0
Monday 19 Nov 2012 20:34

امام حسین علیہ السلام

امام حسین علیہ السلام
تحریر: محمد حسین بلتستانی 

(شخصیت اور حیات طیبہ پر ایک طائرانہ نظر)
مختصر تعارف:
آپ کا اسم مبارک حسین (ع) ہے جبکہ مشہور القاب سید، سبط اصغر، شہید اکبر، سید الشہداء ہیں اور کنیت ابوعبداللہ ہے۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہیں۔ آپ ۳ شعبان المعظم 4ھجری قمری  کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۱۰ محرم الحرام ۶۱ ھجری قمری کو کربلا معلی عراق میں شہید کیے گئے۔ آپ کی عمر مبارک ۵۸ سال ہے اور مدت امامت ۱۰ سال ہے۔ آپ ۶ اولادیں ( ۴ بیٹے اور۲ بیٹیاں) تھیں۔

اخلاق و اوصاف:
حضرت امام حسین علیہ السلام کی شخصیت اور فضائل کے متعلق کتب میں بےشمار احادیث موجود ہیں۔ اپنے بچپن کے ابتدائی چھ سے سات سال آپ (ع) اکثر اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے حتیٰ کہ نماز کے وقت بھی آپ (ع) ان سے جدا نہیں ہوتے تھے۔ رسول کریم صلی علیہ و آلہ وسلم آپ (ع) اور آپ کے بھائی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے ساتھ شدید اظہار محبت فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ:
اَلحَسَنُ وَالحُسَین سَیَّدَا شَبَابِ اَہل الجَنَّۃِ
حسن اور حسین (ع) جوانان جنت کے سردار ہیں۔
آنحضرت (ص) اپنے اصحاب کی محافل میں فرمایا کرتے تھے کہ :
مَن اَحَبَّ الحَسن وَالحُسین فَقَد اَحَّبَنِی وَ مَن اَغضَبَھُمَا فَقَد اَغضَبَنِی
جس نے حسن  اور حسین (ع) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ 

کبھی فرماتے تھے کہ:
ھُمَا رَیحَانِی مِنَ الدُنیَا
یہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کے کئی مخصوص فضائل بھی نقل ہوئے ہیں جن میں سے مشہور روایت یہ ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ:
حُسَینُ مِّنِی وَ اَنَا مِنَ الحُسَین
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔
حضرت سلمان فارسی کی روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام آنحضرت کے زانو ئے مبارک پر بیٹھے ہوئے تھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے بوسے لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ:
تو سید و سردار ہے سید کا بیٹا ہے اور سادات کا باپ ہے۔ تو امام ہے امام کا بیٹا ہے اور آئمہ کا باپ ہے اور تو حجت ہے، حجت کا بیٹا ہے اور حجج الٰہی کا باپ ہے۔ تیرے صلب سے نو امام پیدا ہوں گے جن کا نواں قائم آل محمد (ص) ہوگا۔ 

ابو بکر بن محمد بن حزام کہتے ہے کہ امام حسین علیہ السلام ایک چبوترے کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپ کی نظر چند فقیروں پر پڑی جو عبائیں بچھائے خشک روٹیاں ان پر رکھ کر کھا رہے تھے۔ انہوں نے امام (ع) کو کھانا کھانے کی دعوت دی تو امام (ع) نے فرمایا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ پھر نیچے اترے اور ان کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔ اس کے بعد ان سے فرمایا: تم نے مجھے دعوت دی اور میں نے قبول کی اب میں تمہیں دعوت دیتا ہوں اور تم قبول کرو۔ آپ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی کنیز سے فرمایا کہ جو کچھ تیار کیا ہوا ہے وہ لے آؤ اس کے بعد ان کو انعامات سے نواز کر رخصت فرمایا۔
آپ (ع) کے زہد و عبادت کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے ۲۵ حج پاپیادہ بجالائے اور جب حج کا سفر کرتے تھے تو جانور آپ (ع) کے پیچھے پیچھے چلا کرتے تھے۔ 

اپنے والد امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ ان کی مخصوص غذا تناول فرماتے تھے آپ  زہد و عبادت، علم و حلم اور صبر و شجاعت میں اپنے بابا کے ہمراہ، عہد توڑنے والوں اور ستمکاروں کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ امام حسین علیہ السلام جنگ صفین کے ابتدائی مرحلے میں شامیوں کے قبضے سے پانی کا گھاٹ چھڑوانے کی کارروائی میں شریک تھے اور اس کامیابی کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا تھا:
ھذا اول فتح ببرکۃ الحسین
یہ پہلی فتح حسین کی برکت سے ہوئی ہے۔

احوال و واقعات:
حضرت امام حسین علیہ السلام کی زندگی کا مندرجہ ذیل چھ اہم ادوار میں ہم سرسری مطالعہ کر سکتے ہیں۔ 

پہلا دور:

امام حسین علیہ السلام کے بچپن کے ابتدائی چھ سال جو آپ نے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر شفقت گزارے تھے وہ آپ کی زندگی کا سنہری دور تھا۔ اس دور کو آپ نے اپنے نانا نبی، اپنے والد بزرگوار علی علیہ السلام اور والدہ ماجدہ خاتون جنت علیہا السلام کی شفقت کے سائے میں گزارا۔ 

دوسرا دور:

آنحضرت (ص) کی زندگی کے بعد حالات یکسر بدل گئے۔ رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے مسلمہ طور پر تعیین شدہ خلیفہ برحق سے روگردانی کرتے ہوئے امت نے اپنی طرف سے اپنا خلیفہ چن لیا تو امیر المومنین امام علی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت کے تحت قیام بالسیف نہیں فرمایا اور اسلام و مسلمین کو افتراق کے فتنے سے بچا کر اسلام کی بنیادوں کو مضبوط بنایا۔ آپ (ص) نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی والدہ خاتون جنت جناب سیدہ فاطمہ الزہراء علیہا السلام اور اپنے بابا حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام پر ظلم وستم ہوتے ہوئے دیکھا مگر دین خدا کی حفاظت کی خاطر صبر و تحمل کا مظاہر ہ کیا۔ اس دور کو آپ (ع) نے اپنے والد بزرگوار علی مرتضیٰ علیہ السلام اور والدہ ماجدہ خاتون جنت سلام اللہ علیہا کی شفقت زیر سایہ گزارا۔ یہ عرصہ انتہائی مختصر رہا۔
تیسرا دور:
اپنے نانا رسالتمآب (ص) سے جدائی کے صدمے پر صبر کرنے کے بعد والدہ ماجدہ خاتون جنت سلام اللہ علیہا سے جدائی کا صدمہ بھی آپ کو اٹھانا پڑا۔ اس عرصے میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے بابا کے ہمراہ خلفاء ثلاثہ کی خلافت کے نشیب و فراز کا بغور مشاہدہ فرمایا۔ مختلف مواقع پر خلفاء ثلاثہ کے فیصلوں اور ان پر امیر المؤمنین کے ردعمل کو دیکھا۔ 

چوتھا دور:

خلفاء ثلاثہ کے ٢٥ سالہ دور حکومت کے بعد جب حضرت عثمان کے قتل کے نتیجہ میں لوگوں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی بیعت کی تو امام حسین علیہ السلام کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جہاں بظاہر تو خلافت و حکومت ملی تھی مگر حقیقت میں فتنوں کا ایک نیا طوفان اٹھنے والا تھا اور آل محمد علیہم السلام کو اس کا بھی مقابلہ کرنا تھا۔ چنانچہ ٣٥ ھ میں جمل کا معرکہ پیش آیا اور اس کے بعد ٣٦ھ میںجنگ صفین اور پھر جنگ نہروان کے معرکوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بالآ خر ٤٠ ھ میں آپ (ص) کے باباامیرالمؤمنین علیہ السلام کو شہید کردیا گیا۔ لیکن آپ (ص) نے اس عظیم مصیبت اور امتحان کو بھی صبر اور حوصلے سے برداشت کیا۔ 

پانچواں دور:

امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں بھی اپنے بھائی کی ہر میدان میں حمایت فرمائی۔ صلح امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کی عہد شکنی کے بعد اہل بیت علیہم السلام پر مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام پر باقاعدہ منبروں سے سب و شتم ہونے لگا۔ پیروان آل محمد (ص) کا قتل عام ہونے لگا اور انہیں طرح طرح کی تکالیف دی جانے لگیں۔ یہاں تک کہ صفر ٥٠ ھ میں امام حسن علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کرا دیا گیا۔ 

چھٹا دور:
حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد اسلام کی حفاظت و ترویج اور امت کی رہبری کی ذمہ دار ی امام حسین علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگئی۔ امام حسین علیہ السلام اور حاکم شام معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان روابط اور مختلف مواقع پر ہونے والے مکالمے اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ امام (ص) نے سیاسی اعتبار سے معاویہ کی حکومت کو قطعی طور پر قانونی تسلیم نہیں کیا تھا۔ چنانچہ معاویہ کے نام اپنے خط میں امام (ص) نے لکھا تھا کہ مجھے اس امت کے لیے تمہاری حکومت سے بڑھ کر کوئی فتنہ نظر نہیں آتا۔ 

معاویہ اپنے کاروبار ظلم و ستم میں مصروف رہا یہاں تک کہ ٦٠ ہجری میں اس دنیا سے چلا گیا۔ معاویہ نے صلح امام حسن علیہ السلام کی ایک بار پھر عہد شکنی کرتے ہوئے اپنے بعد اپنے بدکردار بیٹے کو اپنا جانشین بنایا۔ یزید دین و شریعت کی دھجیاں اڑانے لگا تو وارث علی و بتول و جانشین رسول نے اسلام کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو نجات دلانے کے لیے قیام فرمایا اورتاریخ انسانیت کی سب سے عظیم و شعوری قربانی کے ذریعے یزیدیت کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا اور حق و باطل کے درمیاں قیامت تک کے کیے حد فاصل کا تعین فرمایا۔ یہ عظیم قربانی میدان کربلا میں ۱۰ محرم ۶۱ ہجری کو انجام پذیر ہوئی۔
خبر کا کوڈ : 212573
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش