0
Saturday 16 Jan 2010 15:27

پاک امریکہ تعلقات

پاک امریکہ تعلقات
نذیر ناجی
برصغیر کی تاریخ میں جس نئے باب کا اضافہ ہونے والا ہے،اس کی پہلی جھلک بھارتی فوج کے سربراہ جنرل دیپک کپور کے بیان میں سامنے آئی تھی۔پاکستان کے بعض دفاعی ماہرین نے جب اس بیان کی مضحکہ خیزی نمایاں کرنے کی کوشش کی،تو میں نے درخواست کی تھی کہ اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔چونکہ اس بیان میں پاکستان کے ساتھ چین کا نام بھی لیا گیا تھا اور چین والے بین السطور لکھنے اور پڑھنے میں زبردست مہارت رکھتے ہیں۔انہوں نے فوراً ہی وہ سب کچھ پڑھ لیا،جو بھارتی وزراء اور سفارتکاروں نے چھپانے کی کوشش کی تھی۔حیرت انگیز تیز رفتاری سے فیصلے ہوئے اور چین کا ایک اعلیٰ سطحی فوجی وفد دفاعی ماہرین کو ساتھ لے کر پاکستان آیا اور خطے کی امکانی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔تاریخ کا جو نیا باب اب کھلنے والا ہے،اس کا خاکہ نئی صدی کے آغاز پر ہی تیار کر لیا گیا تھا۔جب ڈیگوگارشیا سے امریکی نیوی اور اسلحہ کے ذخیروں کو خلیج کی طرف منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا،میں نے انتباہ کر دیا تھا کہ جنوبی ایشیا بڑے واقعات کا مرکز بننے جا رہا ہے۔اس کے بعد افغانستان پر فوج کشی ہوئی،یہ برصغیر میں مداخلت کا پہلا مرحلہ تھا۔دوسرا مرحلہ شروع ہونے کو ہے۔بھارت اور امریکہ کا سٹریٹجک اتحاد ٹھوس حقیقت میں بدل چکا ہے۔دونوں ملکوں کے خفیہ اداروں کا باہمی تعاون کئی سالوں سے جاری ہے۔اسرائیل ایک لو پروفائل پارٹنر کی حیثیت سے اس اتحاد کا حصہ ہے جبکہ پاکستان اور چین کے مابین اس سطح کی دفاعی انڈرسٹینڈنگ موجود نہیں،جو 1965ء میں دیکھی گئی تھی۔مگر یہ دونوں ملک غافل بھی نہیں ہیں۔ امریکہ افغانستان سے ادرک کے پنجوں جیسے پھیلاؤ کا جو عمل شروع کرنے والا ہے،چین اسے گہری نظر سے دیکھ رہا ہے۔ادرک کے یہ پنجے پاک افغان سرحدوں تک اپنی انگلیاں پھیلانے والے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعاون کے دن پورے ہونے والے ہیں۔صدر زرداری نے اپنی منصبی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی مستقبل کے امکانات کو بھانپتے ہوئے،بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے پیشرفت شروع کی تھی،جسے فوراً ہی پس رفت میں بدل دیا گیا۔ایک سٹریٹجک تصور یہ ہے کہ اگر پاک بھارت تعلقات میں بہتری آ جائے اور بھارت پاکستان کو دشمن سمجھنے کے بجائے،اس کے ساتھ دوستی اور تعاون کی صورتحال حال سے مطمئن ہو تو امریکی دباؤ سے نکلنا آسان ہو جائے گا۔ہم بھارت دشمنی کے تصور کی وجہ سے ہی امریکہ کے چنگل میں پھنسے تھے اور پھر پھنستے ہی چلے گئے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ بھارت کے مقابلے میں ہمیں طاقت اور تحفظ مہیا کرتا ہے۔لیکن ضروری نہیں کہ امریکہ اسی مقصد کے تحت پاکستان کو اسلحہ اور قرضے دیتا ہو جو کہ ہم سمجھتے رہے ہیں۔امریکی سوچ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان کو بھارت کے خلاف محاذ آرائی کے راستے پر گامزن رکھا جائے اور اس کی بنیاد پر امریکہ خطے میں اپنے مفادات کو آگے بڑھاتا رہے۔افغانستان میں ہم بھارت دشمنی ہی کی وجہ سے پھنسے۔پہلے ہم نے افغان انقلاب کو بھارت کے حامیوں کی کامیابی سمجھ کر اسے ناکام بنانے کی کوششیں کیں اور پھر سوویت فوجوں کی آمد پر امریکی حکمت عملی کا حصہ بن گئے۔میں پاکستان کی 62 سالہ مختصر سی تاریخ کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے سٹریٹجک مقاصد کے لئے استعمال کیا۔آزادی کے بعد بھارت سامراجی اثرات سے نکلنے کی کوشش کرتا رہا۔لیکن امریکہ نے پاکستان کو دفاعی معاہدوں میں اتحادی بنا کر بھارت کو سوویت یونین کی طرف جھکنے پر مجبور کیا اور اس طرح دو سپر پاورز کی سرد جنگ برصغیر میں داخل ہو گئی۔اس کا پہلا خسارہ پاکستان کو اٹھانا پڑا۔ہم جیسے ہی دفاعی معاہدوں میں شامل ہوئے،بھارت نے صورتحال میں تبدیلی آ جانے کا عذر پیش کر کے متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے دیا اور سوویت یونین نے بلا تاخیر بھارت کا یہ دعویٰ تسلیم کر کے اقوام متحدہ میں تنازعہ کشمیر کو دفن کرنے کا عمل شروع کر دیا۔وہ ہر ایسی قرارداد کو ویٹو کرنے پر تل گیا،جس میں کشمیر کے سوال پر پاکستانی موقف کی حمایت نظر آتی تھی۔اس طرح عالمی برادری میں ہم کشمیر پر مقدمہ پیش کرنے کے حق سے محروم ہو گئے۔یہ تھی وہ پہلی قیمت جو ہمیں امریکی اتحادی بننے کے عوض چکانا پڑی۔
1970ء میں امریکہ،بھارت کو علاقائی طاقت تسلیم کرنے پر آمادہ ہو گیا۔نکسن ڈاکٹرائن آئی تو اس میں بھارت کو علاقائی طاقت کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔اس نئی انڈر سٹینڈنگ کو حقیقت میں بدلنے کے لئے بھارت کو مشرقی پاکستان میں کھل کھیلنے کی اجازت دے دی گئی۔اس وقت چین سے یہ خطرہ تھا کہ اگر مشرقی پاکستان میں بھارتی عزائم پورے ہوتے نظر آئیں تو چین مداخلت نہ کر دے۔اس خطرے کو سامنے رکھتے ہوئے،بھارت اور سوویت یونین میں دفاعی معاہدہ ہوا،جس کا واحد مقصد چین کو انتباہ کرنا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کے واقعات سے الگ تھلگ رہے۔امریکہ بھارت کو مشرقی پاکستان میں اپنے عزائم پورے کرنے پر اپنی رضامندی دے چکا تھا۔یہ راز اس وقت سامنے آیا،جب ہنری کسنجر نے اپنی کتاب میں سب کچھ بیان کر دیا۔جس میں انہوں نے بتایا کہ امریکہ بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی چاہتا تھا،لیکن اسے اندرا گاندھی کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں تھا۔ امریکی بحری بیڑے کی کہانی ایک افسانے سے زیادہ نہیں۔اس وقت جرنیلوں کا حکمران ٹولہ اس بیڑے کی نقل و حرکت کو اپنی حمایت میں سمجھتا رہا جبکہ امریکہ اس انڈر سٹینڈنگ کے تحت چٹاگانگ کے ساحلوں کے قریب آیا تھا کہ اگر پاک فوج کے انخلا کا کوئی فیصلہ ہو جائے،تو وہ مواصلاتی سہولتیں مہیا کر دے گا۔مگر بھارت کسی سمجھوتے کے تحت پاک فوج کے انخلا پر تیار نہیں تھا۔وہ پاکستان کی شکست کا طلبگار تھا۔بھارت کی یہ خواہش جنرل نیازی نے ہتھیار پھینک کے پوری کر دی۔ 1971ء کی جنگ کے دوران اندرا گاندھی کشمیر کے محاذ پر بھی پیش قدمی کر کے اس تنازعہ کو بھارتی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر تل گئی تھیں جبکہ امریکہ نے صرف مشرقی پاکستان میں کارروائی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ امریکہ نے سوویت یونین کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈال کر یہ کارروائی روکی تھی۔لیکن واقعات جس طرح سامنے آئے،ان سے واضح ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے منصوبے میں دہلی،ماسکو اور واشنگٹن تینوں شامل تھے اور سہ طرفہ انڈر سٹینڈنگ میں جارحیت کی حدود صرف مشرقی پاکستان تک رکھی گئی تھیں اور مغربی پاکستان کی جغرافیائی حدود کو اسی طرح قائم رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔چنانچہ جب اندرا گاندھی نے انڈرسٹینڈنگ کی خلاف ورزی کرنا چاہی،تو امریکہ نے سوویت یونین کے ذریعے انتباہ کر دیا کہ وہ طے شدہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔معاہدہ تاشقند کے بعد ہم کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں نہیں لے جا سکتے اور نہ ہی کبھی لے جا سکیں گے۔اس تنازعہ کو آخر کار اسی طرح حل کرنا پڑے گا،جیسا کہ نوازشریف اور بعد میں پرویز مشرف کے زمانے میں ہونے جا رہا تھا۔پاک امریکہ تعلقات کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ نے بھارت کو اپنے زیر اثر لانے کے لئے پاکستان کا استعمال ایک لیور کی حیثیت سے کیا۔اب وہ کیا کرنے جا رہا ہے؟آئندہ کالم میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔

خبر کا کوڈ : 18708
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش