0
Tuesday 1 May 2012 20:40

یکم مئی، شہید مطہری اور یوم معلم

یکم مئی، شہید مطہری اور یوم معلم
تحریر: عبداللہ

آج دنیا بھر میں یوم مزدور منایا جا رہا ہے، جو مزدوروں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ لیکن مسلم دنیا میں اس یوم مزدور کو کسی اور دن منایا جانا چاہئیے اور آج کم از کم مسلم دنیا میں یوم مزدور نہیں بلکہ یوم معلم منایا جانا چاہئیے، کیونکہ آج عالم اسلام کو ایک بہت بڑا جھٹکا ایک معلم، ایک مفکر، ایک فلسفی، ایک با عمل عالم اور ایک مرد فقیہ کی شہادت کی صورت میں پہنچا ہے۔ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ' ایک عالم کی موت سے ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جو سو برس تک پورا نہیں ہو پاتا'۔ شہید مطہری کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ ان کی ذات میں فقط ایک عالم نہیں بلکہ بہت سے علما موجود تھے تو شائد غلط نہ ہوگا اور ان کی دی ہوئی فکر پر صرف اس وقت نہیں بلکہ آئندہ آنے والی کئی صدیوں تک تحقیق ہوتی رہے گی اور نئے ادوار کے جدید مسائل حل ہوتے رہیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ پر ان کی شہادت گراں گزری اور انہوں نے یکم مئی کو روز معلم قرار دیا۔

آیت اللہ مرتضی مطہری گرچہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ابتدائی دنوں میں ہی ایک منافق گروہ کے ہاتھوں شہادت کا جام پی کر ملکوت اعلی کی طرف سدھار گئے تھے لیکن انہوں نے اپنی فراست اور دور اندیشی نیز علمی صلاحیت سے اسلامی مفکر کی حیثیت سے اپنا لوہا منوالیا تھا۔ شہید مطہری نے اسلامیات کا عمیق مطالعہ کرکے اسلام کے اصولی اور بنیادی موقف کو نہایت روشن اور صریح روش سے بیان کیا اور ان کی افکار و نظریات اور علمی کمالات انقلاب اسلامی کی کامیابی میں بہت موثر واقع ہوئے خاص طور سے انہوں نے علمی حلقوں کو کافی متاثر کیا۔

مغربی دنیا میں تیز سائنسی اور صنعتی ترقی اور مشرق میں مادیت پرستی کے پیچیدہ افکار نے جو سوشلسٹ حکومت کے روپ میں ظاہر ہوئے شہید مطہری کو عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی تعلیمات کی بنیادوں پر جواب دینے پر مجبور کیا۔ شہید کی کتابوں اور تقریروں پر ایک سرسری نظرڈالنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے اور ہم یہ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ ان کے مخاطب کون ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں کتنی عرق ریزی کی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ استاد شہید مرتضیٰ مطہری کو امام راحل امام خمینی انقلابی اسلامی کا فکری ستون کہتے تھے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کہتے ہیں " اگر آج بھی آپ اسلام کے ترجمان بننا چاہیں اور دینی معارف کو سمجھنا چاہیں تو لازم ہے کہ کم از کم ایک بار شہید مطہری کی تمام کتب کا مطالعہ کریں "۔ شائد مقام معظم رہبری نے اس طرف توجہ اس لئے دلائی ہے کہ شہید مطہری کے مخاطبین میں اسلام کے مسائل سے دلچسپی رکھنے والے جوان محقق اور جواں نسل بھی ہے۔ شہید مطہری نے اپنی کوششوں سے ان طبقوں کو اسلام کی طرف راغب کیا اور ایران کی فضا، علمی حلقوں کی رجحانات نیز یونیورسٹیوں کی فضا کا صحیح اندازہ لگا کر دشمنان اسلام، بیمار فکر کے حامل مغرب زدہ نام نہاد روشن فکر افراد نیز قلیل علم رکھنے والے مفکر نماﺅں کے شبہات کا جواب دیا اور جوان ذہنوں کو ان خناسوں سے بچانے کی بھرپور سعی کی۔ شہید مطہری سب سے پہلے شبہے کو پیش کرتے تھے علمی اور منطقی لحاظ سے ان کا جائزہ لیتے تھے اس کے بعد نہایت متانت اور علمی داریت سے اس کا جواب دیتے تھے اور آپ بخوبی اس امر سے واقف تھے کہ جوانوں کے سوالوں کی طرف سے بے اعتنائی اور انہیں نظر انداز کرنے یا پھر منفی رویہ اپنانے سے یہ شبہات ناقابل علاج مرض میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔

اس رپورٹ میں ہم اسلامی معاشرے اور ایران کے اسلامی نظام کو لاحق اہم خطروں کا اجمالی جائزہ لے رہے ہیں۔ یاد رہے جو سوالات یہاں پیش کئے جارہے ہیں وہ خاص طور سے جوان ذہن میں آتے ہیں۔ شہید مطہری نے ان سوالوں کے جواب نہایت دانشمندی اور منطق کے سہارے دیا ہے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ جوان ذہن حقیقت کا متلاشی ہوتا ہے اور جب وہ علمی ماحول میں قدم رکھتا ہے تو اس کے ذہن میں طرح طرح کے شبہے یا سوالات ابھرتے ہیں، وہ اپنے سوالوں کا شافی جواب چاہتا ہے تاکہ اس کی عقل اور فطرت ان جوابوں سے سیراب ہوسکے۔ شہید مطہری نے اسی روش کے تحت شبہات کا جواب دیا ہے اور اپنے مباحث کی بنیاد رکھی ہے۔

1۔ بدلتی دنیا اور ثابت قوانین
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم ایسی دنیا میں زندگی گذار رہے ہیں جو پل پل میں بدلتی رہتی ہے، اس میں سائنس و ٹیکنالوجی کے سبب تبدیلیاں آرہی ہیں تو کیا ایسی ترقی پذیر اور متحرک دنیا کو دین کے ثابت اور ناقابل تغیر قوانین و اصولوں کے سہارے چلایا جاسکتا ہے؟ کیا خدا کے ثابت اور لاتغیر قوانین انسان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے؟ ان سوال کو دوسرے الفاظ میں ڈھالتے ہیں۔ کیا اسلامی حکومت کے تحت جو ثابت قوانین الٰہی پر استوار ہے اور جس کی ایک بنیاد حلال محمد حلال ابد الی یوم القیام اور حرامہ حرام ابدا الی یوم القیامہ ہے اس معاشرے کو ہم کس طرح آج کی تیز رفتار سے سائنسی ترقی کے سہارے بدلتی دنیا میں اسلامی اصولوں کے سہارے چلا سکتے ہیں؟ کیا اسلامی نظام اجرائی مرحلوں میں رکاوٹوں کا شکار نہیں ہوجائے گا؟ شاید ہم اپنے اس سوال سے دسیوں دیگر سوالات نکال سکتے ہیں۔ شہید مطہری کا روشن اور واضح جواب ان سارے شبہات کو دور کردے گا۔

شہید مطہری کہتے ہیں کہ انسان اپنی فطرت اور انسانیت کے لحاط سے ثابت اور لایتغیر ابعاد کا حامل ہے اور یہ ابعاد زمانے کے زیر اثر تبدیل نہیں ہوتے ہیں، بنابرین وہ قوانین جو فطرت سے نکلتے ہیں، وہ تبدیل نہیں ہوتے لیکن وہ قوانین جو زمان و مکان کے حالات اور صورتحال کے مطابق بنائے جاتے ہیں ان میں زمانے اور مکان کے لحاظ سے تبدیلی آتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ ہمارے سارے قوانین ایک درخت کی طرح ہیں درخت کی جڑیں ہوتی ہیں، تنا ہوتا ہے، شاخیں اور ٹہنیاں ہوتی ہیں، پتے ہوتے ہیں۔ لیکن ہر سال اس پر نئے پتے آتے ہیں۔ اب یہ تنہ اور جڑیں ہیں جو درخت کے پتوں کی تجدید حیات کا باعث ہوتی ہیں۔ لہٰذا اگر ہم عدالت کو حسن یعنی اچھا مانتے ہیں تو اور ظلم کو برا یا قبیح مانتے ہیں تو ہمارا یہ قول تمام زمانوں اور مکانوں کے لئے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ عدل و انصاف آج اچھا ہے تو کل برا ہوجائے گا یا ظلم آج برا ہے تو کل اچھا ہوجائے گا بنابریں ظلم سے مقابلہ کرنا ہر زمانے میں اچھا اور حسن تسلیم کیا جائے گا اور ظلم سے مقابلہ کرنا ہر زمانے میں لازم ہوگا، لیکن اس کی شکلیں بدل جائیں گی ہر شخص اپنے زمانے اور مقام و مکان کی مناسبت سے ظلم سے مقابلہ کرے گا۔ 

اسی وجہ سے ہم حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کو اور حضرت امام حسن علیہ السلام کی صلح کو ظلم سے مقابلے کے ثابت اصول کے مطابق دو مختلف صورتیں سمجھتے ہیں۔ ظلم سے مقابلے کی یہ دو مختلف روشیں ہیں۔ شہید مطہری اس بارے میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا قیام ان کے زمانے کی ظالم حکومت کے خلاف جدوجہد کی اساس پر مبنی تھا اور لیکن دیگر ائمہ علیھم السلام نے ظالمین کےخلاف جدوجہد نہیں کی۔ شہید کہتے ہیں اگر ہم اس طرح سوچیں تو ہماری سوچ بنیاد ہی سے غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آئمہ کی جدوجہد کی روشیں الگ الگ تھیں عصری تقاضے جدوجہد کی روش کو بدل دیتے ہیں لیکن یہ تقاضہ نہیں کرسکتے کہ ظلم کے خلاف جدوجہد ہی نہ ہو۔ ظلم کےخلاف خاموش بیٹھ جانا کسی بھی زمانے اور مکان میں کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے تاہم اس کی شکل اور روش بدل سکتی ہے۔

بنابریں دو مختلف اعتباروں سے قوانین کو جدا کرنے سے نہ صرف فطری اور ثابت اصولوں اور قوانین پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ جو امور زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق بدلتے ہیں وہ دراصل وضعی احکام ہوتے ہیں جن میں لچک پائی جاتی ہے اور یہ ہر عصر و مکان کا تقاضہ ہے اور اس سے ثابت قوانین کے ساتھ کوئی تضاد اور تقابل پیش نہیں آتا بلکہ ثابت اور وضعی احکام میں ایک طرح سے کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم ہے۔ ان امور کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نہ صرف فکری جدت پسندی کا مخالف نہیں ہے بلکہ آیت مبارکہ " کل یوم ھو فی شان " کے مطابق جدت پسندی اور نئے افکار نظریات کی طرف انسان کو راغب کرتا ہے۔ جب تک کوئی قدیمی اصل اور قانوں کسی درخت کی طرح جڑیں اور تنہ رکھتا ہوگا اس پر نئے نئے پتے اور پھل آتے رہیں گے اور یہی اس کی خلقت کا مقصد ہے۔


2۔ دنیائے مواصلات اور دینی قید و بند
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم جس زمانے میں زندگی گذار رہے ہیں وہ انفارمیشن ٹکنالوجی، باہمی تعلقات اور گلوبل ولیج کا زمانہ ہے۔ جن ممالک کے عالمی روابط اچھے ہیں اور جو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے پیش رفتہ ہیں وہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے بہتر استفادہ کرتے ہیں جبکہ اسلام نے مسلمانوں کے لئے ایسے احکام اور قوانین بنادئیے ہیں اور رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں کہ جن کی بنا پر وہ زمانے کی سائنسی ترقی سے استفادہ نہیں کرسکتے ہیں اس سلسلے میں قاعدہ نفی سبیل مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ قاعدہ نفی سبیل میں مسلمانوں پر کافروں کا تسلط ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد قرآن ہے " لن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلا" سورہ نساء ایک سو اکتالیس۔ کیا ہم اس آیت کی رو سے مختلف ملکوں سے تعلقات قائم کرسکتے ہیں یا عالمی عدالت کے فیصلوں کو تسلیم کرسکتے ہیں یا پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو قبول کرسکتے ہیں؟

شہید مطہری اس شبہے کا اس طرح جواب دیتے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں افراد اور ملکوں کے تعلقات کا معیار سمجھنا ہوگا، اس وقت یہ واضح ہوجائے گا کہ آیا دینی معیار و اصول محدودیت پیدا کرتے ہیں یا نہیں؟ شہید مطہری قومی جذبات اور وطن پرستی کے معیار کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو وطن میں بنائی جاتی ہے قومی نہیں ہوسکتی اور ہر وہ چیز جو غیر ملکوں میں بنائی جاتی ہے وہ اجنبی نہیں ہوتی بلکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کوئی شئے کسی قوم سے مختص ہے یا عالمی رنگ و بو رکھتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ کوئی قوم باہر سے آئی ہوئی شئے کو رضا و رغبت سے قبول کرتی ہے یا پھر زور زبردستی سے؟ اگر دونوں شرائط جمع نہیں ہو پائیں تو وہ شئے اجنبی مانی جائے گی۔ بنابرین شہید مطہری کی نگاہ میں کسی جذبے ، قومی جذبے اور دینی جذبے کا عالمی ہونا دو معیاروں پر مشروط ہے: پہلے یہ کہ وہ عالمی رنگ و بو رکھتی ہوں اور اس کے قبول کرنے میں رضا و رغبت پائی جاتی ہو۔

اسی طرح شہید مطہری قرآن کریم کی دیگر آیات جیسے: ان ھو الا ذکر للعالمین  یہ قرآن نہیں آیا ہے مگر تمام جہانوں کے لئے ( یہاں عالمین کا لفظ ہے جو دنیا یعنی عالم کی جمع ہے ) وما ارسلناک الا کافی للناس" اے رسول ہم نے تمہیں نہیں بھیجا ہے مگر ساری انسانیت کے لئے۔ شہید مطہری ان آیات سے استفادہ کرتے ہیں کہ اسلام روز اول سے عالمی دین ہونے کا دعوی کرتا آیا ہے۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سے استفادہ کرتے ہوئے اسلام میں قومی اور نسلی تعصبات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ شہید مطہری کہتے ہیں اسلامی قوانین سب کے لئے عمومی اور ساری انسانیت کے لئے ہیں، انہیں قوم و نسل و نژاد میں محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے خود کو کبھی بھی قومی اور نسلی تعصبات میں محدود نہیں کیا ہے بلکہ ان منفی امور سے مقابلہ ہی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں اسلامی تعلیمات ایک طرف سے عقل و خرد پر مبنی ہیں تو دوسری طرف سے فطرت پر استوار ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں ایک خاص کشش اور طاقت پائی جاتی ہے جس سے وہ مختلف قوموں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسلام کے کلی اور عمومی قوانین نے اسے خاص طاقت اور جاذبہ عطا کیا ہے۔ اس خاصیت کے تحت اسلام تمام قوموں اور نسلوں کو یا ایھا الناس کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور یہی اسلام کے زندہ و جاویدان ہونے کا راز ہے اور اسلام انسان کی تمام مادی اور معنوی ضروریات کو پورا کرتا ہے بنابریں ہم بڑی جرات سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کسی قوم اور نژاد سے کہیں برتر و بالا ہے اور وہ تمام قوموں کے تعلقات کا خیر مقدم کرتا ہے اور اس تعلق کو اپنے عالمی پیغام تک پہنچانے کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔


3۔ فطری حقوق
اسلام کے عالمی ہونے کے پیش نظر اسلام کے قواعد اور اس کی حدود و ثغور کا تعین کیسے کیا جائے اور کس طرح انہیں واضح کیا جائے؟ اسلام چونکہ عقل و خرد پر استوار ہے بنابریں اس نے فطرت کو اپنے قوانین و احکام کی حدود قرار دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان کے فردی اور اجتماعی حقوق کا سرچشمہ اس کی فطرت ہے۔ شہید مطہری کہتے ہیں کہ انسان کی بالقوہ صلاحیتیں ان حقوق کی نشاندہی کرتی ہیں جو قانون خلقت و فطرت نے اس کے وجود میں ودیعت کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری نگاہ میں انسان کے فطری حقوق کا سرچشمہ وہ بالقوہ صلاحیتیں ہیں جو خالق ہستی نے اس کے وجود میں پوشیدہ رکھی ہیں اور جن کے سہارے خدا انسان کو کمالات کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر فطری صلاحیت ایک فطری حق کی بنیاد ہے اور اس حق کے لئے دستاویز شمار ہوتی ہے۔

جیسا کہ سب پر ظاہر ہے فطری حق کسی قرارداد اور معاہدے کی بنا پر حاصل نہیں ہوتا بلکہ عام ہے اور عمومیت رکھتاہے اور اس حق سے استفادہ کرنے کی شرط عمل اور شرعی فریضے پر عمل کرنا ہے۔ شہید مطہری کہتے ہیں کہ انسان عقل و ارادے کا مالک ہے اور اسے اپنے فریضے، عقل و ارادے کی طاقت سے کام کرنا چاہیے لہٰذا جب تک وہ اپنا فریضہ انجام نہیں دے گا وہ خدادادی حق سے استفادہ نہیں کرسکتا۔ اب رہی یہ بات کہ وہ ان حقوق کو کس طرح نبھا سکتا ہے یہ دوسرا مرحلہ ہے اس مرحلے میں شرعی فریضہ اور حق ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتے ہیں اور حقوق شرعی فریضے کی انجام دہی سے فعالیت میں بدل جاتے ہیں یعنی عینیت حاصل کرلیتے ہیں اور ہر انسان اپنے مختص شدہ حق تک پہنچ جاتا ہے۔ شہید مطہری یہاں ایک اور شبہے کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے فطرت کو شریعت پر مقدم کرکے دینی حکومت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ آج کا ماڈرن انسان اپنے حق کا خواہاں ہے جبکہ دین کے احکام صرف امر و نواہی کا لحن رکھتے ہیں۔ یہ اعتراض کرنے والے غلط سوچ رہے ہیں کیونکہ انہوں نے شہید مطہری کے بیان کردہ اصول یعنی حق و فریضے کے ملازمے کو درک نہیں کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 158163
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش