0
Wednesday 6 Jun 2012 14:34

دنیا پر ثقافتی برتری کا امریکی خواب

دنیا پر ثقافتی برتری کا امریکی خواب
اسلام ٹائمز- اس میں کوئی شک نہیں کہ آج یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ ایک برتر ثقافتی ڈائیلاگ کا حامل ہے اور دوسرے تمام ممالک سے بڑھ کر دنیا میں کسی مفہوم یا معانی کو پھیلانے کی استعداد رکھتا ہے۔ لیکن کیا یہ برتری مستقبل میں بھی اسی طرح قائم رہے گی اور یو ایس اے خود کو ایک ثقافتی اور نظریاتی لیڈر کے طور پر دوسری عالمی اقوام پر مسلط کر سکے گا؟ یا خاص حالات پیدا کر کے امریکی تفکر کو دوسرے مکاتب فکر کے مقابلے میں ایک برتر اور معیاری تفکر کے طور پر پیش کر سکے گا؟۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ کیا ہمیں یہ قبول کر لینا چاہئے کہ گلوبلائزڈ ثقافت پر امریکی ثقافت کا رنگ ہی غالب رہے گا؟۔ اس اہم اور سوچنے پر مجبور کر دینے والے سوال کو کئی پہلووں سے دیکھا جا سکتا ہے جسے ہم ذیل میں بیان کریں گے۔
1. امریکہ مخالف مزاحمتی مراکز کا قیام:
اگر اٹلی کے معروف دانشمند انتھونیو گرامشی کی نظر سے دیکھنا چاہیں جنہوں نے دنیا کو ہجمونی (Hegemony) کی اصطلاح سے متعارف کروایا، تو یوں کہیں گے کہ ضروری نہیں اس سوال کا جواب مثبت ہو کیونکہ جناب گرامشی کے نزدیک تاریخ ایک یقینی پروسس نہیں جسکا انجام طے شدہ ہو بلکہ انکا خیال ہے کہ ضروری نہیں ہم خاص قسم کے حالات تک پہنچیں۔ وہ بین الاقوامی روابط پر حکمفرما غیرتاریخی اسٹرکچرل اور جبری نظام کے مخالف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسانوں کی اجتماعی فعالیت تاریخ کو تبدیل کرنے میں انتہائی اہم کردار کی حامل ہے لہذا ایک برتر عالمی طاقت کے خلاف مزاحمت کو ممکن قرار دیتے ہیں۔
اصولی طور پر دیکھا جائے تو تاریخ کسی بھی سپر پاور کی پیدائش اور خاتمے کی مسلسل اور بے وقفہ حکایت نہیں۔ ہر طاقت ایک مزاحمت کے ہمراہ ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہر طاقت ایک اپوزیشن کو جنم دیتی ہے جو اسکے مکمل تسلط کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ لہذا امریکی برتری بھی دوسرے سیاسی کھلاڑیوں کی جانب سے درپیش مزاحمت اور چیلنجز سے نہیں بچ سکتی اور امریکی آئیڈیالوجی بھی ہمیشہ کیلئے ایک برتر آئیڈیالوجی کے طور پر باقی نہیں رہے گی۔
جناب گرامشی کا خیال ہے کہ ایک سپر پاور کے مقابلے میں مزاحمت کے معرض وجود کیلئے ضروری ہے کہ اسکے مقابلے میں ایک اور ایسی طاقت موجود ہو جسکی فکری اور اخلاقی بنیادیں اس سے مختلف ہوں تاکہ وہ انتہائی ظرافت اور مدبرانہ انداز میں آہستہ آہستہ رائج نظام کا مقابلہ کر سکے۔
ہم گذشتہ کئی عشروں کے دوران امریکہ کی مسلط کردہ آئیڈیالوجی کے خلاف کئی مزاحمتی مراکز کے معرض وجود میں آنے کے شاہد ہیں جن میں سے ایک انقلاب اسلامی ایران کا معجزہ آسا ظہور ہے جو حضرت امام خمینی رہ کے عظیم اور وسیع تفکر کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ یہ انقلاب تاریخ کا اہم موڑ جانا جاتا ہے کیونکہ انقلاب اسلامی ایران کی آئیڈیالوجی کی بنیاد امریکی سرکردگی میں عالمی استعماری نظام کو اپنا سب سے بڑا اور اصلی دشمن قرار دینے پر استوار ہے۔ اسکے علاوہ انقلاب اسلامی ایران نے ایک نیا تفکر اور آئیڈیالوجی، جدید ثقافتی اقدار اور ایک نیا لائف اسٹائل دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جو اقوام عالم کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اس انقلاب کی وجہ سے پیدا ہونے والی موج نے امریکی تسلط کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کی مختلف اقوام نے انقلاب اسلامی ایران کی پیروی کرتے ہوئے ایسی انقلابی تحریکوں کا آغاز کر دیا ہے جنہوں نے استعماری نظام کے تسلط اور اسکی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں ایک مزاحمت معرض وجود میں لائی ہے۔ آج یہ تحریکیں اسلامی ممالک، لاطینی امریکہ اور حتی یورپی ممالک میں بھی قابل مشاہدہ ہیں۔
حال ہی میں پیدا ہونے والی اسلامی بیداری کی تحریک اور امریکی پٹھو حکمرانوں کی سرنگونی اور اسلامی ثقافتی اقدار کی جانب پلٹنے کیلئے عوام کا قیام دراصل امریکی تسلط کے خلاف مزاحمت کی پیدائش کا کامل نمونہ ہے۔ جو چیز مشرق وسطی کے خطے میں جنم لینے والی ان انقلابی تحریکوں کے درمیان قدر مشترک ہے چاہے یہ تحریکیں تیونس میں ہوں یا مصر میں، اور چاہے شمالی افریقہ میں ہوں یا بحرین میں، یہ ہے کہ ان اسلامی بیداری کی تحریکوں کے پیچھے اصلی قوت عوام کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ان ممالک کے عوام ہیں جو شعور کی ایک سطح پر پہنچنے کے بعد آپس میں متحد ہوئے اور امریکہ کے آمرانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان تحریکوں نے جنکے واضح ترین آثار زین الدین بن علی اور حسنی مبارک جیسے گھاگھ ڈکٹیٹرز کی سرنگونی کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں، عالمی طاقتوں اور تجزیہ نگاروں کی توقعات کے خلاف خطے کے سیاسی حالات پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کر کے انہیں شدید تعجب میں ڈال دیا ہے۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مشرق وسطی میں جنم لینے والی ان عوامی تحریکوں پر اسلامی ثقافت اور اقدار کا رنگ غالب ہے۔ جیسا کہ دکھائی دے رہا ہے کہ ان تحریکوں میں شامل انقلابی افراد اسلامی تقریبات جیسے نماز جمعہ، نماز جماعت اور دوسری اسلامی سرگرمیوں میں انتہائی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور ان انقلابی تحریکوں کو چلانے والے بھی علماء، دینی مبلغین اور جدید طرز کے اسلامی مفکرین ہیں۔ لہذا جرات سے کہا جا سکتا ہے کہ خطے کی عوام نے اپنی انقلابی تحریکوں کو اسلامی اہداف و مقاصد کے ساتھ ہماہنگ کر رکھا ہے۔ مشرق وسطی کے مختلف ممالک میں برپا ہونے والی احتجای مظاہروں میں شریک افراد مختلف میڈیا رپورٹرز کے ساتھ اپنے انٹرویوز میں اپنی تحریکوں کے اسلامی ہونے پر تاکید کر چکے ہیں۔ اسی طرح مظاہرین بھرپور انداز میں اسلامی نعروں کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر احتجاجی مظاہروں کے دوران سڑک پر ہی نماز باجماعت ادا کرنا ان انقلابی تحریکوں کے اسلامی تشخص کا واضح ثبوت ہے۔ ہر جمعے کو نماز جمعہ کی صفوف مظاہرین کا مرکز اور حاکم نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی میعادگاہ میں تبدیل ہو جاتی تھیں۔ دوسری طرف ان انقلابی تحریکوں کی رہنمائی کرنے والے افراد بھی دینی و مذہبی تشخص کے حامل ہیں جیسا کہ تیونس میں النھضہ تحریک کے سربراہ راشد الغنوشی، مصر میں اخوان المسلمین اور بحرین میں شیعہ علماء کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ تیونس کے انقلابی عوام کی جانب سے ڈکٹیٹر حکمران زین العابدین بن علی کی سرنگونی کے بعد اسلامی طور طریقوں جیسے اسلامی پردے کا پرتپاک استقبال اور مساجد میں گہما گہمی اور رونق کی واپسی اور اسی طرح تیونس اور مصر میں آمرانہ نظام حکومت کے خاتمے کے بعد پہلے آزاد انتخابات میں اسلام پسند سیاسی جماعتوں اور افراد کی کامیابی ان انقلابی تحریکوں کے اسلامی تشخص کو ظاہر کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای خطے میں بیداری کی تحریکوں میں اسلام کے کردار کے بارے میں فرماتے ہیں:
"آج اس خطے میں اسلام زندہ ہو چکا ہے، آج جوان اسلامی نعروں کے ساتھ میدان میں اتر آئے ہیں، تیس یا چالیس سال قبل ایک دن شمالی افریقہ کے انہیں ممالک میں اگر کوئی قومی اور انقلابی جذبے کے تحت نعرہ لگانا چاہتا تو وہ کمیونیسٹ نعرے لگاتا تھا، لیکن آج وہ سوچ تبدیل ہو چکی ہے اور کوڑے کی ٹوکری کا حصہ بن چکی ہے، آج خطے میں جو سوچ رائج ہے، جو تفکر غالب ہے وہ اسلام اور قرآن کی سوچ ہے"۔
اسی طرح اسلامی بیداری کے نتیجے میں جنم لینے والی ان انقلابی تحریکوں اور بین الاقوامی سطح پر موجود عالمی استکباری طاقتوں کے درمیان ایک تضاد اور مقابلے کی فضا بھی موجود ہے اور خطے کے انقلابی افراد اپنے تشخص کو انٹی امریکہ اور انٹی صہیونیست کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ ان استکبار مخالف احساسات کی وجہ گذشتہ دو صدیوں کے دوران استعماری طاقتوں کی جانب سے خطے پر قبضہ ہے جسکے دوران وہ خطے کی اقوام کی تحقیر کرتے رہے اور انکی عزت نفس کو مجروح کرتے رہے۔
مشرق وسطی میں جنم لینے والی ان تحریکوں پر ایک نظر دوڑانے سے ہی انکے امریکہ اور اسرائیل مخالف ہونے کو درک کیا جا سکتا ہے جسکا واضح ترین نمونہ حسنی مبارک کی سرنگونی کے بعد عوام کی جانب سے مصر اور غزہ کی پٹی کے درمیان رفح بارڈر کا دوبارہ کھولے جانا، اسرائیلی سفارتخانے پر عوام کا قبضہ اور اسرائیلی سفیر کو قاہرہ سے نکال باہر کرنا، اور مصر کی فوجی کونسل پر اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ کا بے شرمانہ معاہدہ ختم کرنے کیلئے بے تحاشہ عوامی دباو ہے۔
کلی طور پر اسلامی بیداری کو خطے کی اقوام اور عالمی استکباری قوتوں کے درمیان نبرد آزمائی کا میدان قرار دیا جا سکتا ہے، اور یقینا یہ نبرد ان اقوام کے مفاد اور عالمی طاقتوں کے نقصان میں آگے بڑھ رہا ہے۔ لہذا امریکہ کی ثقافتی برتری کے باوجود خطے میں اسلام پسندی اور اسلامی تہذیب و تمدن کی طرف بازگشت کی موج کا معرض وجود میں آنا ایک انتہائی اہم تبدیلی قرار دی جا سکتی ہے جو امریکہ کی ثقافتی محبوبیت کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ عالمی استعماری طاقتوں کے خلاف مزاحمتی مراکز کی تشکیل صرف اسلامی ممالک تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ مزاحمتی تحریکیں اب مغربی ممالک میں بھی نظر آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر "وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو" تحریک جو سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کے مرکز یعنی امریکہ میں معرض وجود میں آئی اور بہت جلد یورپ کے دوسرے حصوں میں سرایت کرتی چلی گئی۔ اس تحریک نے آج حریص سرمایہ داروں کی نیندیں حرام کر ڈالی ہیں۔ یہ تحریک درحقیقت ایسی اقوام کی دبی ہوئی آواز ہے جو کئی عشروں سے ناعادلانہ، بے رحم اور بے انصاف سرمایہ دارانہ نظام کی چکی تلے پس رہی ہیں۔ ان اقوام کے افراد بے روح مشینوں کی مانند اپنی عمر کا بڑا حصہ بڑی بڑی کمپنی اور کارخانوں کے مالکین کیلئے خرچ کر ڈالتے ہیں جسکا نتیجہ صرف ان مالکین کی دولت اور سرمایہ میں اضافے اور انکی کمپنیز اور کارخانوں کا مزید موٹا ہونے کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔ چارلی چپلن کی فلم "نیا زمانہ" میں ان قربانی کے بکروں کی صورتحال کو بہت اچھے انداز پیش کیا گیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے سربراہان نے اپنی انتہائی کوشش کی ہے کہ وہ تفریحی سرگرمیوں اور پرتعیش زندگی جیسے ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو راضی رکھیں لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغربی ممالک کے باسی اب مزید سرمایہ دارنہ نظام کے تابع رہنے کا صبر و حوصلہ نہیں رکھتے اور اسکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحریک کا نام "99 فیصدی افراد کی تحریک" رکھا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں 99 فیصد افراد 1 فیصد کے تسلط میں ہیں۔ یہ نعرہ ایک انتہائی معنا خیز نعرہ ہے جو مغربی دنیا میں ایک سرمایہ دار اقلیت کے دوسری عوامی اکثریت پر آمرانہ تسلط اور اقتدار کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح اس سے مغربی دنیا کی جانب سے جمہوریت کے جھوٹے نعروں کا پول بھی کھل جاتا ہے۔ اگرچہ وال اسٹریٹ تحریک اپنے ابتدائی دور سے گزر رہی ہے اور اپنے اہداف تک پہنچنے کیلئے ابھی اسے ایک لمبا سفر درکار ہے لیکن اسی کم مدت کے دوران وہ سرمایہ داروں تک اپنا یہ پیغام پہنچانے میں کامیاب رہی ہے کہ اپنی برتر حیثیت پر زیادہ خوش نہ ہوں۔
قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سرمایہ دارانہ نظام کی موجودہ صورتحال کے بارے میں فرماتے ہیں:
"مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ رژیم کی کرپشن وہاں کے عوام پر واضح اور آشکار ہو چکی ہے، ممکن ہے وہ اس تحریک کو دبانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اسے جڑوں سے نہیں اکھاڑ سکتے، آخرکار ایک دن یہ تحریک اس قدر طاقتور ہو جائے گی کہ امریکہ اور غرب کے سرمایہ دارنہ نظام کو صفحہ ھستی سے مٹا ڈالے گی، البتہ امریکی حکام، سی آئی اے اور دوسرے اداروں کی جانب سے اختیار کیا گیا پروپیگنڈہ اور نفسیاتی جنگ انتہائی شدید ہے اور ممکن ہے وہ اس طریقے سے اس تحریک پر حاوی ہو جائیں لیکن آخرکار حقائق واضح ہو چکے ہیں اور آئندہ مزید واضح ہوں گے، اس قدر دعووں کے باوجود سرمایہ دارانہ رژیم اور مغرب کی لبرل ڈیموکریسی یہ ہے یعنی مکمل ناک آوٹ۔ آج سرمایہ دارانہ نظام بند گلی سے روبروہ ہے، ممکن ہے اس ناک آوٹ کے نتائج کئی سال بعد ظاہر ہوں لیکن مغربی دنیا میں بحران مکمل طور پر شروع ہو چکا ہے اور دنیا بہرحال ایک تاریخی موڑ پر ہے"۔
اگرچہ سرمایہ دارنہ نظام میں اس سے قبل بھی کئی بحران رونما ہو چکے ہیں لیکن اس نئے بحران کا گذشتہ بحرانوں سے فرق یہ ہے کہ مغربی اقوام سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور انہوں نے مل کر صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ وال اسٹریٹ تحریک کا واضح پیغام یہ ہے کہ مغربی میڈیا اور ہالیووڈ کی جانب سے جھوٹے پروپیگنڈے کے باوجود جس میں وہ ہمیشہ مغربی معاشروں کا بے عیب و نقص اور آئیڈیل چہرہ دکھاتے ہیں، مغربی ممالک کے عوام موجودہ صورتحال سے انتہائی ناراضی ہیں اور وہ خود کو ایک ایسی اکثریت کے طور پر دیکھ رہے ہیں جسکے حقوق پامال کئے جا رہے ہیں، انہوں نے عہد کر لیا ہے کہ اب وہ مزید حکام کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں بنیں گے جو صرف اور صرف اپنی جاہ طلبی اور مفادات کے پیچھے ہیں جبکہ تمام تر اقصادی مشکلات عوام کے کندھوں پر ہیں۔ لہذا امریکہ میں اٹھنے والی یہ آواز آج دوسرے مغربی ممالک میں بھی سنی جا رہی ہے، یہ وہ آواز ہے جس نے امریکہ کی نظریاتی اور ثقافتی برتری کو چیلنج کر رکھا ہے۔
2. سپرپاور کی مظلوم نمائی:
امریکی حکومت نے نائن الیون کے مشکوک حادثے کے بعد مظلوم نمائی کا ایک نیا ڈرامہ رچانا شروع کر دیا جسکے عالمی سطح پر انتہائی بھیانک نتائج ظاہر ہوئے۔ وائٹ ہاوس میں بیٹھے نیوکنزرویٹو شدت پسندوں کی واضح غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ایسے دور میں فوجی طاقت کا بے تحاشہ استعمال اور اس پر اندھا اعتماد کرنا شروع کیا جو سافٹ وار کا دور سمجھا جاتا ہے اور اس دور میں پری امپٹو وارز نے اس سپرپاور کے چہرے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جب دنیا والوں کو نائن الیون اور عراق میں اٹامک ہتھیاروں سے متعلق امریکہ کے جھوٹے دعووں کا علم ہوا اور جب ابوغریب اور گوانٹانامو جیسے وحشتناک زندانوں میں امریکی فوجیوں کے غیرانسانی اور مجرمانہ اقدامات منظرعام پر آنے لگے تو پوری دنیا میں امریکہ کے خلاف نفرت کی شدید لہر معرض وجود میں آئی اور امریکہ کی طاقتور ثقافتی انڈسٹری بھی اس لہر کا مقابلہ کرنے میں ناکام نظر آئی۔ حتی ڈیموکریٹس کے دوران صدارت میں بھی بین الاقوامی سطح پر امریکیوں کی جانب سے ایسے اقدامات دیکھنے کو ملے جس نے اس نفرت کی آگ کو مزید بھڑکا دیا۔ مثال کے طور پر افغانستان میں ایک امریکی فوجی کی جانب سے کئی عام شہریوں جن میں خواتین بھی شامل تھیں کا وحشیانہ قتل عام اور لاشوں کو جلانا ان اقدامات کا تازہ ترین نمونہ ہے۔
3. ثقافتی تنوع کی حامل دنیا پر تسلط ایک مشکل کام:
بعض تھنک ٹینک ثقافتی امپریالیزم کے نظریئے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلوبلائزیشن دنیا میں یکساں ثقافتی ماحول پیدا نہیں کر سکی اور ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ گلوبلائزیشن امریکی بن جانے کے مترادف ہے۔ ان مفکرین کے خیال میں ثقافتی امپریالیزم پر مبنی نظریات ثقافت کو علاقائی بنیادوں پر پروان چڑھانے کی حقیقت کو اور حتی غیرمغربی ثقافتوں کا مغربی ثقافت پر اثرانداز ہونے کو یکسر نظرانداز کئے ہوئے ہیں جبکہ ہم آج دنیا میں مختلف ثقافتوں کے تنوع، گوناگونی، ایکسچینج اور ھمزیستی کے شاہد ہیں۔ اس متنوع دنیا میں کسی خاص ثقافت کا دوسری تمام ثقافتوں پر تسلط اور قبضہ ان ثقافتوں کی نابودی کے مترادف ہو گا جو ایک ناممکن امر ہے۔
لہذا اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ عالمی ثقافت کی ایک بڑی خصوصیت تنوع ہے نہ یکسان ہونا اور یہ تصور کہ ہم مستقبل میں کسی ایک ثقافت کے غلبے کا مشاہدہ کریں گے یا تمام دنیا والے کسی ایک ثقافت کو اختیار کر لیں گے اور دنیا کی باقی تمام ثقافتیں امریکی ثقافت تلے دب کر ختم ہو جائیں گی حقیقت سے بہت دور نظر آتا ہے۔
بہ فرض محال اگر ہم ثقافتی امپریالیزم کے نظریئے کے قائل بھی ہو جائیں، تب بھی ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا پڑے گا کہ امریکہ کا ثقافتی اعتبار سے جذابیت اور عظیم ثقافتی انڈسٹری سے برخوردار ہونے کے باوجود ثقافتی اعتبار سے متنوع دنیا اور اپنے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمتی تحریکوں کے پیش نظر دنیا پر اپنا ثقافتی قبضہ جمانا ممکن نہیں اور وہ ایک انتہائی مبہم اور مشکل مستقبل سے روبرو ہے۔
خبر کا کوڈ : 163880
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش