2
0
Saturday 6 Dec 2014 19:43

سوئے حسین (ع)

سوئے حسین (ع)
تحریر: سید اسد عباس تقوی

لاکھوں وہ ہیں جو نجف سے کربلا، بغداد سے کربلا، بصرہ سے کربلا، ایران سے کربلا، بحرین سے کربلا، لبنان سے کربلا، شام سے کربلا، پاکستان سے کربلا، افغانستان سے کربلا، آذربائیجان سے کربلا، یورپ سے کربلا، افریقا سے کربلا، آسٹریلیا سے کربلا، امریکا سے کربلا کی جانب گامزن ہیں اور کروڑوں وہ ہیں جو اس سفر کی آرزو دل میں بسائے غم زدہ ہیں۔ میری نظر میں یہ سفر درحقیقت سوئے کربلا نہیں بلکہ سوئے حسین (ع) سفر ہے۔ وہ لوگ جو یہ سفر کر رہے ہیں ان پر رشک آتا ہے۔ میرے کئی دوست گذشتہ چند دنوں میں مجھے خدا حافظ کہہ کر اس سفر پر روانہ ہوئے ہیں۔ ہر دوست کی روانگی نے دل کو تڑپا دیا، رشک ہوا ان افراد کے نصیب پر کہ نواسہ رسول (ص) نے ان احباب کو اپنی زیارت کے لئے بلایا ہے۔ یہ سفر زیارت جو خصوصی طور پر اربعین حسینی کے موقع پر کیا جاتا ہے، صدیوں سے جاری ہے اور اب تو ایک باقاعدہ ثقافت کا رنگ اختیار کرچکا ہے۔ ہزاروں میل کا سفر طے کرکے سرزمین عراق پر پہنچنے والے زائرین کربلا کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نجف سے کربلا تک کا سفر جو تقریباً اسی کلومیٹر ہے، پیدل طے کریں۔ جی ہاں پاکستان، لبنان، بحرین، افغانستان، شام، امریکا، یورپ، افریقا اور آسٹریلیا سے آنے والے بہت سے زائرین نجف سے کربلا پیدل چل کر جاتے ہیں۔
 
اسی کلو میٹر پیدل سفر کوئی عام بات نہیں ہے، ہم میں سے بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے ایک ہی دن میں تیس سے چالیس کلو میٹر کا سفر پیدل کیا ہو۔ اس سفر کے لئے گھنٹوں درکار ہیں، ایک دو مرتبہ مجھے تقریباً تیس کلو میٹر پیدل چلنے کا اتفاق ہوا ہے۔ یہ سفر میں نے گرمی اور سردی دونوں موسموں میں کئے۔ گرمی میں اس سفر نے تو مجھے تقریباً ادھ موا کر دیا، تاہم سردی میں یہ سفر اتنا شدید نہ تھا، بہرحال آسان بھی نہ تھا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیسے مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے ایک سو بیس کلومیٹر پیدل چلتے ہوں گے۔ عراق میں تو روایت ہے کہ ہر سال اکثر عراقی اربعین کے موقع پر پیدل چل کر کربلا جاتے ہیں۔ گرمی، سردی، دھماکے، دہشت گردی کچھ بھی اس سفر کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔ اتنے لوگ پیدل کربلا کیوں جاتے ہیں اور کروڑوں یہ آرزو دل میں کیوں بسائے ہوئے ہیں؟ کیا عراق اور وہاں موجود عتبات دیکھنے کا شوق انھیں کربلا لے جاتا ہے؟ کیا فقط ثواب؟ کیا جنت کا لالچ۔؟
 
ہر انسان کے پاس اس سفر کی اپنی وجہ ہوسکتی ہے، میری نظر میں اس سفر کا بنیادی سبب خود حسین علیہ السلام ہیں۔ قارئین کرام! بعض قلبی کیفیات کو بیان کرنا قلم کے بس میں نہیں ہوتا۔ ان کیفیات کو بیان کرنے کے لئے ہمیں مثالوں کا سہارا لینا پڑتا ہے، تاکہ ذہن کو اس قلبی واردات سے قریب تر کیا جاسکے، جس سے انسان گزر رہا ہوتا ہے۔ محبت اور عشق انسان کا خاصہ ہے اور نہایت فطری ہے۔ خدا نے انسان کو کمال کا شیدا پیدا کیا ہے۔ وہ جس شے میں بھی کمال دیکھتا ہے، اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ خوبصورت پھول دیکھا تو اس کی جانب لپک گیا، خوبصورت منظر دیکھا تو گھنٹوں اس میں محو رہا، خوبصورت بات سنی تو ہمہ تن گوش ہوگیا۔ حسن و کمال اسے اپنی جانب کھینچتا ہے۔ بعض اوقات یہ کشش اس قدر شدید ہو جاتی ہے کہ انسان اپنا وجود بھلا بیٹھتا ہے، اسے اپنے مطلوب جو حسن حقیقی کا مظہر بن کر اس کے قلب و ذہن میں جلوہ گر ہوچکا ہے، کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ بس اس کو پانے یا اس کا ہو جانے کی دھن۔ 

جب عشق سر چڑھ کر بولنے لگے تو پھر کمال کا یہ شیدائی اہل خرد کو اجنبی سا لگنے لگتا ہے۔ اس کے کام، اس کی حرکات سب عجیب سی لگتی ہیں۔ بھلا پیدل جانے کی کیا ضرورت ہے، جب گاڑیاں اور دیگر سفری سہولیات دستیاب ہیں۔ اربعین پر ہی کیوں، سال میں کسی ایسے وقت جاؤ جب وہاں رش نہ ہو۔ اگر جانا ہی ہے تو بچوں اور خواتین کو کیوں لے جاتے ہو؟ سیاہ لباس کیوں پہنتے ہو؟ دیوانوں سی حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ طرح طرح کے سوالات، طرح طرح کی باتیں۔ بابا تم حسین (ع) کو کیا سمجھتے ہو؟ کیا تم نے کبھی حسین (ع) کو حسن حقیقی کی جلوہ گاہ کے طور پر دیکھا ہے؟ حسین (ع) فقط ایک مذہبی راہنما یا سیاسی لیڈر ہوتا تو قطعاً وہ نہ کرتا جو اس نے کربلا میں کیا۔
 
حسین (ع) نے کمال ازلی اور حسن حقیقی کا نظارہ اپنے نانا کی گود میں بیٹھ کر کیا۔ وہ نانا جو اس کمال ازلی کا شاہد اور نمائندہ تھا۔ حسین (ع) بچپن سے ہی عاشق حسن حقیقی تھا۔ اپنے محبوب کی رضا کے لئے حسین (ع) نے اپنا سب کچھ، اپنی کل متاع قربان کر دی، تاکہ اس کا محبوب اس سے راضی ہو جائے اور حسین (ع) کے ساتھی اس سفر میں پورے شعور کے ساتھ ان کے ہمراہ تھے۔ حسین (ع) اور ان کے ساتھی محبوب حقیقی کی رضا کے لئے عشق حقیقی کے رنگ میں یوں رنگے گئے کہ اب جب کوئی حسین (ع) سے محبت کرتا ہے تو وہ درحقیقت حسین (ع) سے نہیں بلکہ حسن حقیقی سے محبت کر رہا ہے۔ جی ہاں، حسین (ع) مکتب عشق کا سرخیل ہے۔ حسین (ع) آئینہ حق ہے۔ حسین (ع) کی جانب سفر کسی انسان کی جانب سفر نہیں بلکہ اس کی جانب سفر ہے، جس کے لئے حسین (ع) نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
 
یہ سفر حسین (ع) نہیں بلکہ حسن ازلی کی جانب ہے، کمال کی جانب ہے۔ دوسرے سفروں اور اس سفر میں فرق یہ ہے کہ یہ شوق کا سفر ہے، اس میں ثواب کا لالچ یا عذاب کا خوف نہیں بلکہ عشق ہے۔ جنون ہے۔ تبھی تو دھماکے، دہشت گردی، سفری صعوبتیں معنی نہیں رکھتیں۔ یہ احساس ہر وقت انسان کو سرگرم رکھتا ہے کہ میری منزل حسین (ع) کا وصال یعنی حسن ازلی کا وصال ہے۔ اے اللہ! ہم سب کو اپنے محبوب بندے حسین (ع) کا عشق عنایت فرما۔ ہمیں سوئے حسین (ع) سفر کی توفیق عنایت فرما اور ہمیں ان کا وصال نصیب فرما۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 423823
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بہت خوبصورت، خدا آپکو بھی یہ توفیق نصیب فرمائے۔ میثم ہمدانی
سید اسد عباس
شکریہ برادر
ہماری پیشکش