذاتی، خاندانی اور خانگی معاملات پر کبھی پریشان نہیں ہوتے تھے۔ حتی کہ جان لیوا بیماری پر اس قدر افسردہ و درماندہ نہیں ہوئے تھے جتنے پاکستان کو لاحق بیماریوں اور مسائل کے حوالے سے پریشان ہوتے تھے۔ اس لئے مجھے اندازہ ہو گیا کہ بابا جی کی پریشانی ذاتی نہیں بلکہ پاکستان سے متعلق ہے ۔ میں نے کافی وقت ان کے چہرے کی زیارت کی اور اپنے آپ کو تیار کیا کہ ان سے ہمکلام ہو کر جہاں اپنی تسکین اور اعزاز حاصل کروں وہاں ان کا تازہ موقف بھی حاصل کروں۔
 
ہمت کر کے میں نے سلام دعا اور احوال پرسی کرتے ہوئے اپنا تعارف بھی کرا ڈالا کہ میں ایک لٹا پٹا، محروم، مظلوم، مقہور، پسماندہ، پسا ہوا، دہشت گردی کا شکار، مہنگائی اور بے روز گاری کا مارا پاکستانی شہری ہوں۔ میں حکمرانوں کا ستایا ہوا، دہشت گردوں کا ڈرایا ہوا، بم دھماکوں سے سہما ہوا، فرقہ واریت اور کفر کے نعروں میں جکڑا ہوا، آمریت کے بوٹوں سے روندا ہوا، جمہوریت کے ہاتھوں ڈسا ہوا اور مذہبی پاپائیت کا رگیدا ہوا ایک غریب پاکستانی ہوں۔ گذشتہ چھ دہائیوں سے کوشاں تھا کہ آپ سے ملاقات کر کے آپ کو اپنی دکھ بھری بپتا سناؤں۔ آپ کے پاکستان کی المناک کہانی بیان کروں لیکن آج جب موقع نصیب ہوا ہے تو آپ کی افسردگی و پریشانی دیکھ کر مجھے بھول گیا ہے کہ میں نے آپ سے کیا عرض کرنا تھا؟ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کی سالگرہ کا پرمسرت موقع ہے جس پر آپ کو مبارکباد پیش کرنا میرا فریضہ بنتا ہے اور سالگرہ پر خوشی کی باتیں کرنا ہی معقول لگتا ہے نہ کہ مایوسی اور پریشانی کے قصے چھیڑ دئیے جائیں لیکن میں کیا کروں؟ آپ جانتے ہیں میں مجبور ہوں میرے پاس خوشی کی کوئی سبیل نہیں مسرت کا کوئی راستہ نہیں۔ ان چیزوں سے تہی دامن ہوں اس لئے معذرت خواہ ہوں۔ ویسے آپ بھی تو اپنی سالگرہ کے باوجود خوش نظر نہیں آرہے؟
 
میری افسردگانہ اور مایوسانہ بے ربط باتیں کافی دیر بابائے قوم غور سے سنتے رہے اور مجھے غور سے دیکھتے رہے بالکل اسی طرح جیسے ایک معالج اپنے مریض کو دیکھتا ہے تاکہ اس کی امراض کا شافی علاج تجویز کر سکے۔ میری امراض کی ساری حقیقت، علامات، کیفیات اور احساسات کا جائزہ لے کر قائداعظم گویا ہوئے اور میرے لئے نسخہ تجویز فرماتے ہوئے مجھے ہدایت کی کہ یہ نسخہ پہلے اس سرکاری میڈیکل اسٹور پر لے جانا جہاں فوجی، جمہوری، عدالتی، سیاسی، مذہبی اور لسانی سیلز مین موجود ہیں۔ ان سب سے کہنا کہ وہ اس نسخے کو غور سے پڑھیں اور اس کے عین مطابق دوائی تیار کر کے دیں۔ جبکہ اس کے بعد دوسرے مریضوں (عوام) کو بھی آگاہ کرنا تاکہ ان کو علم ہو کہ ہمارے لئے نسخہ تو درست تجویز کیا گیا ہے لیکن میڈیکل اسٹور والوں نے دوائیاں تبدیل کرکے امراض ختم کرنے کی بجائے ان میں اضافے کا خطرناک اقدام کیا ہے جس سے مریضوں کے خاتمے کی یقینی امید ہے لہذا مریضوں اور ان کے لواحقین کو حق ہے کہ وہ میڈیکل اسٹور والوں کا احتساب کریں اور انہیں مجبور کریں کہ وہ معالج کے لکھے ہوئے نسخے کے عین مطابق دوائی تیار کر کے مریضوں کو فراہم کریں۔
 
پھر بابائے قوم اور امت مسلمہ پاکستان کے حکیم اول حضرت قائداعظم نے فرمایا کہ میں نے کہا تھا یقین محکم پیدا کرو تاکہ اس یقینِ کامل کے ساتھ اسلام کی ترقی اور ملک کے استحکام کے لیے آگے بڑھ سکو لیکن تم نے اپنے آپ سے لے کر اپنے خدا تک ہر سطح پر بے یقینی سے کام لیا تمہیں اپنے وطن کے دفاع کے لیے خدا پر نہیں بلکہ امریکہ پر یقین ہے۔ کہ وہ تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھے گا۔ 

میں نے کہا تھا عمل پیہم کرو تاکہ تم دوسری اقوام اور ممالک کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کر سکو لیکن تمہارے تو پیہم عمل کی بجائے سارے اعمال ہی منفی ہوگئے۔ اب تمہارے منفی اور سست عمل و کردار سے چھ دہائیاں گذرنے کے باوجود بھی پاکستان آگے کی بجائے پیچھے کی طرف سفر کر رہا ہے۔ میں نے تمہیں تین زریں اصول اتحاد، ایمان اور تنظیم بتائے تھے جنہیں اپنا کر اور نافذ کر کے تم پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور ناقابل شکست اسلامی و جمہوری طاقت بنا سکتے تھے لیکن تم نے اتحاد کو پارہ پارہ کرتے ہوئے میرے ملک میں لسانی، مذہبی، گروہی، علاقائی اور صوبائی تعصبات اور شناختوں کو زیادہ مضبوط کیا جس سے اتحاد کا اصول پامال ہو کر رہ گیا۔ تم نے ایمان کا بھی حلیہ بگاڑ دیا تمہارے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے بے ایمانی کو فروغ ملا۔ تم اپنے پاکستانی بھائی سے لے کر کسی سپر پاور کے صدر تک ہر جگہ بے ایمانی سے کام لیتے ہو۔ جس قوم کا ایمان ہی اٹھ جائے وہ کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے؟ اب تمہاری حالت یہ ہوتی جا رہی ہے کہ تمہارا سچا ایمان نہ خدا پر ہے نہ رسول ص پر ہے نہ کتاب پر ہے حتی کہ پاکستان پر بھی نہیں اس لئے تم پاکستان کے ساتھ مسلسل بے ایمانیاں کر رہے ہو۔

تم نے تنظیم کے اسی طرح حصے بخرے کئے ہیں کہ اب تک پاکستان منظم ہونے کے خواب ہی دیکھ رہا ہے تمہارے ذاتی کاموں سے لے کر امور مملکت و حکومت تک کسی جگہ نظم و ضبط کا نشان تک نظرن ہیں آتا ہے۔ بے ہنگم، غیر منظم اور بکھرے ہوئے نظام کے تحت تم اپنے اور میرے پاکستان کو چلانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہو لیکن اپنے اندر تنظیم کا ماحول پیدا نہیں کرتے۔
 
میں نے کہا تھا کہ ’’اگر حکومتوں کا مقصد عوام کی بے لوث خدمت اور فلاح و بہبود کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرنا نہ ہو بلکہ کچھ اور مقاصد ہوں تو ایسی حکومتوں کو اقتدار سے الگ کر دو‘‘ لیکن تم نے بار بار ایسے حکمرانوں کو چنا اور آزمایا جن کا مقصد عوام کی بے لوث خدمت اور فلاح و بہبود نہیں بلکہ عوام کے ساتھ ظلم و بے عدلی برتنا، عوام کو مشکلات اور عذابوں کا شکار کرنا، عوام کو مہنگائی و بے روز گاری کے ٹیکے لگانا، عوام کو دہشت گردی کا عادی بنانا اور عوام کا ہر سطح پر استحصال کرنا تھا۔ تم بھی یہ سب تماشا دیکھتے رہتے ہو لیکن انہیں قانونی اور آئینی طریقے سے اقتدار سے الگ نہیں کرتے۔ میں نے کہا تھا کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنایا جائے گا اور دنیا پر پہلی اسلامی، فلاحی، جمہوری اور مثالی ریاست وجود میں لائی جائے گی لیکن تم نے نہ اسلام کا صحیح امیج باقی رکھا اور نہ پاکستان کے اسلامی امیج کو سنبھال سکے ہو بلکہ اسلام کی شکل بگاڑنے کے لیے میرے ہی پاکستان کو ڈھال بناتے رہے ہو؟

میں نے پاکستان کا نام اور کام دو بنیادوں یعنی اسلام اور جمہوریت پر رکھا تھا لیکن تم نے دونوں کے ساتھ کیا کیا؟ اب پاکستان نہ اسلامی ہے نہ جمہوری۔ تمہارے اسلامیوں کی خواہش ہے کہ پاکستان کو فرقہ وارانہ ریاست اور شدت پسند ملائیت کی آماجگاہ بنا دیا جائے۔ تمہارے جمہوریوں کا عزم ہے کہ پاکستان کو اسلام سے خالی کرکے مغربی، غیر اسلامی، سیکولر اور خاص قسم کی جمہوریت کا مرکز بنا دیا جائے جس میں مذہب کا دور دور تک عمل دخل نہ ہو۔ دونوں طبقوں میں توازن کا نام و نشان نہیں بلکہ شدت پسندی کا عروج ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا تشخص واضح نہیں ہو سکا۔ میں نے تحریک پاکستان میں شامل راجہ محمود آباد جیسے لوگوں سے چندے لے لے کر پاکستان کی بنیادیں رکھیں اور اسے مالی و اقتصادی طور پر خود مختار بنانے کا عزم کیا لیکن کسی نام نہاد سپر پاور، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا کسی مفاد پرست طاقت یا ادارے سے مدد کی بھیک نہیں مانگی جبکہ تمہارے حکمران میرے پاکستان کو ایک طرف بھکاری بنا رہے ہیں تو دوسری طرف یہی بھیک آپس میں تقسیم کرکے تمہیں ننگ وافلاس میں رکھے ہوئے ہیں۔
 
میں نے جس جمہوریت کا خواب پاکستان کے لیے دیکھا تھا وہ آج تک پاکستان میں نافذ نہیں ہو سکی۔ ایک طرف جہاں آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں جمہوریت گم ہو جاتی ہے وہاں خود جمہوریت کے چیمپئن بننے والے سیاستدان جس طرح کی جمہوری حکومتیں قائم کرتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر بے چاری آمریت بھی شرمندہ ہو جاتی ہے۔ میں نے جس اسلام کو مملکت، حکومت، ریاست اور آئین کا حصہ بننے کا ارادہ و اعلان کیا تھا وہ اسلام تمہارے پاس خال خال ہی نظر آتا ہے۔ تمہارے مذہبی قابضین نے اسلام کو ٹکڑوں میں بانٹنے کے بعد اب خودکش حملوں کو اس خطرناک حد تک پہنچا دیا ہے کہ اب اسلام کی کسی بھی تعبیر کو نافذ کرنے سے خود مجھے ڈر لگتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ظاہری حاملین کو اسلام سے دلچسپی کم اور اقتدار، نام نہاد جمہوریت، ذاتی و گروہی نمود و نمائش اور مال و متاع سے زیادہ محبت ہے۔ اس صورت میں کیا توقع رکھی جا سکتی ہے کہ اسلام اور جمہوریت دونوں میں توازن پیدا کر کے انہیں نافذ کیا جائے؟
 
تم اور تمہارے حکمران میرے فوٹو لگاتے ہو، مجھے اپنی تقاریر کی زیبائش کے لیے استعمال  کرتے ہو، میری برسی اور سالگرہ پر میرے ہی پاکستان کی جیب خالی کرتے ہو۔ مجھ سے ایفائے عہد اور تجدید عہد بڑے اہتمام اور طمطراق سے کرتے ہو۔ میرے پاکستان کو میری سوچ اور میرے اصولوں کے مطابق استوار کرنے کی قسمیں کھاتے ہو لیکن اس کے باوجود عملی میدان میں بالکل کھوکھلے ہو۔ میرے غریب عوام کی حالت بدلنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ میرے ملک سے کرپشن، بے حیائی، عریانی، لاقانونیت، دہشت گردی، استحصال، بے عدلی، ناانصافی، ظلم وستم اور برائیوں کا خاتمہ نہیں کرتے۔ یاد رکھو اگر تم نے اسلام اور پاکستان سے وفا نہ کی تو میں بھی تم سے راضی نہیں ہوں۔ میں جہاں ہوں تم نے بھی بالآخر وہاں آنا ہے۔ لہذا اس بھیانک ملاقات سے قبل ہی اپنے آپ کو صحیح سمت میں لاؤ اور صحیح راستے پر چلاؤ۔
 
قائداعظم کے انہی فرمودات کے بعد میں عالم خواب سے عالم ہوش میں لوٹا تو اسی لمحے سے میں سوچ میں گم ہوں کہ قائد اعظم سے ملاقات کا احوال کسے اور کیسے سناؤں؟ کیا قائد اعظم کی باتوں کا یقین کرنے والا کوئی موجود ہے؟ ہر گز نہیں۔ اگر ہوتا تو اس خواب سے پہلے قائد کے براہ راست احکامات و ہدایات و فرمودات و اصول موجود ہیں۔
خبر کا کوڈ : 124776
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش