1
0
Saturday 24 May 2014 22:42

بغداد کے زندان ماضی و حال

بغداد کے زندان ماضی و حال
تحریر و ترتیب: ایس ایچ بنگش
shb1979@gmail.com

مختصر حالات
اسم مبارک :۔ موسیٰ
القاب :۔ کاظم، عبد صالح، نفس زکیہ، صابر، امین، باب الحوائج وغیرہ
کنیت:۔ ابو الحسن، ابو ابراہیم، ابو علی، ابو عبداللہ
پدر بزرگوار:۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
والدہ گرامی:۔ حمیدہ خاتون
 تاریخ ولادت:۔ ٧ صفر ۲۸ھ
تاریخ شہادت :۔ ۲۵ رجب ۱۸۳ھ
مدفن :۔ کاظمین (بغداد) عراق

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام، رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتویں جانشین ہیں۔ آپ کے والد محترم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ جناب حمیدہ خاتون تھیں، جو بربر یا اندلس کی رہنے والی تھیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام جناب حمیدہ خاتون کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں، آپ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے ابائو اجداد کی طرح امام منصوص من اللہ، معصوم، اعلم زمانہ اور افضلِ کائنات تھے۔ آپ دنیا کی تمام زبانیں جانتے تھے اور باذن اللہ علم غیب سے آگاہ تھے، آپ دنیا کے عابدوں میں سے سب سے بڑے عبادت گزار اور سخاوت میں سب سے زیادہ سخی تھے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ٧صفر المظفر ۸۲۱ھ مطابق ۱۰نومبر ۷۴۵ع شنبہ کے روز ابوا کے مقام جو مدینہ و مکہ کے درمیان واقع ہے پیدا ہوئے۔ ولادت کے فوراً بعد ہی آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر آسمان کی طرف رخ کرکے کلمہ شہادتین زبان پر جاری فرمایا۔ یہ عمل آپ نے بالکل اسی طرح انجام دیا جس طرح آپ (ع) کے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انجام دیا تھا۔ آپ کے داہنے بازو پر یہ کلمہ "تمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا" لکھا ہوا تھا۔ ۱۴۸ھ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو شہید کیا گیا۔ باپ کی شہادت کے بعد آپ منصب امامت پر فائز ہوئے اور امامت کے تمام فرائض کے ذمہ دار ہوئے۔ اس وقت منصور دوانقی کی حکومت تھی۔ یہ وہی ظالم و جابر بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعداد سادات موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے یا دیوار میں چنوا دیئے گئے۔

۱۵۸ھ کے آخر میں منصور دوانقی  واصل جہنم ہوتا ہے، اس کے بعد اس کا بیٹا مہدی تخت سلطنت پر بیٹھتا ہے۔ شروع میں اس نے امام علیہ السلام کو کسی قسم کی اذیت نہ دی اور نہ ہی بے احترامی کی لیکن چند سال بعد اس میں بھی اولاد پیغمبر کی مخالفت کا جذبہ ابھرا اور ۱۶۴ھ میں حج کے بہانے حجاز کی جانب روانہ ہوا۔ وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو بھی اپنے ساتھ مکہ سے بغداد لے گیا اور بغداد میں امام علیہ السلام کو قید کر دیا۔ ایک سال امام علیہ السلام اس کی قید میں رہے۔ بعد میں اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور امام علیہ السلام کو آزاد کر کے مدینہ واپس بھیج دیا۔ مہدی کے بعد اس کا بھائی ہادی ۱۶۹ھ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال اس نے حکومت کی۔ اس کے بعد ہارون رشید کا زمانہ آیا۔ اس کے دور میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو آزادی کی سانس لینا نصیب نہیں ہوا۔ علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں کہ جس وقت آپ درجہ امامت پر فائز ہوئے اس وقت آپ کی عمر مبارک بیس سال تھی ۔( اعلام الوریٰ ،ص ۱۷۱)

امام علیہ السلام کی شہادت

امام علیہ السلام کو بصرہ میں ایک سال قید رکھنے کے بعد ہارون الرشید نے والی بصرہ عیسٰی بن جعفر کو لکھا کہ موسٰی بن جعفر (امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ) کو قتل کرکے مجھ کو ان کے وجود سے سکون دے۔ اس نے اپنے ہمدردوں سے مشورہ کرنے کے بعد ہارون رشید کو لکھا، میں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام میں اس ایک سال کے اندر کوئی برائی نہیں دیکھی۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام روز و شب نماز اور روزہ میں مصروف و مشغول رہتے ہیں اور عوام و حکومت کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور ملک کی فلاح و بہبود کے خواہشمند ہیں۔ کس طرح ایسے شخص کو قتل کر دوں، میں ان کے قتل کرنے میں اپنے انجام اور اپنی عاقبت کی تباہی دیکھ رہا ہوں لہٰذا تو مجھے اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے معاف کر بلکہ تو مجھے حکم دے کہ میں ان کو اس قید بامشقت سے آزاد کر دوں۔ اس خط کو پانے کے بعد ہارون الرشید نے اس کام کو سندی بن شاہک کے حوالے کیا اور اسی ملعون کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کر دیا۔ علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں ہارون رشید نے آپ کو بغداد میں قید کر دیا ”فلم یخرج من حبسہ الا میتا مقیدا“ اور تاحیات قید رکھا، آپ (ع) کی شہادت کے بعد آپ کے ہاتھوں اور پیروں سے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹی گئیں۔ آپ کی شہادت ہارون رشید کے زہر سے ہوئی جو اس نے سندی ابن شاہک کے ذریعہ دلوایا تھا۔ (صواعق محرقہ،ص۱۳۲)

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت ۲۵ رجب المرجب بروز جمعہ ۱۸۳ھ میں واقع ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر ۵۵ سال کی تھی۔ آپ نے ۱۴سال ہارون الرشید کے قید خانہ میں گزارے۔ شہادت کے بعد آپ کے جنازہ کو قید خانہ سے ہتھکڑی اور بیڑی سمیت نکال کر بغداد کے پل پر ڈال دیا گیا تھا اور نہایت ہی توہین آمیز الفاظ میں آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو یاد کیا گیا۔ سلیمان بن جعفر ابن ابی جعفر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہمت کرکے نعش مبارک کو دشمنوں سے چھین کر لے گئے اور غسل و کفن دے کر بڑی شان سے جنازہ کو لے کر چلے۔ ان لوگوں کے گریبان امام مظلوم کے غم میں چاک تھے، انتہائی غم و اندوہ کے عالم میں جنازہ کو لے کر مقبرہ قریش میں پہنچے۔ امام علی رضا علیہ السلام کفن و دفن اور نماز کے لئے مدینہ منورہ سے با اعجاز پہنچ گئے۔ آپ نے اپنے والد ماجد کو سپرد خاک فرمایا۔ تدفین کے بعد امام علیہ السلام مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔ جب مدینہ والوں کو آپ کی شہادت کی خبر ملی تو کہرام برپا ہو گیا۔ نوحہ و ماتم اور تعزیت کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔

مرزا دبیر کہتے ہیں:

مولا پہ انتہائے اسیری گزر گئی
زندان میں جوانی و پیری گزر گئی


اقوال امام علیہ السلام
•۔ صالح افراد کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا فلاح اور بہبود کی طرف دعوت دیتا ہے۔ علماء کا ادب کرنا عقل میں اضافہ کا سبب ہے۔
•۔ جو شخص اپنے غیظ و غضب کو لوگوں سے روکے تو قیامت میں خدا اس کو اپنے غضب سے محفوظ رکھے گا۔
•۔ معرفت الٰہی کے بعد جو چیزیں انسان کو سب سے زیادہ خدا سے نزدیک کرتی ہیں وہ نماز، والدین کے ساتھ اچھا برتائو، حسد نہ کرنا، خود پسندی سے پرہیز کرنا، فخر و مباہات سے اجتناب کرنا۔
•۔ مخلوقات کا نصب العین اطاعت پروردگار ہے۔ اطاعت کے بغیر نجات ممکن نہیں۔ اطاعت علم کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ علم عقل کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے۔ علم تو بس عالم ربانی کے پاس ہے۔ عالم کی معرفت اس کی عقل کے ذریعہ سے ہے۔
•۔ تمھارے نفس کی قیمت تو بس جنت ہے۔ بس اپنے کو جنت کے علاوہ کسی اور سے نہ فروخت کرو۔
•۔ نعمت اس شخص کے پاس رہتی ہے جو میانہ روی اور قناعت کو اپناتا ہے اور جو شخص بےجا مصرف اور اسراف کرتا ہے تو اس سے نعمت دور ہو جاتی ہے۔
•۔ امانت داری اور سچائی رزق مہیا کرتے ہیں۔ خیانت اور جھوٹ فقر اور نفاق پیدا کرتے ہیں۔
•۔ عاقل وہ ہے جسے رزق حلال شکر سے باز نہیں رکھتا اور نہ کبھی حرام اس کے صبر پر غالب آتا ہے۔
•۔ علی بن یقطین سے فرماتے ہیں، ظالم بادشاہ کی نوکری کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ تم اپنے بھائیوں کے ساتھ احسان کرو۔
•۔ جو شخص حمد و ثنائے پروردگار اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود و سلام بھیجے بغیر دعا مانگتا ہے وہ بالکل اس شخص کے مانند ہے، جو بغیر ہدف کے تیر چلائے۔
•۔ غور و فکر کرنا نصف راحت ہے اور لوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے، کیوں کہ لوگ تمھیں تمھارے عیوب سے آگاہ کریں گے۔ اور یہی لوگ تمھارے حقیقی مخلص ہیں۔
•۔ وہ شخص ہم سے نہیں ہے (ہمارا دوست نہیں ہے) جو اپنی دنیا کو دین کے لئے ترک کر دے یا اپنے دین کو دنیا کے خاطر ترک کر دے۔
خدایا تو ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اپنے امام علیہ السلام کی سیرت کو اپنا سکیں اور تیرے پیغام کو لوگوں تک پہنچا سکیں۔

منبع برای احادیث: (تحف العقول)
خبر کا کوڈ : 385274
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

جزاک اللہ
ہماری پیشکش