0
Thursday 12 Nov 2009 13:57

مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکی سنجیدگی اور ہمارے قومی مفادات کا تقاضہ

مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکی سنجیدگی اور ہمارے قومی مفادات کا تقاضہ
جنوبی ایشیاء کیلئے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے ایک امریکی جریدے کو اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین موجودہ کشیدہ صورتحال برقرار رہنے سے برصغیر میں ایک نئے تصادم کا خدشہ لاحق ہو گیا ہے،جو ان دونوں ممالک کے مابین جنگ کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ انکے بقول امریکی صدر بارک اوبامہ نے اسی ممکنہ ٹکرائو کو روکنے کیلئے وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن سے گذشتہ دنوں مفصل تبادلہ خیال کیا۔ ہالبروک کے بقول ہلیری کلنٹن نے صدر اوبامہ پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی رائے میں جب تک امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کریگا،دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ یا پاکستان میں سے کسی کو فتح نہیں ہو گی،اس لئے امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے براہ راست ثالث کا کردار ادا کرے کیونکہ مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں پاکستان اپنی سرحدوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ہالبروک کے بقول صدر اوبامہ نے اس معاملہ کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے پاکستان بھارت جامع مذاکراتی عمل کو شروع کرنے کیلئے در پردہ سفارت کاری کا کام بھی ہلیری کلنٹن کو سونپ دیا ہے۔ ہالبروک کے مطابق صدر اوبامہ اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن دونوں متفق ہیں کہ امریکہ کو برصغیر میں ٹکرائو ختم کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنا ہونگی تاکہ پورے خطے کو نئی جنگ سے بچایا جا سکے۔
درحقیقت کشمیر ہی وہ بنیادی تنازعہ ہے جو بھارت نے خود اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر کھڑا کیا تھا اور اسکی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہی اب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا،حالانکہ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت حیدرآباد دکن،جونا گڑھ،مناوادر کی طرح کشمیر کے عوام کو بھی یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے میں خود مختار ہیں۔ اگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی کشمیری عوام کو استصواب کا حق دیدیا گیا ہوتا تو کشمیر کا تنازعہ کبھی کھڑا ہی نہ ہوتا۔مگر مکار ہندو بنیاء نے جسے تقسیم ہند ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی اور پاکستان کے آزاد اور خود مختار وجود کو اس نے شروع دن سے ہی قبول نہیں کیا تھا اور اسکے ختم ہونے کے اپنے طور باقاعدہ دن مقرر کر رکھے تھے،کشمیر پر اپنا غاصبانہ تسلط قائم کر لیا اور پھر پہلے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو خود کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے کر گئے اور جب یو این قرارداد کے تحت کشمیر کے عوام کے استصواب کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کرائے تو بھارت خود یو این قرارداد سے منحرف ہو گیا جس پر کشمیری عوام کو مجبوراً اپنے حق خودارادیت کیلئے قربانیوں سے بھرپور جدوجہد کا آغاز کرنا پڑا۔جو پورے صبر استقامت کے ساتھ آج کے دن تک جاری ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یو این قراردادوں پر عملدرآمد کے سوا مسئلہ کشمیر کا کوئی دوسرا حل نہ کشمیری عوام اور نہ ہی پاکستان کو قابل قبول ہو سکتا ہے اور اگر کوئی دوسرا حل ٹھونسنے کی کوشش کی گئی تو اس سے نہ صرف پاکستان بھارت کشیدگی مزید بڑھے گی اور وہ حالات پیدا ہونگے جس کا عندیہ ہلیری کلنٹن نے امریکی صدر اوبامہ سے ملاقات کے دوران دیا ہے بلکہ یہ کشیدہ صورتحال تیسری عالمی جنگ پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ اس وقت کرۂ ارض پر پاکستان،بھارت اور شمالی کوریا سمیت سات اعلانیہ ایٹمی قوتیں موجود ہیں جبکہ ایران اور اسرائیل بھی ایٹمی کلب میں شامل ہونے کو بیتاب ہیں اس لئے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کشمیر پر پاکستان بھارت کشیدگی تیسری عالمی جنگ پر منتج ہوئی تو اس کرۂ ارض کا کیا نقشہ بنے گا جبکہ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر مارے گئے ایٹم بموں سے جو انسانی تباہی ہوئی تھی،اس کے زخم ابھی تک ہرے ہیں۔
جب امریکہ کو یہ بھی ادراک ہو چکا ہے کہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان بھارت کشیدگی اس خطہ کو نئی جنگ کی جانب لے جا سکتی ہے اور وہ اس بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کر نے میں سنجیدہ ہے تو اسے بہرصورت یہ ادراک بھی ہونا چاہئے کہ یو این قراردادوں پر عملدرآمد ہی مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہے اس لئے امریکہ اگر اس خطہ کے ساتھ ساتھ عالمی امن کا بھی خواہاں ہے تو اسے اپنے شردھالو بھارت کو عالمی امن کی خاطر کشمیر میں یو این قراردادوں پر عملدرآمد کی راہ پر لانا ہو گا اور اس معاملہ میں اقوام متحدہ کی اپنی رٹ بھی تسلیم کرانا ہو گی جس کیلئے امریکہ سے بڑھ کر کوئی دوسرا رکن ملک موثر نہیں ہو سکتا۔ اقوام متحدہ کو تو حقیقت میں امریکہ کی باندی ہی تصور کیا جاتا ہے،جس کے بارے میں سید ضمیر جعفری نے اپنے ایک فکاہیہ شعر کے ذریعہ یہ بے لاگ تبصرہ کیا تھاکہ …ع
یو این او میں یو ایس اے کا یو ہے،باقی نو ہی نو !
اس لئے اوبامہ فی الواقع یو این قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل میں سنجیدہ اور مخلص ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بھارت سے ان قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی نہ بنا سکیں مگر محسوس یہی ہوتا ہے کہ اس خطہ میں دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں امریکہ،بھارت،اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ مسلم امہ کے خاتمہ کی مذموم سازشوں کی تکمیل میں مصروف ہے جس کے تحت بھارت کو جدید جنگی ساز و سامان اور ٹیکنالوجی سے لیس کر کے بھرپور موقع فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ وہ نہ صرف چین کو آنکھیں دکھاتا رہے بلکہ ہمیں ہڑپ کرنے کے اپنے مکروہ عزائم بھی پایہ تکمیل کو پہنچا سکے۔ جبکہ ہمارے ساتھ امریکی دوستی محض دکھاوے کی ہے اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکی بحری بیڑے کی امداد کے ’’جھاکے‘‘ میں ہمارے حکمرانوں نے وطن عزیز کا ایک حصہ گنوا دیا تھا۔ آج بھی امریکہ ہمارے حکمرانوں کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتا ہے اور درحقیقت ہمارے ازلی اور مکار دشمن بھارت کی سرپرستی کر کے اسے ہماری سالمیت پر کاری ضرب لگانے کا کھلا موقع فراہم کر رہا ہے جبکہ وہ خود بھی ہماری ایٹمی صلاحیتوں کے درپے ہے۔جس کے بارے میں امریکی صحافی سیمور ہرش کی حالیہ رپورٹ چشم کشا ہے۔
اس گھمبیر صورتحال میں بجائے اسکے کہ ہماری حکومتی سیاسی اور عسکری قیادتیں دشمن کے عزائم کو بھانپ کر اپنے گھوڑے تیار رکھیں،صدر آصف علی زرداری اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور بزعم خویش یہ طے کئے بیٹھے ہیں کہ پاکستان میں مضبوط جمہوریت کیلئے امریکی حمایت ناگزیر ہے،جن کے بقول ہمیں اس معاملہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہو گا،اگر اس خطہ میں امریکہ،بھارت،اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ کے عزائم کو بھانپ کر بھی صدر محترم کو حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تو پھر قوم کیا توقع رکھے گی کہ ہمارے حکمران ملکی و قومی مفادات اور سلامتی کے تقاضے نبھانے کے اہل ہیں جبکہ امریکہ بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر کشمیر کے جہاد کو دہشت گردی اور ہمیں دہشت گرد ریاست قرار دینے کی منصوبہ بندی بھی کر چکا ہے جس کیلئے ہماری امداد کے عوض کیری لوگر کے قانون میں شق بھی رکھ دی گئی ہے۔
اندریں حالات حکمرانوں کو محض اپنے اقتدار کی مضبوطی کیلئے امریکی حمایت کی خاطر ملکی و قومی سلامتی کو کسی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہئے اور امریکہ پر واضح کرنا چاہئے کہ یو این قراردادوں کے برعکس ہمیں کشمیر کا کوئی دوسرا حل ہرگز قابل قبول نہیں اور ایٹمی ملک کی حیثیت سے ہم بھارتی ممکنہ جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی طاقت اور اہلیت رکھتے ہیں۔ امریکہ اگر علاقائی اور عالمی امن کا خواہاں ہے تو بھارت کو یو این قراردادوں کے مطابق کشمیر میں استصواب کی راہ پر لے آئے ورنہ کشمیری عوام کی جدوجہد اب رائیگاں نہیں جانے والی۔
خبر کا کوڈ : 14961
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش