1
0
Saturday 12 Oct 2013 15:02

شریف حکومت اور بدمعاش دہشتگرد، در پردہ تعلقات (1)

شریف حکومت اور بدمعاش دہشتگرد، در پردہ تعلقات (1)
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ 
 
نواز شریف پہلے دن سے ہی القاعدہ کے سیاسی اتحادی ہیں۔ 1980ء کے بعد جن دنوں میں القاعدہ کی بنیاد رکھی گئی، اسی وقت نواز شریف نے سیاست میں قدم رکھا۔ اسامہ بن لادن نے بے نظیر حکومت کے خاتمے کے لئے مسلم لیگ کے ساتھ دامے درہمے اور سخنے تعاون کیا تھا۔ بے نظیر حکومت کے خاتمے کے لیے القاعدہ کی آشیر آباد اکیلے نواز شریف کو حاصل نہیں تھی بلکہ آئی جے آئی کی تخلیق میں اسامہ کا پیسہ اور جماعت اسلامی اور مولانا سمیع الحق جیسے لوگ جنرل اسلم بیگ کی طاقت بھی استعمال ہوئی تھی۔ پرویز مشرف جب امریکہ کے اتحادی بنے تو القاعدہ نے مشرف کو اپنا سب سے بڑا رقیب قرار دیا۔ القاعدہ کو اس بات کا قلق تھا کہ ہم نے دنیا بھر میں 30 سال تک امریکہ کا ساتھ دیا اور اب امریکیوں نے ہم سے منہ موڑ کے نئے دوست جنرل پرویز مشرف کی سرپرستی شروع کر دی ہے۔ یہی دکھ نواز شریف کو بھی تھا۔ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان میں القاعدہ کے قابل اعتماد سیاست دان میاں نواز شریف کو جیل میں بند کر دیا اور بعدازاں نواز شریف کے سعودی دوستوں نے انہیں پرویز مشرف کے ساتھ ایک معاہدہ کروا کے اپنے پاس رکھ لیا۔

صورتحال بدل گئی، نواز شریف نے مشرف کے دباو اور اپنی بزدلی کی وجہ سے ملک چھوڑ دیا۔ پرویز مشرف دور کے آئی ایس آئی چیف جنرل محمود نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیے اور امریکی مشرف سے شکوہ کرنے لگے کہ آپ کی فوج نے القاعدہ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ مشرف نے جنرل محمود کو فارغ کر دیا، لیکن امریکی پھر بھی پاکستانی حکومت پر شک کرتے رہے۔ نواز شریف کی جلاوطنی نے القاعدہ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پاکستان میں نواز حکومت کے سہارے اسامہ بن لادن پاکستانی ریاستی طاقت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے القاعدہ نے مشرف پر حملے شروع کر دیئے۔

پرویز مشرف نے سرکاری ذرائع سے حقانی گروپ کے ذریعے معاملہ سدھارنے کی کوشش کی لیکن نوبت وزیرستان آپریشن تک جا پہنچی۔ شروع میں امریکی یہ گمان کرتے رہے کہ مشرف وزیرستان میں آپریشن کے ذریعے افغانستان میں نیٹو فورسز کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے۔ افغانستان میں حالات امریکہ کے کنٹرول سے باہر ہوتے گئے اور سی آئی اے نے افغان بارڈر کراس کرکے طالبان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ پاکستانی افواج نے امریکی مداخلت کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کی بلکہ ہر دفعہ مشرف حکومت امریکیوں سے زیادہ سے زیادہ ڈالر بٹورنے کے چکر میں رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ سی آئی اے نے وزیرستان سمیت افغان سرحد سے ملحق پاکستانی علاقوں میں اپنے ایجنٹوں کو بھارتی ایجنسیوں کی مدد سے منظم کرنا شروع کر دیا۔ مشرف نے پاکستان کے خلاف ممکنہ طور پر جس امریکی اور بھارتی اتحاد کا بہانہ بنا کر امریکہ کا ساتھ دیا تھا، سی آئی اے نے اسے عملی طور پر جاری کر دیا۔

سی آئی اے اور بھارتی انٹیلی جنس کو پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت اور دھماکے کروانے میں بہت آسانی ہوئی، کیونکہ بلوچستان اور سرحد میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے والی آبادی کو پاکستان نے اللہ کے سہارے پر چھوڑ دیا۔ پہلے ان کے بچے جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام جیسی مذہبی جماعتوں کے ذریعے روس کے خلاف جنگ کرتے رہے۔ روس کے چلے جانے کے بعد امریکی امداد بند ہوگئی اور یہ لوگ فاقوں مرنے لگے۔ امریکی امداد سے بنائے گئے مدرسے ہزاروں کی تعداد میں غریب اور مفلوک الحال خاندانوں کی کفالت کرتے تھے، جب پاکستان کی فوجی جنتا نے وزیرستان میں آپریشن شروع کروایا تو یہی مدرسے دوبارہ امریکیوں کے تعاون سے پاکستان کے خلاف صف اول کے عسکریت پسندوں کے مراکز میں تبدیل ہوگئے۔ امریکی ڈرون ان عسکریت پسندوں کو نشانہ بناتے ہیں جو افغانستان اور پاکستان میں امریکی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ مصالحت کی بات کرتے ہیں۔

جلاوطنی کے دوران نواز شریف اور القاعدہ کے درمیان رابطہ کمزور پڑگیا۔ جو جنگ امریکہ نے ملا عمر کے خلاف چھیڑی تھی تاکہ افغانستان سے القاعدہ کے بیس کو ختم کیا جائے، وہ جنگ پرویز مشرف اور طالبان کے حامیوں کی جنگ میں بدل گئی۔ پہلے اس جنگ میں نشانہ پرویز مشرف کی حکومت تھی اور اب یہ جنگ پاکستانی ریاست اور عسکریت پسندوں کے درمیان ایک معرکے کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اس کا ایک فریق تحریک طالبان پاکستان، دوسرا القاعدہ، تیسرا پاکستانی فوج، چوتھا پاکستانی عوام، پانچواں سی آئی اے اور چھٹا بھارت ہے۔ سیاست دان اس جنگ میں کبھی فریق نہیں رہے۔ وہ یا تو فوج کی پے رول پہ ہوتے ہیں یا امریکہ کی۔

جن دنوں میں جنرل نصیراللہ بابر افغانستان میں طالبان کو سیاسی طور مضبوط بنانے میں مصروف تھے، اسوقت یعنی 90ء کی دہائی کے وسط میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کے لیے افغانستان ایک جنت تھا۔ نون لیگ کی پنجاب میں حکومت کے دوران جھنگ، لاہور، وہاڑی، ملتان اور پنجاب کے دیگر اضلاع میں سپاہ صحابہ کے خلاف کمر توڑ آپریشن کیا گیا، اس کے جواب میں نواز شریف پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، لیکن القاعدہ نے نواز شریف اور لشکر جھنگوی کے درمیان صلح صفائی کروا دی، کیونکہ اس وقت نواز شریف القاعدہ اور ملا عمر کے مخالف نہیں تھے۔ مخالف آج بھی نہیں ہیں، لیکن القاعدہ کے ساتھ اس حد تک تعاون بھی نہیں کرسکتے کہ ایمن الظواہری نواز شریف کے بل بوتے پر پاکستانی ریاستی طاقت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکے۔ لیکن القاعدہ اور نواز شریف کے درمیان ایک مشترک نکتہ یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے دونوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 310510
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ۔۔۔
ہماری پیشکش