0
Friday 29 Mar 2013 20:15

مشرق وسطٰی میں تشدد کی لہر اور پاک امریکہ تعاون

مشرق وسطٰی میں تشدد کی لہر اور پاک امریکہ تعاون
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ 

پاکستان مسلسل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے، بالخصوص ایبٹ آباد میں القاعدہ کے چیف اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد عالمی سطح پر درپیش مشکلات کے علاوہ معاشی، سماجی اور سیاسی حوالے سے پاکستان کے لئے چیلنجیز بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہمارے وطن کو سب سے زیادہ گھمبیر بنانے والا مسئلہ اندرونی طور پر عدم استحکام کی طرف دھکیلنے والا تشدد ہے۔ یہ اس لیے بھی سنگین ہے کہ اس کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی، بلکہ یہ صورتحال پاکستان کے موہوم کردار، ناامیدی اور تشکیک میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ حال ہی میں آرمی چیف جنرل پرویز کیانی کا دورہ اردن اس کی تازہ مثال ہے۔ مسلح افواج کی وطن عزیز کے لیے اہمیت اور محبت مسلمہ ہے، مگر اوبامہ کے نئے وزیر خارجہ سے سپہ سالار کی سیاسی ملاقات سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ پاکستانی الیکشنز اور مشرق وسطٰی میں اسرائیل کے دفاع اور بقا کے لیے جاری جنگ میں اوبامہ انتظامیہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کردار میں گہرا تعلق ہے۔

مغربی دنیا پاکستان کو گلوبل جہاد یا وسعت پذیر دہشت گردی کا ایک مرکز سمجھتی ہے کہ جہاں سے زمان و مکان کی معمولی سے قید کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک میں تجارتی، عوامی یا عسکری مرکز کو نشانہ بنانے کے لیے تازہ دم دستے تیار رہتے ہیں۔ پاکستانی تجزیہ نگار انہیں غیر ریاستی عناصر کا نام دیتے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں ہمارے سفارتکار ہر وقت دہشت گردی کے پیش آنے والے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔ فاٹا کے قبائل نے سب سے پہلے قائداعظم کی آواز پہ لبیک کہا اور ہتھیار بند ہو کر کشمیر جا پنہچے، لیکن آج وزیرستان امریکہ اور انڈیا کے گٹھ جوڑ سے پاکستانی ریاست کے دشمنوں کا مضبوط اڈا بن چکا ہے۔ پروز مشرف پر حملوں سے لیکر برطانیہ اور امریکہ میں ہونے والے دھماکوں تک میں وانا کا ذکر ضرور آتا ہے۔ لیکن اب ایک نیا ھدف ہے جہاں القاعدہ، طالبان اور سی آئی اے ملکر موت کا کھیل رچائے ہوئے ہیں۔ ایک جنگ مشرق وسطٰی میں شام کے محاذ پر لڑی جا رہی ہے اور دوسرا محاذ چین ہے، جہاں افغانستان کے علاقے نورستان سے چینی ترکستان میں بغاوت کروانے کے لئے سوات سے فرار ہونے والے دہشت گرد مولوی فضل اللہ گروپ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

عالمی سطح پر ایران کے خلاف لڑی جانے والی جنگ فقط عسکری نہیں بلکہ معاشی اور نفسیاتی طور پر بھی جاری ہے، جس میں عالمی طاقتوں نے اپنے طور پر پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی بہت کوشش ہے۔ امن پائپ لائن، گوادر میں تیل صاف کرنے کے کارخانے قائم کرنے جیسے معاہدے مغربی طاقتوں کے لیے ناقابل برداشت رہیں گے۔ پاکستان نے 2001ء میں طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ اس لیے دیا کہ مشرقی سرحدوں پر موجود دشمن عالمی طاقتوں کا ساتھ دینے میں ہم پر سبقت نہ لے جائے اور امریکی امداد سمیٹنے کے علاوہ پاکستان کے لیے خطرات میں اضافے کا سبب نہ بنے۔ لیکن موجودہ صورتحال اس بات پر شاہد ہے کہ بزدلی کی بنیاد پر تشکیل دی جانے والی مشرف کی فوجی حکومت کی پالیسی نہ صرف اسلامی مملکت پاکستان میں اور دنیا بھر میں اسلام اور پاکستان کی رسوائی کا سبب بنی ہے، بلکہ جس بیرونی خطرے سے بچنے کے لیے امریکہ کا ساتھ دیا گیا تھا۔ اس سے کہیں زیادہ طاقتور خطرات اندرونی طور پر پاکستان کو سرطان کے مرض کی طرح کھا رہے ہیں۔ جس طرح روس کے خلاف جنگ کو ضیاءالحق نے اپنی غیر آئینی فوجی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے غنیمت سمجھا، اسی طرح طالبان سے افغانستان کو پاک کروانے کے لیے امریکی جنگ میں بھی پاکستان کی فوجی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے اپنے طور پر فائدہ اٹھایا۔

امریکہ کی دھمکی، جھانسے یا سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کو بنیاد بنا کر جن طالبان کے خلاف اعلان جنگ کیا گیا، آج وہی طالبان سفارتی استثنا حاصل کرچکے ہیں اور کرزئی کی امریکی پٹھو انتظامیہ بھی واویلا کر رہی ہے کہ امریکہ طالبان کو فائدہ پنہچانے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔ جب سے یہ خبریں عام ہوئی ہیں کہ ملا عمر کے نمائندہ افراد متحدہ عرب امارات اور مغربی ممالک میں لگژری ہوٹلوں میں داد عیش دے رہے ہیں، اس وقت سے طالبان کی مخالفت کرنے والے بہت سے افراد کی رال ٹپک رہی ہے، ایک طرف وہ اپنے آپ کو امریکیوں کا وفادار بھی رکھنا چاہتے ہیں اور بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ طالبان دوست بننے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں مبینہ ہلاکت کے بعد پاکستان میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی اور اوبامہ جب اسامہ کی ہلاکت کی خبر کی بنیاد پر دوبارہ صدارتی کرسی پر بیٹھنے میں کامیاب ہوگئے تو کچھ عرصے میں امریکہ کو پاکستان کے کردار کی ایک بار پھر ضرورت محسوس ہوئی، لیکن اب دیر ہوچکی تھی۔

ان حالات میں چین، پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوچکے تھے کہ امریکیوں کے لیے پاکستان بارے فیصلے کرنا مشکل ہوگیا۔ وائٹ ہاوس، جہاں اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ بریکٹ کرتے ہوئے براہ راست پاکستان میں مداخلت کی منصوبہ بندیاں کیں، وہیں پر اوبامہ کے دوسرے دور صدارت میں جنوبی ایشیا میں تزویراتی لحاظ سے نہایت اہم محل وقوع پہ واقع مسلمان ایٹمی طاقت کے حامل ملک پاکستان کو ایران اور چین سے دور رکھنا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس پر امریکہ مخالف اور ایران نواز قوتیں بھی یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کی کرپٹ حکومت کے دور میں حالات نے امریکیوں کو ایسے دوراہے پہ لا کھڑا کیا ہے کہ پاکستان کی طاقت ور افواج کو پہلے کی طرح رام کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ امریکیوں نے سعودی دوستوں کی خواہش کے باوجود زرداری حکومت کے خلاف کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی امریکی دباو کے باجود صدر زرداری کو ایران اور چین کے ساتھ معاہدے کرنے میں مسلح افواج اور مقتتدر قوتوں کی طرف سے کسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور سی آئی اے چیف دونوں کو شام میں شکست اور امریکی پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے اپنے اپنے عہدوں سے مستفی ہونا پڑا اور اب نئے وزیر خارجہ جان کیری نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد افغانستان، سعودی عرب اور دیگر ممالک کے دورے شروع کر دیئے ہیں اور صدر اوبامہ بھی اسرائیلیوں کو یقین دلانے تل ابیب کی یاترا کرچکے ہیں کہ شام میں جنگ جاری رہے گی اور ایران پر مزید پابندیاں لگا کر حزب اللہ کو کمزور کرنے کی کوششوں میں کمی نہیں آئے گی۔ جان کیری نے سعودی دوستوں کی میزبانی میں اعلان کیا کہ امریکہ شام مخالف دوستوں سے تعلقات کو اپنا اثاثہ سمجھتا ہے۔ سعودیوں کو ہیلری کلنٹن کی اس پالیسی پر تحفظات تھے کہ روس افغان جنگ کی کھوکھ سے جنم لینے والے عرب جنگجووں کو بشار الاسد حکومت کے خلاف استعمال کیا جائے، دوسری طرف ترکی صرف شامی فوج کے باغی افراد تک ہی جنگ کو محدود رکھنا چاہتا تھا، اسی لیے امریکی دوستوں کی تزویراتی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے فاٹا میں پاکستان کے خلاف لڑنے والے دہشت گرد گروہوں اور امریکی جیلوں سے خصوصی طور پر رہائی پانے والے لیبیا کے باغیوں نے سی آئی اے کے ساتھ مل کر ترکی کے بارڈر پر شام کے سیکولر باغی فوجیوں کے بیس کیمپ کی بجائے اردن کے راستے عراق کی سرزمین سے شام کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا۔

ایک سال کے قلیل عرصے ہی میں 2013ء سے پہلے ترکی کو بیس کیمپ قرار دیکر شام کے خلاف لڑنے والے باغی اپوزیشن گروپوں اور سی آئی اے کے ساتھ تعاون کرنے والی القاعدہ کی ذیلی تنظیموں کے درمیان وسائل، طاقت اور اختیارات کی تقسیم پر اختلافات سامنے آنا شروع ہوگئے۔ سعودیوں نے امریکہ کے ایما پر ان عرب گروپوں کو اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت کے ساتھ ساتھ بے پناہ وسائل فراہم کئے، لیکن جس طرح اسرائیلیوں کو ہیلری کلنٹن کی سلفی اور سنی مسلح گروہوں کو طاقتور بنانے کی پالیسی خطرناک محسوس ہوئی، اسی طرح شروع کے ایک سال میں سعودی فرمانراو خاندان کو بھی سی آئی اے کے پروردہ ان مسلح گروہوں کے ہاتھوں لیبیا کے معمر قذافی کے انجام کی طرح کے ڈراونے خواب آنا شروع ہوگئے، جس کے بعد موساد کی طرح سعودی انٹیلی جنس نے بھی سی آئی اے کے ساتھ تعاون کو جہادی گروپوں کا زور کم کرنے کے ساتھ مشروط کرنا شروع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں اوبامہ انتظامیہ کو سی آئی اے چیف اور وزیر خارجہ کو تبدیل کرنا پڑا۔

لیبیا میں ان گروپوں کے ذریعے تختہ الٹنے کے بعد انہیں عرب دہشت گرد دستوں کو مرسی کی حکومت کے خلاف ایک دھمکی کے طور پر سینا کے صحرا میں مخصوص طرح سے ریہرسل کا حصہ بنایا گیا۔ بظاہر ان جہادیوں کا ھدف اسرائیلی بارڈر تھا لیکن ان کے خلاف کارروائی مصر کی فضائیہ نے کی، جس کا علم خود مصری حکومت کو بعد میں ہوا، لیکن اس دوران مرسی کو موساد اور سی آئی اے کا مشترکہ پیغام پہنچ چکا تھا۔ اگر اخوان کی حکومت اپنے آپ کو امریکیوں اور اسرائیل کے لیے قابل قبول نہ بناتی تو انہیں جہادی گروپوں اور اسرائیل دونوں کی طرف سے خطروں کا سامنا کرنا پڑتا اور ساتھ ساتھ مسلح افواج کسی وقت بھی مصر کی موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے جو بھی اقدامات کرتیں، انہیں عالمی حمایت حاصل ہوتی۔ لیکن مصر کی حکومت نے ترکی کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی بجائے شام میں اختیارات کی منتقلی کے نعرے کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنا لیا۔

سعودی اور صیہونی خواہش پر جب سی آئی اے نے القاعدہ کا کردار کم کرنا شروع کیا تو اردن اور سعودیہ کے لیے غیر یقینی صورتحال بن گئی اور اسکا امکان بڑھ گیا کہ کہ القاعدہ اب ان دونوں ممالک میں کارروائیاں کرے گی۔ اس وقت عراق اور شام کے بارڈر پر شام کے خلاف لڑنے والے القاعدہ کے مقامی کمانڈر اردنی انٹیلیجنس کی حراست میں ہیں اور سعودی جیلوں میں نہ صرف القاعدہ کے دہشت گرد قید ہیں بلکہ اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکن جن میں دانشور اور علماء کی بڑی تعداد ہے وہ بھی سعودی ٹارچر سیلوں میں مقید ہیں۔ ساتھ ہی لبنان میں سعودی نواز گروپوں کو مسلح کرکے حزب اللہ کے خلاف صف آرا کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنا اردن اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے لیے ناممکن ہے، کیونکہ صدام اور کرنل قذافی جیسے امریکہ دوست حکمرانوں کا انجام ابھی ان کے اذہان سے محو نہیں ہوا اور نہ ہی وہ سی آئی اے پر اعتماد کرسکتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ شام کے خلاف امریکی جنگ میں مذکورہ حکمران امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کی سکت بھی نہیں رکھتے، بالکل ایسے ہی جیسے 2001ء میں طالبان کے خلاف جنگ میں پاکستان کی فوجی حکومت امریکی دھمکی کے جواب میں امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار نہیں کرسکی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو امن پائپ لائن کے ذریعے گیس ملے گی، لیکن فوری طور پر ہمیں سستے تیل کی ضرورت ہے اور ہم سعودی دوستوں سے تعلق کو پائیدار بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ہمارے کرم فرما سعودی شہزادوں کو ایسی ہی صورتحال درپیش ہے، جو امریکہ کا ساتھ دینے کے بعد پاکستان کو درپیش تھی، وہ پاکستان کی مسلح افواج اور استخباراتی اداروں کے تعاون کے بغیر اپنی حکومت قائم نہیں رکھ سکتے۔ ہماری مسلح افواج کے سپہ سالار ایک پیشہ ور سپاہی ہیں اور وہ ملک کی سکیورٹی کے لیے سستے تیل کی جو اشد ضرورت ہے، اس سے غافل نہیں رہ سکتے۔ امریکی جانتے ہیں کہ اردن کی انٹیلیجنس پاکستانی حساس اداروں کے زیر اثر ہے، اور پاکستان بھی امریکہ کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ عرب دنیا میں جب تک اسرائیل کا خوف موجود ہے، وہ ہمارے محتاج ہیں، امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون کی صورتحال اس سے سے مختلف نہیں ہوسکتی جو افغانستان میں چل رہی ہے۔

جنرل کیانی کے وزٹ سے سعودی اور اردنی حکمرانوں کو سہارا بھی مل جائے گا اور ہمارا دفاع بھی مضبوط ہوگا۔ رہا سوال جان کیری کی افغانستان کی بجائے اردن میں جنرل کیانی سے ملاقات کا تو پاکستان کی باگ ڈور اب بھی فوج کے ہاتھ میں ہے، اور خارجہ پالیسی مکمل طور پر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ افغانستان میں ہمارے کل کے اتحادی اور پناہ گزین اب ہمارا اثاثہ نہیں رہے، اب وہ دنیا کی سیر کر رہے ہیں اور آزادانہ طور پر امریکہ سے مذاکرات کر رہے ہیں اور ان کی سرزمین پر بات چیت ہمیں کوئی لیورج نہیں دے سکتی، اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرب سرزمینوں پر بکھرے ہوئے لڑاکا دستے سی آئی اے کے مکمل کنٹرول میں نہ ہوں اور عرب حکمرانوں کی طرح جان کیری کو بھی ہمارے تعاون کی ضرورت ہو۔ دونوں طرف سے مجبوریاں بھی ہیں اور مفادات بھی۔ البتہ جو بھی فوائد حاصل کئے جاتے ہیں، ان کا فائدہ عام آدمی کو کم ہی ملتا ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ امریکی افغانستان کے محاذ پر پاکستانی مقتدر قوتوں کے غضب میں کمی لانے کے لیے مشرق وسطٰی میں انہیں کوئی آفر کرنا چاہتے ہیں اور سعودی عرب اور اردن کا اہم وزٹ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس دفعہ ہمارے ولی وارث اچھے ہوم ورک کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔ اسی لئے تو پہلے چین اور ایران کے ساتھ نہایت اہم معاہدے کر لئے گئے ہیں، تاکہ عربوں اور امریکیوں کے ساتھ بارگینینگ کے لیے ہمارے ہاتھ خالی نہ ہوں، لیکن پاکستان کے لیے بلوچستان میں سعودی دوستوں کی خواہش پر جنداللہ کو ایران کے خلاف جگہ دینے کا تجربہ اچھا نہیں رہا اور امریکہ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کے نتائج بھی پمارے حق میں نہیں رہے تو کیوں نہ ہم معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لیے قناعت اور خود کفالت کو شعار بنائیں۔ دوستی برابری کی بنیاد پر ہو، نہ کہ ضرورت وہ بھی محتاجی کی حد تک۔ حالات خواہ کیسے بھی ہوں، ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ نجات اردنی، سعودی، ٹرکش اور امریکی نکسس کا حصہ بننیں میں نہیں۔ اصولی طور پر ہمیں حسن نصراللہ کے کردار کو کھلے ذہن کے ساتھ تسلیم کرنا چاہیے، جن کی دوستی بھی اللہ کے لیے ہے اور دشمنی بھی اللہ کے لیے۔ اور اللہ سچے دل سے کلمہ پڑھنے والوں کی مدد ضرور کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 249828
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش