0
Tuesday 27 Jan 2015 00:15

سعودی عرب، شاہ عبداللہ کے بعد

سعودی عرب، شاہ عبداللہ کے بعد
تحریر: سعداللہ زارعی

91 سالہ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی وفات اور 79 سالہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے سعودی عرب کے ساتویں فرمانروا کے طور پر مقرر ہونے اور 70 سالہ مقرن بن عبدالعزیز کا ولیعہد مقرر کئے جانے نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا سعودی عرب کی وسیع سرزمین پر حکومت کو جاری رکھنے کیلئے آل سعود کے پاس عبدالعزیز کے بیٹوں کے باری باری فرمانروا بنائے جانے پر مبنی سعودی عرب کے بانی کی وصیت کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں تھا؟ کیا نیا سعودی بادشاہ، جو واشنگٹن پوسٹ کے بقول الزائمر سمیت کئی بیماریوں میں مبتلا ہے، کچھ روز کیلئے ہی سہی ملکی امور کو حقیقی طور پر چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ سعودی عرب کے سیاسی حالات کو جاننے کیلئے مندرجہ ذیل نکات پر توجہ ضروری ہے:
 
1۔ شاہ عبدالعزیز، جس نے 29 سال تک نجد اور اس کے بعد وہابیوں اور عتیبہ قبیلے کی مدد سے "سعودی عرب" کی بنیاد ڈال کر 22 سال تک اس پر حکومت کی، اسکی وصیت کے مطابق جب تک اس کے بیٹوں میں سے کوئی زندہ ہوگا، اس وقت تک حکومت اس کے کسی نواسے یا خاندان کے کسی اور شخص تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس بنیاد پر 1946ء میں شاہ عبدالعزیز کی جانب سے اقتدار سے علیحدگی اختیار کرنے اور 1953ء میں اس کی وفات کے بعد بالترتیب شاہ سعود 16 سال، شاہ فیصل 11 سال، شاہ خالد 7 سال، شاہ فہد 23 سال اور شاہ عبداللہ 10 سال تک سعودی عرب کی سرزمین کے فرمانروا رہے۔ اس کے علاوہ، اس مدت میں شاہ عبدالعزیز کے بیٹے اہم وزارتی اور غیر وزارتی عہدوں اور اعلٰی سطحی سیاسی، سکیورٹی، معاشی اور ثقافتی مناصب پر بھی فائز رہے ہیں۔ بعض محققین کے بقول آل سعود خاندان کے 7 ہزار شہزادے ملک کے بڑے اور چھوٹے مناصب کو اپنے قبضے میں لئے ہوئے ہیں۔ البتہ دوسرے شہزادوں کی نسبت شاہ عبدالعزیز کے بلاواسطہ فرزندوں کی زیادہ تعداد ملک کے اہم اور بڑے عہدوں پر فائز ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب مدیریتی اعتبار سے دنیا کا منفرد ترین ملک شمار کیا جاسکتا ہے۔ 
 
2۔ سعودی عرب میں حاکم سیاسی نظام قبائلی نظام سے ملتا جلتا ہے۔ قبائل کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان میں انتہائی منظم اجتماعی نظام پایا جاتا ہے، جس کی مدیریت ایک شخص یعنی قبیلے کے سربراہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ قبیلہ پر ایسے قوانین حکمفرما ہوتے ہیں جن کا منشاء قبیلے کے سربراہ کے جاری کردہ احکام اور اس کی ذاتی مصلحت اندیشی ہوتی ہے۔ سرزمین کی حدود بھی اس طرح مشخص ہوتی ہیں کہ ایک قبیلہ خاص رقبے کو اپنے ساتھ مخصوص کر لیتا ہے اور عام طور پر ایک قبیلہ کسی دوسرے قبیلے کی حدود میں داخل نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک قبیلہ دوسرے قبائل کو اپنی حدود میں بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ آل سعود خود "عنزہ" قبیلے کی شاخ "مصالیخ" سے وابستہ ہونے کے علاوہ فکری اور عملی اعتبار سے بہت حد تک ایک قبیلے کی مانند ہے۔ شاہ عبدالعزیز کی وصیت نے عملی طور پر سعودی عرب کو ایک صحرائی معاشرے میں تبدیل کر دیا ہے اور اسے علاقائی اور بین الاقوامی فضا سے جدا کر ڈالا ہے۔ 
 
ساتھ ہی اس نکتے کو بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ شاہ عبدالعزیز کی حکومت 1902ء سے لے کر 1931ء تک صرف "نجد" کے خطے تک محدود رہی، جس میں آج کے دور کے تین صوبے ریاض، قصیم اور وائل شامل تھے اور یہ سعودی عرب کا تنہا خطہ ہے جہاں جنبلی مسلک سے تعلق رکھنے والے سنی مسلمان بسے ہوئے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز نے اس دوران وہابیوں اور بڑے قبیلے "عتیبہ" کے سربراہان، جن کا اثر و رسوخ عراق میں بصرہ سے لے کر سعودی عرب کے مغرب میں واقع حجاز تک پھیلا ہوا تھا، انکی مدد سے اپنی حکومت کا دائرہ جزیرہ نما خطے کے جنوبی، شیعہ اکثریت والے مشرقی، شافعی اور مالکی اکثریت والے مغربی اور حنفی اکثریت والے شمالی حصوں تک پھیلا دیا اور اس کے بعد نئی سرزمین کا نام "سعودی عرب" رکھ دیا۔ شاہ عبدالعزیز نے نئی حکومت کی بنیاد رکھنے کے بعد مخالف اور رقیب قبیلوں کا صفایا اور قتل عام کرنا شروع کر دیا اور حتی اپنے حامی قبیلے عتیبہ کے سربراہ کو زندان میں ہی قتل کروا ڈالا۔ لہذا سعودی حکومت نے ایک طرف تو قبائلی طرز حکومت اختیار کیا، لیکن دوسری طرف خود رقیب قبیلوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا اور ہمیشہ دوسرے قبیلوں کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی۔ سعودی عرب کے بعض معروف سیاسی تجزیہ نگار جیسے شروک الفاتح کا عقیدہ ہے کہ مختلف قبائل کی تجدید حیات اور اظہار وجود ملک کی آئندہ سیاسی صورتحال اور تبدیلیوں میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔  
 
3۔ سلمان بن عبدالعزیز ایک ایسے وقت اقتدار سنبھال رہے ہیں جب وہ گذشتہ تین سال کی ولیعہدی کے دوران شدید بیماری کی وجہ سے بہت کم لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتے تھے اور ملکی امور زیادہ تر بندر بن سلطان، مقرن بن عبدالعزیز اور متعب بن عبداللہ پر مشتمل مثلث کے ہاتھوں انجام پاتے تھے۔ لہذا سلمان بن عبدالعزیز کی فرمانروائی کا اعلان درحقیقت آل سعود کی اندرونی صورتحال پر پردہ ڈالنے کی خاطر ہے۔ سلمان بن عبدالعزیز صرف شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں کی علامت کے طور پر حکمران بنائے گئے ہیں، کیونکہ وہ گذشتہ کئی عشروں سے حکومتی امور میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر رہے، لہذا ان کی شخصیت متنازعہ نہیں ہے اور اسی وجہ سے شاہ عبداللہ نے بھی انہیں اپنے ولیعہد کے طور پر انتخاب کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا دور حکومت آل سعود کیلئے اپنے اندرونی مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کیلئے ایک مہلت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 
 
ایک رپورٹ کے مطابق ایک امریکی ٹیم گذشتہ تین ماہ سے سعودی عرب کے حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور اس نے واشنگٹن کو چند ایسی رپورٹس ارسال کی ہیں جس نے امریکی حکام کو شدید پریشان کر ڈالا ہے۔ یہ ٹیم اب تک سعودی عرب میں موجود ہے اور سعودی شہزادوں کے درمیان موجود اختلافات کو رفع دفع کرنے کی انتھک کوششوں میں مصروف ہے۔ امریکی حکام ماضی میں بھی سلطان بن عبدالعزیز کے پانچ سالہ ولیعہدی کے زمانے میں اس پریشانی کا اظہار کرچکے تھے کہ اگر سلطان بن عبدالعزیز فرمانروا بن جاتے ہیں تو ان کی گرم مزاجی اور غصے والی طبیعت کے سبب آل سعود حکومت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ان کے بیٹے بندر بن سلطان پر شاہ عبداللہ کے خلاف بغاوت کا الزام لگ چکا ہے۔ 
 
اس ضمن میں جو نکتہ ابہام کا شکار ہے وہ متعب بن عبداللہ کی برکناری ہے۔ گذشتہ تین سالوں کے دوران خاص طور پر سلطان بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد متعب بن عبداللہ کی طاقت میں خاطرخواہ اضافہ ہوچکا تھا۔ وہ نیشنل گارڈ کی وزارت جیسے اہم عہدے پر فائز ہونے کے ناطے خارجہ پالیسی کے انتہائی اہم موضوعات جیسے عراق، شام، لبنان اور مصر کے مسائل کی مدیریت اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔ اسی طرح شاہ عبداللہ انہیں اہم میٹنگز میں شرکت کیلئے بھیجا کرتے تھے۔ متعب بن عبداللہ کو ان کے والد شاہ عبداللہ کی وفات کے دن ہی اس عہدے سے برکنار کر دیا گیا۔ اسی طرح محمد بن نائف کو ولیعہد کا جانشین بنائے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ متعب بن عبداللہ کو اقتدار کے دائرے سے خارج کر دیا گیا ہے اور یہ امر مستقبل میں آل سعود کے اندر انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔ سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز کی بیماری اور مقرن بن عبدالعزیز کے شاہ عبداللہ کے بیٹوں سے اختلافات سعودی عرب میں نئے سیاسی حالات کی پیدائش کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہاں اس نکتے کی جانب توجہ بھی ضروری ہے کہ سعودی وہابیوں کے اندر "سروری" نامی ایک ایسا فرقہ بھی پایا جاتا ہے جو مقرن بن عبدالعزیز کا شدید مخالف ہے۔ 
 
4۔ سعودی عرب امریکہ کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ گذشتہ 7 عشروں سے سعودی عرب پر امریکی تسلط، دنیا پر اس کے اثر و رسوخ اور طاقت کا بنیادی رکن قرار پایا ہے۔ یہ اہمیت اس حد تک جا پہنچی ہے کہ امریکہ کے سیاسی نظام میں سعودی عرب کو 52 ویں ریاست کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ ریاض، امریکہ کیلئے ایک انتہائی نفع بخش اقتصادی، سیاسی، جیوپولیٹیکل، مذہبی اور سکیورٹی اتحادی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ اتحاد خاص طور پر عالم اسلام میں امریکہ مخالف قوتوں کو کنٹرول کرنے میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار کا حامل رہا ہے۔ سعودی عرب نے گذشتہ چند عشروں کے دوران امریکہ اور یورپ کے حق میں منفرد کردار ادا کیا ہے، لیکن ان تمام حقائق کے باوجود امریکی حکام آل سعود کو ایک آلہ کار کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کیلئے کسی خود مختار حیثیت کے قائل نہیں۔ امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے 20 سال قبل سعودی عرب کے بارے میں کہا تھا: "آل سعود سعودی عرب کے مالک نہیں بلکہ اس ملک میں ہمارے خزانہ دار ہیں۔ وہ ہماری خدمت کرنے کے بدلے ہمارا خزانہ دار ہونے کے حق سے برخوردار ہوتے ہیں۔" 
 
لیکن اس کے باوجود کوئی یہ خیال نہ کرے کہ سعودی عرب میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیاں مکمل طور پر امریکہ کے کنٹرول میں ہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں ایسے تعلقات امریکہ اور ایران میں بھی پائے جاتے تھے اور مختلف وجوہات کی بنا پر ایران میں محمد رضا شاہ پہلوی کے تاج و تخت کی حفاظت امریکہ کیلئے سعودی سلطنت کی حفاظت سے کہیں زیادہ اہم تھی۔ البتہ جہاں تک آل سعود کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا تعلق ہے تو وہ کافی حد تک امریکہ کے زیر کنٹرول ہیں اور امریکی منصوبہ بندی سے خارج نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر سابق سعودی فرمانروا کی موت کے اعلان کا وقت تعین کرنے، نئے فرمانروا کو برسراقتدار لانے، نئے ولیعہد کے اعلان اور شاہی دربار سمیت اہم اور حساس عہدوں سے متعلق رونما ہونے والی تبدیلیوں میں امریکہ کا کردار انتہائی بنیادی رہا ہے۔ لہذا جس طرح آل سعود اب تک ایک ایسے منصوبے کے تحت سرگرم عمل رہی ہے جو سعودی عرب کے باہر سے بن کر آیا تھا، اسی طرح مستقبل میں بھی اسی منصوبے کے تحت سرگرم عمل رہے گی۔ یہ بات بھی دور از امکان نہیں کہ شاہ عبداللہ، جو شاہ عبدالعزیز کے بعد مقتدر ترین سعودی بادشاہ تھے اور ان کی وفات کے بعد آل سعود کے اندر طاقت کا خلاء پیدا ہوچکا ہے، ملک کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ 
 
موجودہ قرائن و شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کے جزئی ترین امور میں مداخلت اور فرمانروا اور شہزادوں کو براہ راست احکامات صادر کرنے کے باوجود ملک کی موجودہ صورتحال سے راضی نہیں۔ اس کی علامات امریکہ کے اہم حکام اور اداروں کی جانب سے سعودی عرب کے بارے میں ظاہر ہونے والے موقف کے درمیان تناقضات اور تضادات کی صورت میں قابل مشاہدہ ہیں۔ ایسے وقت جب امریکی حکومت سلمان بن عبدالعزیز کی فرمانروائی اور مقرن بن عبدالعزیز کی ولیعہدی پر اپنے اطمینان کا اظہار کر رہی تھی، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ چونکہ نئے سعودی فرمانروا الزائمر سمیت کئی بیماریوں کا شکار ہیں، لہذا سعودی شہزادوں کا ایک گروپ اپنے غیر ملکی مشاورین کی مدد سے ملکی امور کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں اور ملک کے حالات اور واقعات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ 
 
5۔ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی موت یمن میں اہم سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ قرین ہوگئی ہے۔ یمن، جس کی آبادی کا نصف حصہ زیدی شیعوں پر مشتمل ہے اور اس کا دو تہائی سے زیادہ حصہ سعودی مخالف جنوبی گروہ کے زیر کنٹرول ہے، خطے میں سعودی عرب کی پوزیشن میں اہم کردار کا حامل ہے۔ شاہ عبداللہ کی موت کے رسمی اعلان سے صرف ایک دن پہلے، یمن کے سعودی نواز صدر استعفٰی دینے پر مجبور ہوگئے اور انصاراللہ کی طاقتور تحریک نے ملکی پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جس کے تحت یہ مشورہ دیا گیا کہ ملکی امور چلانے کیلئے ایک صدارتی کونسل تشکیل دے دی جائے۔ یمن کے حالات پر نظر رکھنے والے افراد اس بات کی تائید کریں گے کہ سعودی مخالف گروہوں نے گذشتہ تین سے چار سالہ تحریک کے دوران ریاض نواز حکومت کو سرنگون کر دیا ہے۔

اگر یمن سعودی عرب کے زیر اثر ممالک کے دائرے سے خارج ہوجاتا ہے تو سعودی عرب کی جیوپولیٹیکل پوزیشن پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں سعودی کردار کو صفر کے نزدیک پہنچا دیا تھا اور اب یمن میں سعودی نواز حکومت کے مقابلے میں انصاراللہ اور جنوبی حراک کی کامیابیوں نے بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں سعودی اثر و رسوخ کو شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ جبکہ مغربی دنیا کیلئے سعودی عرب کی اہمیت کی بڑی وجہ اس کی جیوپولیٹیکل پوزیشن سمجھی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے شمال میں شیعہ اثنی عشری قوتوں کی کامیابی اور اس کے جنوبی حصوں میں زیدی شیعہ گروہوں کے زور پکڑنے کی وجہ سے سعودی عرب کا سیاسی مستقبل خطرے کا شکار ہوگیا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 435235
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش