0
Friday 25 May 2012 00:29

پری ایمپٹو وارز آف ایگریشن

پری ایمپٹو وارز آف ایگریشن
تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

رومن ائمپائر کے زوال پذیر ہو جانے کے بعد مغربی طاقتوں، خصوصاً برطانیہ اور فرانس نے دنیا میں اپنی کالونیوں کا ایک جال بچھانا شروع کیا۔ بیسویں صدی عیسوی میں جب امریکہ ایک معاشی طاقت بن کر ابھرا تو دنیا اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئی کہ اب معاشی آزادی اور مالی خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ ساتھ ہی امریکہ نے معاشی مفادات کے حصول کیلئے سارے کرہِ عرض پر، جہاں بھی معاشی مفاد کی بھنک پڑی، اپنی تجارتی منڈیاں قائم کرنا شروع کر دیں اور دنیا بھر میں امریکی کارپوریشنوں کا ایک نیٹ ورک بھی بنانا شروع کر دیا۔ ایسی صورتِ حال میں دنیا اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئی کہ اب شائد فیر پلے ہو گا اور بین الاقوامی برادری آزادی سے معاشی خوشحالی کی طرف بڑھے گی اور امریکہ جیسا عظیم ملک، جو ہر وقت Just wars، انسانی حقوق، اعلٰی اخلاقی اقدار اور جمہوری روایات کا پرچار کرتا رہا ہے، دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دے گا۔ 

بدقسمتی سے یہ سب خام خیالی ثابت ہوئی، چونکہ ایسا نہ ہو سکا اور جنوب میں افریقی براعظم سے لے کر شمال میں مشرق وسطٰی اور وسطی ایشائی ریاستوں تک اور مشرق میں ساؤتھ ایسٹ ایشاء اور بحر اوقیانوس سے لے کر مغرب میں بحرالکاہل تک امریکہ کو جہاں بھی پنہاں معدنی دولت کے اشارے یا بلیک گولڈ یعنی خام تیل اور گیس کے ذخائر کی خبر ملی، وہاں ہی اس نے رولز آف دی گیم بدل کر ڈیرے ڈال لئے اور نہ صرف صدام اور قدافی جیسے حاکموں کو بچوں سمیت قتل کیا بلکہ بے گناہ معصوم لوگوں پر اپنی جدید لیزرگائیڈڈ ٹیکنالوجی کو ٹیسٹ کرتے ہوئے اُن کا ایسی بے رحمی سے سفایا کیا جیسے مکڑی کو جہازوں سے ادویات سپرے کر کے مارا جاتا ہے۔ جمہوریت، انسانی حقوق، اخلاقیات اور انسانی اقدار کا جنازہ نکال دیا گیا، معاشی مفادات کیلئے جنگیں لڑی گئیں اور ناقابل بیاں انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ 

قارئین! قومی سلامتی کے حوالے سے امریکہ ہر لحاظ سے ایک محفوظ ترین ملک ہے۔ یہ ایک ایسا براعظم ہے جس کے دونوں اطراف میں بحر اوقیانوس اور بحرا لکاہل جیسے بڑے سمندر ہیں اور شمال اور جنوب میں کینڈا اور میکسیکو جیسے دو ایسے Buffer ریاستیں ہیں جہاں امریکہ کی منشاء کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا، اس لئے جغرافیائی محلے وقوع ہر لحاظ سے امریکی سرحدوں کا دفاع کرتا ہے۔ ان حالات میں اپنے ملک سے دس ہزار میل دور مشرق وسطٰی، کوریا یا وسطی ایشائی ریاستوں کے سرحدوں کے پاس افغانستان میں جب امریکہ مورچے بنا کر جنگی محاذ کھولتا ہے تو یقیناً اس کا امریکہ کی قومی سلامتی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ 

امریکہ کی اس دھونس اور دھمکی والی پالیسیوں کا کہ ’’یا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن ہیں" کے آگے پاکستان سمیت جو ریاستیں لیٹتی گئیں، اُن کو امریکہ بے رحمی سے روندتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا۔ وہاں امریکیوں نے اپنی مرضی کے ڈیکٹیٹر تعینات کئے اور داغی کمزور کردار چند سیاسی مہروں کے ہاتھوں میں بڑے بڑے ممالک کی قسمت تھما دی، پھر چنگل میں پھنسے ہوئے پاکستان، عراق اور افغانستان جیسے ممالک کے مالی و جانی وسائل کو اپنے مقاصد کیلئے بے رحمی سے استعمال کیا اور جن ممالک نے آگے سے مزاحمت کی جرات کی اُن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ 

ایران کے وزیراعظم مصدق جیسے جمہوری لیڈروں کو پچاس کی دہائی میں حکومتوں سے ہٹوا دیا گیا اور بادشاہت قائم کر دی۔ 7نومبر 2011ء کی ایکٹیوسٹ پوسٹ Activist Post نے لکھا ہے کہ:
" Regardless, when the dust settles and moral history is written, America and her western cohorts will likely be viewed as the most brutal empire in history".
یعنی جب بھی موجودہ بین الاقوامی دہشتگردی کی دُھول بیٹھے گی اور اخلاقیات پر کوئی مورخ قلم اٹھائے گا تو یقیناً امریکہ اور اُس کے حواریوں کو تاریخ کی سب سے زیادہ ظالمانہ طاقت گردانا جائے گا۔ اپنی اس پیشنگوئی کے ثبوت میں اخبار نے دس وجوہات دیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
 
(1) امریکہ نے ہمیشہ، ڈیکٹیٹروں کی پشت پناہی کی اور کئی دفعہ تو نہ صرف جمہوری اقدار کا گلہ گھونٹا بلکہ انسانی حقوق کی بھی دھجیاں اُڑائیں۔ چلی میں Pinochet، مصر میں حسنی مبارک، فلپین میں مارکوس، پاکستانی فوجی ڈیکٹیٹروں اور ایران عراق جنگ میں صدام حسین کی مدد کی۔
 
(2) مہذب دنیا میں گلوبل مسائل بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں سفارتی سطح پر حل کئے جاتے ہیں اور جنگ کی Option ایک آخری حربہ کے طور پر بادلِ خدانخواستہ استعمال کی جاتی ہے۔ اب امریکہ Pre-emptive wars of agression کے حق میں ہے، یعنی اگر اُن کو خواب بھی یہ اشارہ مل جائے کہ فلاں ملک یا اُس میں رہنے والے مٹھی بھر افراد امریکی سلامتی پر حملہ آور ہو سکتے ہیں تو ایسا ہونے سے پہلے ہی یہ بہانہ بنا کر اُن کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جائے، حالانکہ اخبار کے مطابق "Violent aggressors have always been judged by history as evil" 

(3) اخبار کے مطابق امریکہ نے قیدیوں پر اسی قسم کے مظالم ڈھائے اور ٹارچر کیا جیسے دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمن اور جاپانیوں نے کیا تھا۔ اخبار ابو غریب جیل میں ہونے والے مظالم کا ذکر کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ یہ Brutality کی بدترین مثالیں تھیں۔
 
(4) امریکہ نے اپنے ملک کے اندر بھی اُن لوگوں کا گلہ دبایا جو حق کی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہوم لینڈ سکیورٹی کو بے پناہ اختیارات دے دیئے، لوگوں سے بولنے کا حق بھی چھین لیا گیا۔
 
(5) پہلے یہ قانون تھا کہ آپ بے گناہ ہیں جب تک آپ کا جرم ثابت نہیں ہو جاتا۔ اب امریکی قانون کہتا ہے کہ آپ مجرم ہیں جب تک آپ غیر انسانی تشدد کے آگے اقرار جرم نہیں کر لیتے۔ اس سلسلے میں اخبار گوانتے ناموبے میں گلنے اور سڑنے والے قیدیوں کا ذکر کرتا ہے۔
 
(6) امریکہ اب کہتا ہے نو جج، نو جیوری، نو کنویکشن صرف سیدھا Execution یعنی وکیل کرنے، عدالت میں پیش ہونے اور فردِ جرم لگ جانے کے تکلفات کی ضرورت نہیں، جو مشکوک نظر آئے اُسے موت کے گھاٹ اُتار دو۔ اب امریکی حکومت ایک امریکی شہری کو بھی بغیر کسی چارج شیٹ کے پکڑ کر بند کر سکتی ہے۔ شکاگو کانفرنس کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر بھی لاٹھی چارج ہوا۔ انہوں نے جو قطبے اُٹھائے ہوئے تھے اُن پر لکھا تھا ’’نیٹو کا مطلب قانونی دہشتگردی‘‘۔
 
(7) اخبار ڈرؤن حملوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور اُن کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی کہتا ہے۔ یہاں وہ پاکستان، یمن اور سومالیہ کا ذکر کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ لیبیا کے خلاف جنگ صرف وسائل پر قبضے کیلئے کی گئی، جس کے لئے امریکہ کو کانگریس کی اجازت بھی نہ تھی۔
 
(8) امریکہ نے دوسری جنگی عظیم میں جاپان کے خلاف ویپن آف ماس ڈیسٹرکشن (WMD) استعمال کئے اور اُس کے بعد ایک مکتب فکر کے مطابق عراق کو بھی وہ مہلک گیس مہیا کی گئی جو اُس نے ایران کے خلاف استعمال کی، اس کے علاوہ اخبار کے مطابق امریکہ نے عراق اور افغانستان میںDepleted uranium کا بھی استعمال کیا۔
 
(9) اخبار کے مطابق اکتوبر 2011ء میں افغانستان میں اوپیم کی کل مقدار صرف 185 ٹن تھی جو اب نیٹو اور امریکہ کی سرپرستی میں انتہا کو پہنچ چکی ہے اب پوری دنیا کو فروخت ہونے والی اوپیم کا 93فیصدی افغانستان سے سپلائی ہو رہا ہے۔
 
(10) اخبار کے مطابق امریکہ نے دنیا کے غریب ممالک کے خلاف ویپن آف ماس ڈیٹ Weapons of mass debt بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے استعمال کیا۔ 

ان حالات میں شکاگو کانفرنس میں پاکستانی صدر سے امریکی قیادت کی سرد مہری ایک نوشتہ دیوار تھی۔ صدرِ پاکستان کی تقریر کے وقت بین الاقوامی میڈیا کو حال سے باہر نکالنے کا مقصد یہ تھا کہ حق کی آواز مغربی باسیوں کے کانوں تک نہ پہنچیں پائے۔ قارئین، موجودہ حالات میں امریکہ سے خیر کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہو گا، لیکن پاکستان کی تباہ حالی کے اسباب کا دیانتدارانہ جائزہ لیتے وقت ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ:
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
خبر کا کوڈ : 165162
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش