0
Saturday 2 Jun 2012 15:25

امام خمینی رہ کے سیاسی افکار (1)

امام خمینی رہ کے سیاسی افکار (1)
تحریر: محمد علی نقوی

تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی سوچ نے ہمیشہ اور ہر زمانے میں بہت ساری اقوام کی تقدیر پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی سرنوشت میں بنیادی تبدیلیوں کا باعث بھی سیاسی سوچ بنی ہے۔ آج کے دور میں بھی امام خمینی رہ کی سیاسی سوچ نے بوسنیا سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک اور چیچنیا سے لے کر جنوبی افریقہ تک، اور حال ہی میں عرب ممالک میں شروع ہونے والی اسلامی بیداری میں امام کے سیاسی افکار نے بہت سی قوموں پر اپنا اثر چھو ڑا ہے۔ اس مقالے میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ بیسویں صدی کے عظیم ترین مفکر کے نظریات کو ان‌ کے گرویدہ افراد کے سامنے پیش کیا جائے۔
 
اس مقالے میں ذکر کئے گئے مطالب دراصل امام خمینی رہ کے سیاسی افکار کی ایک معمولی سی جھلک ہیں، کیونکہ اس مختصر تحریر میں امام رہ کی سیاسی فکر کے ہر پہلو پر روشنی نہیں ڈالی جا سکتی۔ دوسرے الفاظ میں اس کوشش کا مقصد امام رہ کے گرویدہ افراد کیلئے ان کی سیاسی فکر تک رسائی کا موقع فراہم کرنا ہے، اس مقالے میں حجة الاسلام والمسلمین ڈاکٹر احمد جہان بزرگی کی کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے بلکہ اس کا ترجمہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
 
معاشرے میں قانون موجود نہ ہو تو وہ معاشرہ فساد اور تباہی سے دوچار ہو گا، البتہ یہ قوانین عدل و انصاف کے اصولوں پر قائم ہونے چاہئیں اور ایسا صرف اسی وقت ممکن ہے جب لوگوں کے معاشرتی تعلقات پر "الٰہی قوانین" کی حاکمیت ہو۔ چونکہ الٰہی قوانین خداوندتعالٰی کے ارادے سے وجود میں آتے ہیں، اس لئے عادلانہ ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی قانون بذات خود اور بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اقتدار حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ انسان، معاشرے کی پیدائش سے لے کر اب تک کسی بھی قانون پر عمل نہیں کر سکا، مگر یہ کہ وہ کسی حاکم کی حاکمیت کے تحت قرار پائے۔ امام رہ معاشروں پر حکم فرما سیاست اور اس الٰہی سیاست جو انسانی معاشروں پر حاکم ہونی چاہئے، میں بنیادی فرق کے قائل ہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ دونوں قسم کی سیاست اقتدار کی حامل ہو اور بیشمار افراد پر حاکمیت رکھتی ہو، لیکن فقط وہ چیز "حقیقی سیاست" ہے، جو انصاف اور ہدایت کے راستے پر چلنے میں استعمال کی جائے۔
 
امام رہ کے نظریے کے بنیادی نکات میں سے ایک اہم نکتہ "سیاست کے میدان میں خدا کی موجودگی" کو سنجیدگی سے لینا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جو ان کو مغربی سیاسی ماہرین سے ممتاز کرتا ہے۔ اکثر جدید مغربی مصنفین، سیاست کو اقتدار، علم اقتدار، اقتدار کی مقتدرانہ تقسیم اور اقتدار حاصل کرنے کا طریقہ وغیرہ سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں حکومت، قوانین اور سیاسی ادارے سب کچھ طاقت ہے اور ایسے برترین اخلاقی قوانین جو حکومت اور اس کے تمام تر شعبوں کو کنٹرول کر سکیں وجود نہیں رکھتے۔
 
لیکن امام رہ کی نظر میں خداوند متعال کی طاقت تمام زمینی طاقتوں سے بالاتر ہے۔ لہذا انسانی معاشرے پر حاکم شخص کی طاقت اس معیار کے ذریعے مشروط اور محدود ہو جاتی ہے۔ پس ہر برتری سیاست نہیں ہے، کیونکہ طاقت کا استعمال صرف اس صورت میں قانونی، جائز اور صحیح ہے جب وہ ایک معتبر، مستقل اور مطلق اخلاقی نظام یعنی "الٰہی قوانین" جو خداوند کے ارادے سے وجود میں آتے ہیں، کے مطابق ہو، تاکہ معاشرے کی ہدایت کا باعث بنے۔
 
لہذا امام رہ کی نظر میں سیاست کی تعریف اس طرح سے کی جا سکتی ہے:
"سیاست سے مراد، انسانی معاشروں کی تدبیر کرنا اور انہیں ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔"
"انسان کا فقط ایک پہلو نہیں ہے۔ معاشرہ بھی صرف ایک پہلو پر مشتمل نہیں ہے۔ انسان صرف ایک حیوان نہیں ہے، جس کی تمام مصروفیات کھانے پینے تک محدود ہوتی ہوں۔ سیاست اگر صحیح بھی ہو تو وہ قوم کو صرف ایک پہلو میں کمال کی طرف لے کر جا سکتی ہے، وہ ایک پہلو حیوانی پہلو ہے۔ یہ سیاست اسلام میں موجود انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کی سیاست کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ وہ قوموں کی ہدایت کرنا چاہتے ہیں اور انہیں ایسی سمت میں لے جانا چاہتے ہیں کہ ایک انسان یا معاشرے کے تمام قابل تصور مصالح اس میں موجود ہوں۔"
 
پس اس نکتے کی طرف توجہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ بے شک سیاست، تدبیر، فیصلے اور طاقت کے استعمال کے ساتھ منسلک ہے، لیکن ہر قسم کی تدبیر، فیصلے یا طاقت کے استعمال کو سیاست نہیں کہنا چاہئے، جیسا کہ مکتب ہدایت کے تمام سیاسی ماہرین ہمیشہ ایسا ہی سوچتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ سیاست کو ہدایت کے ہمراہ ہونے کو لازمی قرار دیا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام جب یہ فرماتے ہیں:
"جان لو کہ خدا کے نزدیک بہترین بندہ وہ عادل سیاسی راہنما ہے جو خود ہدایت یافتہ ہو اور لوگوں کو بھی ہدایت کی طرف لے جائے۔"

تو گویا وہ سیاست کے ساتھ ہدایت کی ہمراہی کو لازمی اور ضروری سمجھتے ہیں۔ 
امام خمینی رہ بھی سیاست کے اسی مفہوم کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
"سیاست یہ ہے کہ معاشرے کی رہنمائی کی جائے اور ہدایت کی طرف لے جایا جائے، معاشرے کی تمام تر مصلحتوں کو مدنظر رکھا جائے اور انہیں اس سمت میں لے جایا جائے، جو ان کی بہتری میں ہو"۔

پس امام رہ کے افکار سے مأخوذ ان مفروضات کی بناء پر حاکم کا فرض ایسے الٰہی قوانین کو لاگو کرنا ہے جو افراد کے باہمی روابط پر حکم فرما ہوں۔ لہذا حاکم کے لئے نہ صرف ان قوانین کا عالم ہونا لازمی ہے بلکہ علمی فضیلت کا بھی حامل ہونا ضروری ہے۔ واضح ہے کہ حاکم کو علم و دانائی اور اپنی خواہشات کو عقل کے زیر کنٹرول رکھنے میں دوسرے افراد سے زیادہ توانا ہونا چاہئے۔ پس ایک حقیقی حاکم اس وقت حکمرانی کے لائق اور سزاوار ہو سکتا ہے جب اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے حکومت نہ کرے، بلکہ خدا کی نیابت میں شریعت کے احکام اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق حکومت کرے۔ 

امام خمینی رہ جب اسلام کی بازگشت کی بات کرتے ہیں تو ان کی باتوں سے ایسے انسان پسند مکتب فکر کی آواز سنائی دیتی ہے جس نے انقلاب کے کچھ ہی عرصے بعد سارے ایران کو اپنے سائے میں لے لیا۔ وہ اپنی تصنیفات مثلا "دروس ولایت فقیہ" اور "منشورہای انقلاب اسلامی" میں مختلف مقامات پر "مطلق طاقت" اور آمریت کی مخالفت، جبکہ عدل و انصاف، انسانیت اور تقویٰ وغیرہ کے حق میں بات کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں"حکمران اگر عادل نہ ہو تو وہ مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی، ٹیکسز کی وصولی اور ان کے صحیح استعمال اور عدالتی قوانین کو لاگو کرنے میں انصاف کی مراعات نہیں کرے گا"۔
 
یا ایک اور جگہ کہتے ہیں:
"حضرت پیغمبر ص نے معاشرتی انصاف کو پھیلانے کی غرض سے دنیا کی تمام حکومتوں کی طرح ایک حکومت تشکیل دی۔" امام خمینی رہ نے ہمیشہ اپنے اس موقف پر تاکید کی ہے کہ صلح، امن عامہ، فلاح و بہبود، خود مختاری اور مساوات کے تحقق کی بنیادی شرط انصاف ہی ہے۔ ہرحکومت کا مقصد ان مسائل کو حل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ "اسلامی حکومت، اسلامی جمہوریت اور اسلامی عدل کو برقرار کریں۔ اسلامی عدل، انصاف کے ساتھ سب آزادی، استقلال اور آسائش سے زندگی بسر کریں گے"۔ 

یقیناً آمرانہ حکومت کی اصلیت اور اس کی فطرت انصاف کے قیام کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ اگرچہ انصاف کا قیام ایک خالص جمہوری حکومت میں بھی امکان پذیر ہے، لیکن چونکہ امام خمینی رہ خالص جمہوری حکومت میں کچھ عیوب کا مشاہدہ کرتے ہیں، لہذا وہ جمہوری اسلامی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ البتہ اس صورت میں جب اسلامی حکومت کے معرض وجود میں آنے کی شرائط موجود ہوں۔ بدقسمتی سے اکثر حکومتوں میں حکمران اور اسکے ہمراہ افراد انصاف کے راستے پر گامزن نہیں ہوتے اور حکومت کو یا "حکومت مطلقہ" میں تبدیل کر دیتے ہیں یا اس کو ناقص انسانی عقلوں کے ہاتھوں ایک کھیل بنا دیتے ہیں۔ 

بنابرایں اسلامی حکومت کو محفوظ رکھنے اور اس کو ایک فرد یا گروہ کے ہاتھوں منحرف ہونے سے بچانے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ سیاسی نظام اور آئین کو اس طریقے سے بنایا جائے کہ عدل پر مبنی اقدار کی مدد سے حکومتی عناصر اور قوتوں کے درمیان ایک توازن پیدا کیا جائے، تاکہ ہر شعبہ دوسرے شعبے پر نظارت کر سکے اور اسی وقت اس شعبے کی زیر نظارت بھی قرار پائے۔ یہ وہی "امر و نہی" ہے جو حکومت کو انصاف سے نزدیک کرتا ہے اور امام خمینی رہ اس کو ہر حکومت کی بنیاد اور روح کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
"ملت کا ہر فرد یہ حق رکھتا ہے کہ سب لوگوں کے سامنے براہ راست حکومتی سربراہ سے سوال کرے اور اس پر تنقید کر سکے اور اس حکمران کو بھی چاہئے کہ وہ اسے اطمینان بخش جواب دے، وگرنہ دوسری صورت میں اگر وہ اپنے اسلامی فرائض کے خلاف عمل کرے تو خود بخود اپنے اس مقام سے معزول ہو جائے گا۔
یہ عبارت بہت واضح انداز میں امام رہ کے افکار کی نوعیت کو بیان کرتی ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 167561
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش