1
0
Tuesday 16 Apr 2013 09:53

نظریاتی تعصب اک آگ، مصیبت یا پھر بیماری

نظریاتی تعصب اک آگ، مصیبت یا پھر بیماری
تحریر: گوہر مراد 

اسلام ہمیشہ سے ہی اصولوں کی جنگ لڑتا آیا ہے اور اس میں کبھی کسی قوم، کسی ذات پات، کسی علاقے یا کسی زبان کے حوالے سے کوئی امتیاز اور برتری دیکھنے کو نہیں ملی۔ اگرچہ یہ افتخار عربی زبان کو حاصل ہے کہ قرآن اسی زبان میں اتارا گیا، اسی طرح پیغمبر اسلام [ص] کا عرب قبائل سے ہونا بھی عربوں کا ایک طرہ امتیاز ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسلام نے اس زبان یا اس قوم کو دیگر اقوام پہ برتری دی ہو۔ اسلام کی صبح جب سے طلوع ہوئی اس نے عربی عصبیت یعنی قبائلی افتخارات کو خاتمہ دینے کی بھرپور کوشش کی اور یوں انہیں سمجھایا کہ اگر کوئی افتخار ہے تو وہ خدا پہ ایمان لانے اور اس کے احکامات کی پیروی میں ہے، البتہ کس حد تک وہ انہیں اس مصیبت سے چھٹکارا دینے میں کامیاب ہو پایا ؟ یہ الگ موضوع ہے۔ تو بات ہو رہی تھی "عصبیت " یا تعصب کی، تعصب فقط ذات پات اور قوم و قبیلے میں اپنے اپنے مفاخر پہ گردن اکڑانے اور ان کی بےجا طرفداری کرنے میں خلاصہ نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک اور پیچیدہ تعصب تو وہ ہے جس نے آج ہمیں اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اور وہ ہے نظریات کا تعصب، ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی سوچ، اپنی اپنی سطح فکری کے مطابق مختلف موضوعات کے بارے میں کسی نتیجے تک پہنچ جاتا ہے تو پھر ناگہان اس کی ترویج شروع کر دیتا ہے، اور جب چند لوگ اس کے ساتھ ہم عقیدہ ہو جاتے ہیں تو نظریہ پرداز کو رفتہ رفتہ یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ حق پر ہے، جتنا اس کے معتقدین میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اتنا ہی اس کی حقانیت کا یقین بڑھتا چلا جاتا ہے، اور ایک منزل تو ایسی آتی ہے کہ جب وہ اس کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتا، یہ وہ منزل ہے جسے نظریاتی تعصب کا نام دیا جا سکتا ہے۔ 

تعصب کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ دلوں میں نفرت کی آگ کو ہوا دیتا ہے، تعصب سے بھرے دل کبھی باہمی تعاون اور ہمدلی کی راہ پہ گامزن نہیں ہو پاتے، یہ تعصب ہی تھا جس نے زمانہ جاہلیت کے عرب کو انتشار میں مبتلا کر رکھا تھا، اور اسلام نے اسے خاتمہ دے کر آپس میں محبت کی فضا قائم کی، اسلام نے اس تعصب کا قلع قمع کیا ، البتہ اس دور کا تعصب قبیلے کے رسوم و رواج میں خلاصہ ہو جاتا تھا اور یوں اسلام نے اس کے خلاف علم بلند کیا اور فرمایا قبیلے کی کوئی حیثیت نہیں ہے، تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، لہذا کسی ایک کو دوسرے پر برتری جتانے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اور برتری تو فقط تقوی اور کردار سے آتی ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج وہ تعصب ایک پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے، ہر شخص اپنے فہم و شعور کو خدا کی کتاب اور اپنی بات کو فصل الخطاب سمجھ بیٹھا ہے، حالانکہ یہ وہ چیز ہے جو اس کی سمجھ میں آئی ہے، بھلے اس نے یہ بات قرآن ہی سے سمجھی ہو لیکن ہے تو فقط ایک فہم، جس میں اشتباہ کی گنجائش بھی تو ہو سکتی ہے، کیا خوارج نے علی ع کے خلاف قیام کرتے وقت "ان الحکم الا للہ " نہیں پڑھا تھا ؟؟؟ ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ ہم اپنے ہی ذہن، اور ایک خاص سطح فکری کے مطابق سوچتے ہیں جس میں حق و باطل دونوں کے شائبے موجود ہیں ، اسی شائبے کو ہی مدنظر رکھا جائے تو کوئی شخص اپنے نظریئے میں تعصب کی حد تک نہیں پہنچے گا۔ 

تعصب کی ایک نفسیاتی وجہ بھی ہے جسے اسلام نے بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ ہے احساس برتری، یہ احساس جتنا گہرا ہوتا چلا جاتا اسی قدر دوسروں کی وقعت گرتی چلی جاتی ہے، اور پھر اسی تناسب سے ان کی آراء و افکار کی قدر و قیمت بھی نیچے آتی جاتی ہے، اور رفتہ رفتہ یہ احساس عمیق ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب ایسا انسان دنیا میں فقط ایک ہی بات کو حق تصور کرتا ہے اور وہ اس کی اپنی بات ہوتی ہے۔ نظریاتی تعصب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ایک نکتہ نہایت ہی ظرافت کا حامل ہے کہ نظریات کی حقانیت کا جائزہ لینے کے لیے فقط تھیوری کا درست یا نادرست ہونا کافی نہیں ہوتا، بلکہ معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے اس تھیوری کا قابل عمل ہونا بھی اتنا ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال امام خمینی (رہ) کا پیش کردہ نظریہ سیاست ہے جس کی بنیاد ولایت فقیہ پر ہے۔ کیا ولایت فقیہ کوئی جدید نظریہ ہے جسے چودہ سو سال بعد اختراع کیا گیا ہے؟ اس حوالے سے رہبر انقلاب اسلامی آیہ اللہ سید علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ یہ کوئی فرد واحد کا نظریہ نہیں ہے بلکہ شیعی فقہ کے مسلمات میں سے ہے، البتہ اسے موجودہ زمانے کے سیاسی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا کارنامہ امام خمینی (رہ) نے انجام دیا ہے۔ لیکن چودہ سو سال میں شیعہ کمیونٹی اس نظریئے کی بنیاد پہ فقط ایک حکومت قائم کر سکی ہے ۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ وہ زمینی حقائق ہیں جن کا ہر لحاظ سے سازگار اور فراہم ہونا اولین شرط ہے۔ 

اس کے علاوہ خود انہی سے یہ بات نقل ہوئی ہے کہ امام خمینی (رہ) کی ایک اہم خصوصیت زمانہ شناسی تھی، انہوں نے اس موقعیت کو بہت اچھی طرح جانچا اور موقع پہ اقدام کیا۔ یہاں اک اور مثال برصغیر کی بھی دیتا چلوں، سر سید احمد خان نے نظریہ پیش کیا کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل ان کی تعلیمی پسماندگی ہے، لہذا انہیں تعلیم و تربیت پہ توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے، اور علی گڑھ یونیورسٹی کا قیام بھی ان کی اسی تھیوری کا عملی نمونہ تھی، اگر تھیوری کو دیکھا جائے تو علم حاصل کرنے کے متعلق آپ کو کتنی ہی آیات و احادیث مل جائیں گی جن سے آپ آرام سے ثابت کر لیں گے کہ مسلمان کے لیے علم ایک بنیادی حیثیت کا حامل پروجیکٹ ہے اور ہر زمانے میں اس سلسلے میں اقدامات انجام دیئے جانے چاہییں تاکہ مسلمان بھی پیشرفت کریں اور دوسری اقوام کی طرح اپنی تعلیمی صلاحیتوں میں اضافہ کریں، لیکن سر سید احمد خان کے زمانے میں موجود زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر جانچنے کی کوشش کی جائے تو یہ تھیوری عملی طور پہ ایسٹ انڈین کمپنی کے استعماری ایجنڈے کی تائید کر رہی تھی اور مسلمانوں کو ان کے خلاف لڑنے سے روک رہی تھی، چنانچہ ملکہ انگلستان کا انہیں اعزازی القاب سے نوازنا اور پھر انگلستان سے واپسی پہ یہ فتوی دینا کہ "انگریزوں کے ساتھ جنگ حرام ہے"، خود اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ عملی طور پہ سر سید کی پہلی تھیوری ہی انگریزوں کے حق ہی میں تھی۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ کسی بھی تھیوری کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس معاشرے کی اجتماعی، ثقافتی اور تہذیبی مسائل کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ 

اس وقت ہم جس صورتحال سے گزر رہے ہیں، ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نظریات کی بنیاد پہ شیعہ مذہب قومی دھارے میں ایک طاقت بن کر ابھرنے کو ہے اور اس کا زیادہ تر کریڈٹ شہداء ہی کو جاتا ہے جن کے بہتے ہوئے تازہ لہو نے شیعہ قوم کو سیاسی شعور بخشنے کا موقع فراہم کیا۔ ایسے میں یہ اختلاف نظر کا سامنے آنا ایک فطری سی بات ہے تاہم قومی سطح پہ اگر یہ نظریات ایک دراڑ ثابت ہوئے تو خاکسار کی رائے میں یہ ایک ناقابل معافی جرم شمار ہوگا، کیونکہ شہداء کا خون ہم سے یہ تقاضا کر رہا ہے کہ ماضی میں جرم ضعیفی میں ملنے والی سزاوں کے دھبے اپنے جسم سے دھو ڈالیں، اور یہ تبھی دھلیں گے جب ہم ایک طاقتور قوم بن کر نظریاتی بنیادوں پہ سیاست کے میدان میں سامنے آئیں گے۔ راہ حل یہی ہے کہ آج ہی نظریاتی تعصب کی عظیم مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے ہمیں سب کی رائے کا احترام کرنا ہو گا، ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالنے سے مکمل پرہیز کرنا ہو گا تاکہ باہمی تعاون کی فضا قائم ہو سکے، فاصلے مٹ سکیں اور آگے بڑھ سکیں۔ آج ہمیں جہاں اپنے نظریات کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے، وہاں اپنی ذات پہ بھی تنقیدی نظر ضرور ڈالنی چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ تعصب کی یہ آگ ہم ہی سے جنم لے رہی ہو۔ حسن ختام کے لیے پیامبر اسلام [ص] کے اس نورانی کلام کی طرف اشارہ کر دوں کہ : "جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تعصب ہو تو قیامت کے دن خداوند عالم اس کو اعراب جاہلیت کے ساتھ محشور فرمائے گا۔"
خبر کا کوڈ : 253821
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ بہت خوب
ہماری پیشکش