8
0
Tuesday 30 Apr 2013 18:59

علماء عظام کے نام

علماء عظام کے نام
تحریر: جمشید علی

پاکستان میں الیکشن کی آمد آمد ہے، سیاسی شور شرابہ اپنے عروج پر ہے، سیاسی ورکرز اور سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو معصوم اور مخالف کو نااہل ثابت کرنے میں دل و جان سے مصروف ہیں، سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے۔ ایسے حالات میں کچھ لوگ الیکشن کے مخالف نظر آتے ہیں اور الیکشن میں شرکت کو حرمت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے حضرات الیکشن کی حمایت کرنے والوں پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں اور ان پر بھی حملے کئے جا رہے ہیں، دلائل کی بھرمار ہے۔ سب اپنا اپنا نظریہ ثابت کرنے کیلیے بغل میں کتاب دبائے ہوئے ہیں۔ ہر کام کے فوائد بھی ہوتے ہیں اور نقصانات بھی، الیکشن کے مسئلہ پر اختلاف (اس مقالہ میں مذہبی جماعتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے) اسی مقولہ کا نتیجہ ہے جو لوگ الیکشن کی حمایت کر رہے ہیں انہوں نے الیکشن کے فوائد مدنظر رکھے ہوئے ہیں اور جو لوگ الیکشن کی مخالفت کر رہے ہیں انہوں نے الیکشن کے نقصانات کو نگاہ میں سجا رکھا ہے۔ 

ایک مسئلہ پر اختلاف نظر کوئی نئی بات نہیں لیکن غلط فہمی نے ماحول کو گرما رکھا ہے، جو الیکشن کی مخالفت کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کے حمایت کرنے والے ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ہیں کیونکہ جو الیکشن مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اس پر قومی دولت اور وقت لٹانے کا کیا فائدہ؟ اور جو لوگ الیکشن کی حمایت کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مخالفین نے شکست کے خوف سے بائیکاٹ کیا ہے۔ بعض کے بارے میں کہا جاتا ہے ان کو سیاست نہیں آتی، مسائل کی نوعیت کو سمجھ نہیں سکتے اس لیے مخالفت کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ایسے بیان داغے جا رہے ہیں۔ ناقص نظر میں یہ سب غلط فہمی کا نتیجہ ہے، حمایت کرنے والے بھی خیر خواہ ہیں اور مخالفت کرنے والوں کو بھی سیاست آتی ہے۔ جیسا کہ ایک کالم نگار صاحب نے مخالفت کرنے والوں کو مشورہ دیا ہے کہ "کسی مسئلہ میں زمان اور مکان کا دخل ہوتا ہے آپ یہ چیز مدنظر رکھ کر حرمت کا فتویٰ دیں" یہ بات حقیقت ہے اس کا خیال رکھنا چاہیئے۔ لیکن میرے خیال میں الیکشن کی مخالفت کرنے والوں پر تنقید کرنےسے پہلے ان کی بات کو غور سے سن لینا چاہیئے، فکر کرنا چاہیئے کہ وہ لوگ کیا کہنا چاہتے ہیں، کیا وہ بالکل الیکشن کے مخالف ہیں یا زمان و مکان کی وجہ سے الیکشن کی مخالفت کر رہے ہیں؟ 

حمایت میں دیئے جانے والے دلائل کچھ اس طرح ہیں، امام خمینی (رہ) نے الیکشن کروائے، ایران میں ہر چار سال بعد الیکشن ہوتے ہیں، لبنان میں جمہوریت ہے، حزب اللہ نے الیکشن کے ذریعہ اپنی طاقت منوائی ہے، ایران دوسرے ممالک میں ہونے والے الیکشن کی حمایت کرتا ہے، وغیرہ۔ یہ سب دلائل اس وقت کارآمد تھے جب طرف مقابل الیکشن کا مخالف اور ڈکٹیٹر شپ کا حامی ہوتا جبکہ معاملہ کچھ اور نظر آرہا ہے، مخالفت کرنے والے اس طرح الیکشن کے مخالف نہیں جس طرح آپ نے سمجھ لیا ہے۔ الیکشن کے مخالف، الیکشن کے مخالف نہیں بلکہ نام نہاد الیکشن کے مخالف ہیں۔ میرا ان دلائل دینے والوں سے سوال یہ ہے کہ کیا امام خمینی (رہ) نے ایسے ماحول میں الیکشن کروائے تھے جیسا ماحول پاکستان میں ہے؟ ایک امیدوار آٹھ جگہ سے کاغذات نامزدگی جمع کرواتا ہے چار مقامات پر نااہل اور چار مقامات پر اہل ہے؟ 

ایک غدار کو عدالت تین سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سناتی ہے اور تین دن بعد جج صاحب یہ فرماتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ عدالت فلاں صاحب کے خلاف درخوست جمع کرانے والے (مظلوم) کی گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے اس (غدار) کو باعزت بری کرتی ہے؟ نیب ایک امیدوار کے خلاف آکر رپورٹ جمع کراتا ہے کہ فلاں صاحب نادہندگان کی لسٹ میں شامل ہیں۔ اس امیدوار کی جانب سے آنکھیں دکھانے یا رشوت دینے کے تین گھنٹے بعد نیب کہتا ہے وہ اس لسٹ سے خارج ہوگئے ہیں اور الیکشن لڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں! کیا ایران میں ایسے الیکشن ہوتے ہیں جس میں پارٹی کے سربراہ کے بعد اس کا بیٹا یا بیٹی ہی سربراہ بن سکتے ہیں، کسی دوسرے کو حق حاصل نہیں؟ کیا ایسے الیکشن ہوتے ہیں جن کے نتیجہ میں قاتلوں کو تحفظ اور مقتولین کو سزا مل جائے؟ کیا لبنان میں حزب اللہ نے ایسے الیکشن میں شرکت کی جہاں ووٹروں کو جان و مال کا تحفظ بھی حاصل نہ ہو اور علاقے کے وڈیرے ان کو ہراساں کرکے ووٹ لیتے رہیں؟ 

مجھے ایک قصہ یاد آگیا ہے، ایک علاقے کے لوگ مولوی صاحب کے پاس آئے اور عرض کی مولانا صاحب کنویں کے اندر کتا گر گیا ہے اس کو کیسے پاک کیا جائے گا؟ مولانا صاحب نے فرمایا 80 ڈول نکال لو کنواں پاک ہوجائے گا، وہ لوگ چلے گئے 80 ڈول نکال لیے لیکن ابھی تک کنواں کے اندر کتے کے بال موجود تھے وہ پھر واپس آئے اور مولانا کی خدمت میں معاملہ پیش کیا تو مولانا صاحب نے کہا عقلمندو! پہلے کتا نکالو پھر 80 ڈول نکالو گے تو کنواں پاک ہوگا۔ امام خمینی (رہ) کو دلیل بنانے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ امام خمینی نے پہلے آکر کتا نکالا، اسی نظام کا حصہ نہیں بنے بلکہ جب شاہ ایران نے امام خمینی (رہ) سے پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں تو امام (رہ) نے نہیں فرمایا کہ میں الیکشن چاہتا ہوں، یا میں اصلاحات چاہتا ہوں، یا مجھے سینیٹر کی سیٹ چاہیئے، یا میں پارلیمنٹ کا حصہ بننا چاہتا ہوں، یا مجھے اور میری قوم کو تحفظ کی ضرورت ہے، یا مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے اسے کم کرو یا ڈیزل سستا کرو، بلکہ ایک تاریخی جملہ فرمایا (من می خواہم تو نباشی!) اے ظالم میرا ایک ہی مطالبہ ہے اور وہ یہ کہ تو ادھر نہ ہو۔ الیکشن کی حمایت کرنے والوں کی خدمت میں عرض ہے جب تک کتا کنویں کے اندر موجود ہے اس الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس میں قوم کا وقت ضائع نہ کریں بلکہ قوم کو بیدار کر دیں یہ خود پکاریں گے ہمارے ہیں حسین (ع) ۔۔۔۔۔ 

جب کتا نکل جائے اس کے بعد الیکشن بھی کروا لینا، ریفرنڈم بھی کروا لینا۔ امام خمینی (رہ) نے ریفرنڈم کروایا لیکن ایسے حالات میں نہیں جیسے پاکستان میں ہیں بلکہ الیکشن سے پہلے حالات کو اپنے قبضے میں لیا اور اسلامی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے ریفرنڈم کروایا۔ جس صدر صاحب نے پانچ سالہ دور حکومت میں عوام کو دہشتگردی، کرپشن، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، قتل و غارت، امریکہ نوازی، ذلت و رسوائی وغیرہ جیسے تحائف پیش کیے۔ کیا قوم ایسے حکمرانوں سے یہ امید رکھ سکتی ہے کہ الیکشن شفاف کروائیں گے؟ اور اگر الیکشن شفاف ہوگئے تو عوام کس کو انتخاب کرے گی، کیا جو دوبارہ آئیں گے ان میں مذکورہ بالا صفات نہیں ہوں گی؟ کیا اس الیکشن کے بعد دہشتگردی ختم ہوجائے گی؟ کیا بےعدالتی کی عدالت دہشتگردوں کو سزا دینا شروع کر دے گی یا حسب سابق پھولوں کے ہار پہنا کر رہا کرتی رہے گی؟ کیا پاکستان اپنا کھویا ہوا وقار واپس لے لے گا؟ کیا آئین شکنی کو آئینی تحفظ دینے والے ججز نہیں رہیں گے؟ کیا ڈکٹیٹر کو سلام کرنے والے سیاسی حضرات کو سزا ملے گی؟ کیا ڈکٹیٹر شپ کا موجب بننے والے سیاستدان اس ملک میں نہیں رہیں گے؟ کیا اصغر خان جیسے شرمناک کیس میں ملوث سیاستدانوں کو 765 سکیورٹی گارڈ اور 56 گاڑیاں مہیا نہیں کی جائیں گی؟ ظاہراً یہ سب کچھ چلتا رہے گا، پس اس کا حقیقی راہ حل تلاش کرنا چاہیئے۔ 

ہماری ملت کے غم خوار علماء اسلام سے دست بستہ التجا ہے کہ ان مسائل کا حل آپ کے ہاتھ میں ہے، ان کرپٹ و نااہل سیاستدانوں پر توقع چھوڑ دو، یہ آپ کے اور ہمارے مسیحا نہیں بن سکتے۔ آپ ہمارے بھی مسیحا بنیں اور ان لوگوں کو بھی دنیا کی دلدل سے باہر نکالیں۔ ذرا غور فرمائیں واضح ہے کہ آپ تمام کا ہدف ایک ہے، فقط راستوں کے انتخاب میں اختلاف ہے، آپ سب ملت کے خیرخواہ بھی ہیں اور سیاستدان بھی، آپ مخلص بھی ہیں اور لیڈر بھی، دشمن شناس بھی ہیں اور مرد مجاہد بھی، آپ ناصرِ ملت بھی ہیں اور قائدِ ملت بھی، آپ مفکر بھی ہیں اور چارہ ساز بھی، آپ شیخ الاسلام بھی ہیں اور حجۃ الاسلام بھی، خدارا جس قوم نے اپنا سب کچھ آپ پر قربان کر دیا ہے اور کر رہی ہے اور کرتی رہے گی آپ اس عظیم، باہمت، غیور اور دینی تعصب رکھنے والی قوم پر کچھ بھی قربان نہ کریں۔ فقط اور فقط وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلند اہداف کی خاطر ایک جگہ مل کر بیٹھ جائیں۔
 
ایک دوسرے کی آراء سن لیں۔ احسن کا انتخاب کرلیں، سب مل کر ایک راستہ اپنا لیں، آپ جہاں دوسروں کے ساتھ وحدت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، سب سے پہلے اپنے اندر وحدت قائم کرلیں۔ دوسروں کی نسبت آپ کا آپس میں اشتراک زیادہ ہے، تین چار جگہ ملت کی توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے ایک جگہ خرچ کریں۔ معصوم کوئی نہیں سب کیلئے خطا ممکن ہے۔ ایک دوسرے کو تحمل کریں، آپ کا دین تو بےدین کو بھی تحمل کرنے کا درس دیتا ہے۔ آپس میں پیار محبت کی زبان استعمال کریں، وہ زبان استعمال کریں جس کے ذریعہ رسول اکرم (ص) نے مشرکین مکہ کے دل جیت لئے۔ آپ سب ایک ہیں۔ ایک ہی مکتب کے علماء ہیں، ایک قرآن ہے، ایک پیامبر (ص) ہے، ایک ولی (ع) ہے۔ ایک صاحب الزمان (عج) ہے، تو پھر اختلاف کس چیز پر ہے۔ کم از کم آپس میں مل بیٹھنے اور احسن انداز میں گفتگو کرنا شروع کر دیں، انشاءاللہ معاملہ حل ہو جائے گا۔

اللہ آپ کا پشت پناہ ہے، آپ کو کسی کا خوف نہیں۔ آپ "کنتم خیر امۃ اخرجت للناس" کے مصداق ہیں۔ اللہ نے اپنے دین کی خدمت کے لیے آپ کو انتخاب فرمایا ہے۔ آپ بھی ایک راستہ انتخاب فرما لیں۔ انتخابات کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ اللہ تعالٰی انتظار فرما رہا ہے آپ اس کی طرف ایک قدم چلیں وہ دس قدم آپ کی طرف آتا ہے۔ آپ کی آپس کی محبت کو دیکھ کر میں بھی اپنے مسلمان بھائی سے محبت کروں گا، وہ مجھ سے محبت کرے گا۔ یہ معاشرہ اخوت و بھائی چارہ کا گہوارہ بن جائے گا، امنیت بھی واپس آجائے گی۔ عزت و اقتدار بھی مل جائے گا۔ سکون کا سانس لینے کا بھی موقع مل جائے گا جس کے لیے یہ باوقار ملت برسوں سے ترس رہی ہے۔ رخنہ انداز دشمن بھی ناکام و نامراد ہوکر رہ جائے گا اور سب سے بڑھ کر رضوان الٰہی شامل حال ہوجائے گا۔ یہ عظیم الشان قوم آپ کے لیے دنیا و آخرت میں دعا کرے گی، فقط ضرورت ایک ہمت کی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی ڈال دیں، اسلام کا سونامی آجائے گا۔ باطل کو نیست و نابود کر دے گا۔ خدارا! ایک دفعہ اتحاد و وحدت کا تجربہ کر لیں اللہ آپ پر اپنی عنایات کی بارش کر دے گا۔ انشاءاللہ
خبر کا کوڈ : 259146
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

خداوندا ھماری ملت کے بزرگوں کو اس بندہ خدا کی باتوں کو سمجھنے اور عمل کر نے کی توفیق عطا فرما۔۔۔۔آمین
United States
Very nice article our Ulama should must paid their attention towards unity
United States
السلام علیکم
ہم برادر محترم کی بات سے کاملاً اتفاق کرتے ہیں اور اس بات کا اضافہ کرتے ہیں کہ اگر ہمارے علماء کرام اور شیعہ حضرات مہربانی کریں اور ہر عالم دین اور شیعہ چس طرح اپنے، اپنے شیعہ لیڈر، اپنے شیعہ استاد اور اپنی شیعہ پارٹی کے علاوہ کسی بھی دوسرے شیعہ پر یا کسی شیعہ عالم پر یا کسی دوسری شیعہ پارٹی تنقید کرنا اپنا حق سمجھتا ہے، اسی طرح ان کی تنقید کو بھی تحمل کرے اور ان کو بھی تنقید کا حق دے۔ اور کوئی بھی تنقید کو ذات پرستی اور انا پرستی میں تبدیل نہ کرے۔ جس طرح ہر شیعہ عالم دوسروں کی ھدایت و رھبری کو اپنا فرض و حق سمجھتا ہے، اسی حق و فرض کو دوسرے علماء کے لئے بھی جائز سمجھے، چونکہ ان میں سے معصوم کوئی بھی نہیں اور نام لے کر امام زمان علیہ السلام نے ان میں سے کسی کی تائید نہیں کی، تو جہاں ناصرف اتحاد کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی بلکہ تعمیری تنقید سے ہمارے نقائص بھی دور ہوں ہوں گے۔
میرا ان دلائل دینے والوں سے سوال یہ ہے کہ کیا امام خمینی (رہ) نے ایسے ماحول میں الیکشن کروائے تھے جیسا ماحول پاکستان میں ہے؟
برادر میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا امام خمینی (رہ) نے ایسے ہی ماحول میں الیکشن کرائے تھے جیسا ماحول لبنان میں ہے؟
کاش کہ انتخابات کے مخالفین کا یہی نظریہ ھوتا کہ پہلے پاکستانی حالات درست کئے جائیں اور پھر انتخابات کیے جائیں پھر بھی کچھ خیر تھی، لیکن وہ تو سرے سے انتخابات کے قائل ھی نہیں اور انتخابات میں حصہ لینے والوں کو تاغوت کا پیروکار کہتے ھیں بلکہ وہ براہ راست انقلاب اسلامی ایران جیسا انقلاب لانے کے خواہشمند ھیں جو کہ ان حالات میں پاکستان میں ناممکن ھے جبکہ پاکستان کے تشیع کیلیے قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رح) مشعل راہ ھیں، جنہوں نے ضیاء کے تاریک ترین دور اور جانبدار ڈیکیٹر کے زیر سایہ ھونے والے انتخابات کا بھی بائکاٹ نہیں کیا تھا، پھر آج کیوں حالات کا بہانہ بنا کر انتخابات بائیکاٹ کیا جائے اور سیاسی میدان کو خالی چھوڑا جائے، کیوں کیوں کیوں ؟؟؟؟؟
Iran, Islamic Republic of
جب کتا نکل جائے اس کے بعد الیکشن بھی کروا لینا، ریفرنڈم بھی کروا لینا۔
Kuwait
بہت خوب، خدا برادر محترم کی توفیقات میں اضافہ فرما
اور ہمارے علمائے کرام کو بابصیرت بنادے۔ آمین
شکوہ و شکایت تو ہر ایک کو ہے بتائیے راہ حل کیا ہے کیسے دونوں قائد و ناصر ایک ٹیبل پر بیٹھ سکتے ہیں؟؟؟
ہماری پیشکش