3
0
Thursday 4 Dec 2014 16:30

ایران امریکہ تعلقات پر اوریا مقبول کا نیا ڈرامہ

ایران امریکہ تعلقات پر اوریا مقبول کا نیا ڈرامہ
تحریر: عرفان علی

میرے سامنے اوکسفرڈ ڈکشنری کھلی ہوئی ہے۔ یہاں انگریزی لفظ فکشن کا ترجمہ شان الحق حقی صاحب نے 3 حصوں میں کیا ہے۔ فکشن یعنی: افسانہ، طبع زاد، خیال، بیان، خیالی بات۔ فکشن یعنی: ادب خصوصاً ناول، خیالی قصوں اور کرداروں پر مبنی حکایت۔ فکشن یعنی کوئی واہمہ جو عام طور پر مقبول ہو اور چوتھے حصے میں ترجمہ ہے اختراع، ایجاد، افسانہ طرازی، واہمہ سازی۔ فکشنل (fictional) کا ترجمہ خیالی اور غیر حقیقی۔ اس لفظ کی وضاحت کیوں؟ کیونکہ: ڈرامہ دراصل اسی فکشن کو اسٹیج یا نشر کرنے کے لئے اداکاروں کے ذریعے پیش کیا جاتا۔ ڈرامہ یعنی ناٹک، یا۔۔۔کھیل۔ یونانی زبان اور معاشرے سے یہ دنیا بھر میں پہنچا۔ اوریا مقبول جان پاکستان کے سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرامہ نگار بھی ہیں اور اس کے باوجود وہ ایک سیاسی کالم نگار اور تجزیہ نگار بھی ہیں جبکہ پاکستان میں سرکاری ملازمین کو ان سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔ 

ڈرامہ نگار سرکاری ملازم اوریا مقبول جان کا نام اسرائیلیات کی یاد دلاتا ہے، جیسے حضرت داؤد علیہ السلام پر ایک نازیبا اور قابل مذمت تہمت کہ انہوں نے اوریا کو مروایا اور اس کی بیوہ سے شادی کرلی (توبہ نعوذ باللہ! نقل کفر، کفر نباشد)۔ اس طرح کے جھوٹے قصوں کو اسرائیلیات کہا جاتا ہے۔ اوریا عبرانی لفظ ہے۔ ڈرامہ یونان سے آیا ہے اور یہ مقبول کی جان بن کر اس طرح گھس بیٹھے ہیں کہ موصوف خیالی قصوں اور واہموں کو پیش کرکے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ فاضل ڈرامے باز کا روزنامہ دنیا میں 14ستمبر 2013ء کو ایک کالم بعنوان ’’تحریک طالبان پاکستان کے نام ایک تحریر‘‘ شایع ہوا۔ اس میں لکھا کہ طالبان کے ملا عمر نے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہ مبارک پر بیعت لی تھی اور اس جبہ مبارک کی حرمت جس طرح افغان طالبان کے دل میں تھی، وہ حیرت انگیز تھی۔ عکہ کی پیاز مکہ میں کھانے کی جعلی حدیث پر عمل کرنے والے سادہ لوح مسلمانوں کے پیروکاروں کو ایسے ڈرامے بازوں کے فکشن کی ڈرامائی تشکیل اچھی لگتی ہوگی، لیکن حقیقت یہی ہے کہ طالبان افغانستان کی ہو یا پاکستان کی، یہ سبھی امریکی سی آئی اے اور آل سعود کی اسلام دشمن وہابیت کے متحدہ ایجنڈا کے تحت ہی وجود میں آئی تھی اور گذشتہ تحریروں میں ہم اسے بیان کرچکے ہیں۔
 
27 نومبر 2013ء کو روزنامہ دنیا میں موصوف کے کالم کا عنوان تھا: ’’مرگ بر امریکا، مرگ بر اسرائیل، مرگ بر ضد ولایت فقیہ۔‘‘ تضادات سے بھرپور اس کالم میں جو ڈرامہ انہوں نے لکھا اس کا اسکرپٹ بے حد کمزور تھا۔ 21 دسمبر 2013ء کو ’’زین علی، مرگ بر امریکا اور ایران‘‘ میں جناب امیر زینلی کے موقف کو کسی حد تک بیان کرنے کا ڈرامہ کیا۔ ان کے بقول آغا زینلی نے کہا کہ ایران نے طالبان کی مخالفت اس لئے کی کہ وہ اپنے علاوہ باقی تمام مسالک کے لوگوں کو کافر سمجھتے ہیں، جبکہ اوریا صاحب کی نظر میں طالبان ایسے نہیں تھے! امر واقعہ یہ ہے کہ بدنام زمانہ دہشت گرد ریاض بسرا نے لشکر جھنگوی طالبان کی سرپرستی میں ہی قائم کی تھی اور اس کے تربیتی مراکز بھی افغانستان میں ہی تھے اور وہ خود بھی ایک طویل عرصے تک طالبان کا مہمان رہا۔ 1999ء میں پرویز مشرف کے شب خون مارنے سے قبل کے ایام میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے بھی ملک اور پنجاب میں جاری دہشت گردی میں طالبان دور کے افغانستان میں تربیت حاصل کرنے والے دہشت گردوں کو ملوث قرار دیا تھا۔ سنی پولیس افسر اشرف مارتھ کو بھی انہی دہشت گردوں نے قتل کیا تھا۔
 
سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز کے بھتیجے کی بیوی لیلٰی ہیلمز طالبان کی حمایت میں امریکا اور اقوام متحدہ میں سرگرم تھیں۔ رچرڈ ہیلمز سعودی بش خاندان کا قریبی معتمد تھا۔ 27 نومبر 2013ء کے مذکورہ کالم میں اوریا لکھتے ہیں کہ ’’امریکا کے تنہا سپرپاور ہونے کے تصور کو روس نے چند ماہ قبل چکنا چور کر دیا۔ اب دنیا ایک بار پھر دو طاقتوں کے تصادم کی زد میں ہے۔ اب نئی صف بندی کا آغاز ہوگیا ہے اور اس کا پہلا قدم ایران امریکا معاہدہ ہے۔ ‘‘وہ عبوری نیوکلیئر ڈیل کا تذکرہ کرتے وقت بھول گئے کہ اس میں روس امریکا کے ساتھ ایران کے خلاف سازشی اتحاد کا جزو لاینفک ہے! شام میں کیا روس نے امریکا کو شکست دی یا حزب اللہ اور قدس فورس کے حاج قاسم سلیمانی نے۔؟ شام کے معاملے میں جو صف بندی انہیں نظر آئی، اس میں روس اور ایران زیادہ قریب ہیں یا امریکا اور ایران؟ چہ عجب، اس جاہل ڈرامہ نگار کی نتیجہ گیری کے۔
 
30 نومبر 2014ء کو روزنامہ ایکسپریس کی ویب سائٹ پر ان کا کالم آیا جو یکم دسمبر کے اخبار کی زینت بنا۔ ’’پرانے شکاری نیا جال لائے‘‘ کے عنوان کے تحت ان کا زور پھر اسی ڈرامے پر تھا کہ ’’ایران اور امریکا میں خفیہ تعلقات اب سامنے آرہے ہیں۔‘‘ امام خامنہ ای کو تو لبنان کے سنی عالم دین نے ایران عراق جنگ کے دوران ہی آگاہ کر دیا تھا کہ دشمن ایران کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرے گا اور طالبان حکومت اس کے بعد وجود میں آئی تھی۔ ایران، امریکہ خفیہ تعلقات کا علم تو صرف اوریا کو ہوا، لیکن امریکی سینیٹر ہینک براؤن کی میزبانی میں افغانستان کے نمائندگان کے لئے امریکہ میں کانفرنس ہوئی تو اس میں طالبان کا سرکاری وفد بھی شامل تھا اور یہ بات افغان امریکہ تعلقات سے آگاہ دنیا کے ہر باخبر صحافی کو معلوم ہے۔ امریکی سرپرستی میں طالبان حکومت سے گیس پائپ لائن بچھانے کے لئے یونو کول اور ارجنٹینا کی انرجی کمپنی کے عہدیداران انہیں امریکہ بھی بلاتے رہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے چکر طالبان نے بھی خوب لگائے۔
 
معروف پاکستانی سفارتکار افتخار مرشد کی کتاب افغانستان، دی طالبان ایئرز میں تو ملا عمر کا وہ خط بھی شایع ہوچکا ہے جس میں انہوں نے صدر بل کلنٹن کو خبردار کیا کہ امریکا کے لئے اصل مشکل یا خطرہ ایران ہے نہ کہ طالبان اور ان کے اپنے الفاظ میں انہوں نے تو کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے امریکا ان کے خلاف کوئی کارروائی کرے۔ یہ ستمبر 1998ء کا واقعہ تھا۔ ملا عمر کا نام ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے جبکہ ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کو ایران میں قتل کیا گیا۔ نائن الیون کے بعد بھی جرمنی کی انٹیلی جنس کے ذریعے امریکا سے خفیہ ڈیل افغان طالبان نے کی، اور اب جو پاکستانی داعش یا داعش خراسان شاخ کا سربراہ بنا ہے، وہ بھی گوانٹانامو کی امریکی جیل سے آزاد کردہ افغان طالبان کا فرد ہے، جسے پاکستان نے گرفتار کرلیا تھا، لیکن افغانستان میں پاکستانی سفیر کے اغوا کے بعد ان کی رہائی کے لئے تاوان کے طور پر آزاد کیا گیا تھا!
 
امریکہ سمیت دنیا کی سیاست کے ان نام نہاد 5 بڑے ممالک نے ایران پر ایسا کون سا احسان کر دیا ہے کہ جسے معاشقہ یا پولیس مین کا نام دیا جائے۔ ایران کے اپنے پیسے امریکہ اور یورپ نے روک لئے ہیں۔ انقلاب اسلامی کے بعد ایران کے کم از کم 2 ارب ڈالر امریکا نے منجمد کر دیئے تھے، وہ آج تک ایران کو ادا نہیں کئے گئے۔ ایرانی تیل کی قیمت کی مد میں جو رقم تھی وہ روکی گئی ہے اور اسے قسطوں میں ادا کیا جا رہا ہے۔ معاشقہ اس کو کہتے ہیں کہ نائن الیون سے پہلے جنوبی افغانستان کے طالبان کمانڈروں نے دس ہزار امریکی ڈالرز پر امریکہ کی غلامی قبول کرلی تھی۔ اوریا کو معلوم نہیں کہ ایران کے ساتھ تاحال کوئی مستقل نیوکلیئر معاہدہ نہیں ہوا بلکہ مذاکرات میں اور ایران پر پابندیوں میں مزید 7ماہ کی توسیع ہوئی ہے۔ ایران نے افغانستان اور عراق میں امریکی جنگ کی مخالفت کی تھی۔ اپنی سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو استعمال نہیں کرنے دی تھی۔ حتٰی کہ القاعدہ کے وہ لوگ جو ایران آئے، انہیں بھی امریکہ کے حوالے نہیں کیا تھا بلکہ ان قیدیوں کے اصل ملک کی حکومت کے حوالے کرنے کی پالیسی پر عمل کیا۔
 
کبھی ڈراموں سے حقیقت کی دنیا میں آکر دیکھو، امریکہ نے ایران کے خلاف محاذ کھڑا کیا، تاکہ ایران کو دنیا کے سامنے عبرت کی مثال بنا دے، لیکن ایران نے افغانستان اور عراق میں امریکیوں کے ساتھ جو کیا، اس پر امریکی بلبلا اٹھے۔ امریکی حکومت کہتی ہے کہ ایران نے وہ خطرناک IEDs استعمال کئے کہ فوجی بکتر بند گاڑی اور ٹینک کے اندر بیٹھا امریکی فوجی بھی محفوظ نہیں رہا۔ تمہارے پسندیدہ دہشت گردوں کے ٹھس ہتھیاروں سے نہیں بلکہ بقول امریکیوں کے اس سے چار گنا زیادہ خطرناک ایرانی IEDs کے ذریعے امریکہ کی فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ تم کہتے ہو کہ مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل یا مرگ بر ضد ولایت فقیہ کا نعرہ ختم ہوگیا، ایرانیوں نے اس نعرے کی بنیاد ہلا دی۔؟ تم خیالوں اور خوابوں کی دنیا سے باہر آؤ اور دنیا کی اس ناقابل تردید حقیقت کا سامنا کرو۔ سال 2014ء کا عاشورا 4 نومبر کو تھا اور یہی وہ تاریخی دن تھا جب ایران کے انقلابیوں نے اس خطے میں امریکہ کے جاسوسی کے سب سے بڑے اڈے یعنی امریکی سفارتخانے کی عمارت پر قبضہ کیا تھا۔ تمہیں کیا معلوم کہ مھدی رجب بیگی کا وہ ترانہ مرگ بر کارتر آج بھی زندہ ہے۔ 4 نومبر 1979ء کا وہ منظر تازہ کرنے کے لئے ایران کے انقلابی عزادار یہیں جمع تھے۔ حجت الاسلام علی رضا پناہیان کہہ رہے تھے کہ امریکہ اس دور کا یزید ہے۔
 
اے ڈرامے باز، تمہیں کیا معلوم کہ سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے سلمان فارسی (رض) کو خاندان نبوت میں قرار دیا اور اپنے عرب اصحاب کی موجودگی میں کہا کہ ایمان اگر اوج ثریا پر بھی ہوا تو اسے زمین پر اتار لائے گی ایک قوم۔ صحابہ کرام نے سوال کیا کہ کونسی قوم، سامنے سے حضرت سلمان (رض) آرہے تھے، کہا کہ اس کی قوم۔ تم عرب عجم کا قصہ چھیڑ کر کسے ڈراتے ہو، عجمی ہوکر بھی ایران کا سلمان (رض) اہل بیت نبوت میں سے ہے۔ تم آل سعود کے جبہ کو چومنے والے نامراد طالبان کے عاشق ہو، تمہیں کیا معلوم کہ ایمان کو اوج ثریا سے اتار کر لانے والی ملت شریف ایران کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔!
 
تم ڈاکٹر علی شریعتی کی سرخ شیعت کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ جاؤ جاکر پڑھو شریعتی نے حر (رض) کے بارے میں کیا لکھا۔ تم خبیث الطرفین صدام کو حر لکھنے والے جاہل، تمہیں کیا معلوم کہ حر کیا ہے۔ حر شب عاشور کو شب قدر میں تبدیل کرنے والے ہنر ساز کا نام ہے۔ تم حر جیسے حسینی کو ہی نہیں سمجھ سکے تو پوری زندگی حر سے زیادہ حریت پسند علی حسینی خامنہ ای کو کیا سمجھوگے کہ جس کی زندگی کا ہر لمحہ شب قدر سے زیادہ افضل ہے۔ عالمی صف بندی میں کون کس کے ساتھ کھڑا ہے، سب کو نظر آ رہا ہے ۔تم اپنی سناؤ، تم کس کے ساتھ کھڑے ہو؟
(عراق کے بارے میں اوریا کے ڈراموں پر ہمارا جواب وزنامہ ایکسپریس میں پہلے ہی شایع ہوچکا ہے: http://www.express.pk/story/283336/)
خبر کا کوڈ : 423331
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

وسیم
Pakistan
عرفان بھائی جی چاہتا ہے کہ آپ کے ہاتھوں کا بوسا لوں، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں آپ کے لئے کہ کچھ کہوں۔ اللہ رب العزت آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ طویل حیات عطا فرمائے۔ آپ کے کالم ہدایت کا چراغ اور علم و حقائق کا خزانہ ہیں۔۔۔! آج تک کسی صحافی سے ملاقات کو جی نہیں چاہا بلکہ اس بارے سوچا تک نہیں۔ مگر آپ سے ملنے کو شدید بے تاب ہوں۔ اللہ پاک آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔۔۔ بہت بہت شکریہ۔۔۔!
وسیم
عرفان
Pakistan
اس گناہگار حقیر پر تقصیر کے حق میں آپ کی یہ دعائیں ہی ہیں جو اب تک جی رہا ہوں۔ مکتب شہید مطہری میں ہم جیسے گناہگاروں کو تعلیم دی گئی ہے کہ خود اتنے نیک بن جائو کہ اپنے ہاتھوں کا بوسہ لو۔ لہذا حسن ظن رکھتا ہوں کہ آپ یقیناً اتنے نیک ہوں گے کہ آپ کو اس گناہگار کے ہاتھ کے بجائے اپنے ہاتھ کا بوسہ لینا چاہیے۔ محتاج دعا۔ عرفان
قمر
Pakistan
جزاک اللہ خیراً کثیراً یا عرفان۔

بہت خوب کوشش ہے دم کو سیدھا کرنے کی لیکن ۔۔۔۔۔۔
ہماری پیشکش