0
Wednesday 28 Jan 2015 03:11

اسلحہ بردار اساتذہ، ناکامی کا اعتراف

اسلحہ بردار اساتذہ، ناکامی کا اعتراف
تحریر: عمران خان

مقتدر قوتوں کے فیصلے اور ان پر ہونے والا عملدرآمد اس امر کا عکاس ہے کہ ہم نے ماضی سے یہی سیکھا ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ قوم کی یاداشت اتنی بھی کمزور نہیں کہ وہ امریکی جنگ میں پاکستانی عوام کو جھونکنے کی ضیاء پالیسی کو بھول گئی ہو۔ اس پالیسی میں بنیادی خرابی کیا تھی۔؟ یہی کہ ملائیت کو استعمال کرکے دینی مدارس کے طلباء کو جہاد کے نام پر امریکی جنگ کا ایندھن بنایا گیا۔ غیر ریاستی عناصر کو ریاست نے مسلح کیا۔ امریکی مفادات تو حاصل ہوگئے، مگر آج بھی ملک ’’مرد آہن‘‘ کی آتش و آہن پالیسی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ وطن عزیز کے لاکھوں خانوادے متاثر ہیں، مگر دور دور تک اس پالیسی سے گلو خلاصی کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی۔ حکومت اور ادارے اگر پالیسی شفٹ کی جانب جانا بھی چاہیں تو بھی اسلام آباد میں موجود مقبرے کی باقیات راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ مدارس کی چھان بین، نصاب اور طالب علموں کی جنگی ٹریننگ، دہشتگردی میں ملوث ہونے کے شواہد ملنے کے باوجود بھی ریاستی ادارے عملی اقدام اٹھانے پر شش و پنج میں مبتلا ہیں۔ جس سرکاری لال مسجد کا مولانا واضح طور پر دہشتگردوں کی حمایت کرتا ہے، اسی لال مسجد میں جنرل ضیاء نے افغان جہاد کی سرکاری سرپرستی قبول کی تھی، اور اب دیگر کئی دہشتگردوں کی طرح ٹیکسلا میں ہلاک ہونے والے خودکش حملہ آور کا تعلق بھی لال مسجد سے ثابت ہوا ہے، مگر اس کے باوجود کارروائی کرنے میں حکومت اور ادارے ہچکچاہٹ محسوس کرر رہے ہیں۔

 سرکاری ادارے اگر دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ کریں بھی تو دوسری جانب ’’افغان جہاد‘‘ کی گنگا میں ہاتھ دھونے والے دینی سورما مقابلے پر کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ کوئی بالواسطہ طور پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتا ہے، تو کوئی ملک کو قلعہ اور مدرسوں کو فصیلوں سے تشبیہ دیتا نظر آتا ہے۔ کوئی دو دو ایس ایم جی اٹھانے والے گیس ماسک چڑھائے جوانوں کو معصوم دینی طالب علم بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے، تو کوئی پاکستان بنانے میں علماء کی خدمات کا نقارہ بجاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جن علماء نے قیام پاکستان کی عملی جدوجہد میں حصہ لیا، ان کا نام تو تاریخ پاکستان کی کتب سے بھی غائب ہے، اور جنہوں نے قائداعظم کی شخصیت پر فتوے جاری کئے، قیام پاکستان کی مخالفت کی، مدارس کے نام پر ان کے بچوں کے شاندار قلعے معروف قومی شاہراؤں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ پشاور سے لیکر کوئٹہ تک سرکاری زمین پر تجارتی پلازوں کے ملکیت انہی کے پاس ہے، مگر اس کے باوجود نفاذ اسلام کی جدوجہد کا اعلان آج بھی اسی کروفر سے کرتے ہیں، جتنی حکمت سے ان کے اجداد کرتے تھے۔ 

بات کہاں سے کہاں تک نکل گئی، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ غیر ریاستی عناصر سے ریاست فی الوقتی مفاد تو حاصل کرسکتی ہے، مگر دیرپا اثرات یقیناً منفی ہی برآمد ہونگے۔ مثال کے طور پر کسی کوچوان کو اڑتے طیارے کی پائلٹ سیٹ پر بٹھا دیا جائے اور طیارے کو آٹومیٹک آپشن پر لگا کر کچھ دیر کیلئے طیارہ کوچوان کے حوالے کر دیا جائے، تو شائد وقتی طور پر تو اس کا کوئی منفی نتیجہ برآمد نہ ہو، مگر کوچوان کے ذہن میں پڑنے والا یہ خبط کہ وہ طیارہ اڑا سکتا ہے، ہمیشہ ایک خطرہ بنا رہے گا۔ امریکن آپشن پر لگے جہاد افغانستان کے طیارے کی پائلٹ سیٹ پر جن افراد کو بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا، وہ نہ ہی سیٹ چھوڑنے پر تیار ہیں اور نہ ہی یہ ماننے پر کہ ان کا حقیقی کسب یا ہنر طیارہ اڑانا نہیں بلکہ مکتب میں تدریس تک محدود رہنا ہے۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ ماضی کی غلطیوں اور ان کے سنگین نتائج سے سبق حاصل کرتے ہوئے افراد کو مسلح کرنے کی روش سے اجتناب کیا جاتا، مگر معاملات اس کے برعکس ہیں۔ واہ رے کہ قسمت کہ پاکستان کا جو صوبہ اب تک عسکریت پسندی کا سب سے زیادہ شکار ہوکر دہشتگردی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کا میدان جنگ بنا رہا، اسی صوبے کی حکومت نے عوام کو مسلح کرنے کا نیا پروگرام ترتیب دیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ فیصلہ تحریک انصاف کی اس صوبائی حکومت نے لیا ہے، کہ جس نے پشاور کو پیرس بنانے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔

اساتذہ کو معاشرے میں جہاں فیوچر میکر سمجھا جاتا ہے، وہاں امن پسندی کی علامت بھی گردانا جاتا ہے۔ صوبے کے اکثر چھوٹے بڑے دیہاتوں میں آج بھی پرانے ماسٹرجی کی رائے کو محترم سمجھا جاتا ہے۔ آرمی پبلک سکول پر حملہ دہشتگردوں کا عوامی مراکز پر کوئی پہلا حملہ نہیں تھا، اور حالات و واقعات کا جو تسلسل قائم ہے، صوبے میں یہ آخری حملہ بھی نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس میں بھی کوئی اختلاف رائے موجود نہیں کہ دہشتگردی کا سب سے زیادہ شکار عوام ہوئے ہیں، مگر اس دہشتگردی کو ختم کرنے کیلئے اساتذہ کو مسلح کرنے، انہیں مسلح تربیت دینے کی پالیسی اپنے اندر کئی ابہام اور خطرناک اثرات سے پر ہے۔ اسلحہ بردار اساتذہ سے طالب علم پڑھیں گے کیا، اور سیکھیں گے کیا۔؟ دنیا کے کئی ممالک نے دہشتگردی کا سامنا کیا۔ کیا ان ممالک نے اپنے شہریوں کو اسلحہ سے لیس کر دیا،؟ جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ خیبر پختونخوا حکومت کا اساتذہ کو اسلحہ اور ٹریننگ دینے کا فیصلہ اسی جلوس کی مانند ہے جو جلوسوں کی مخالفت میں نکالا گیا تھا۔ پاکستان دہشتگردی کے جس عفریت سے آج نبرد آزما ہے، اس کی بنیادی وجہ ہی غیر ریاستی، غیر ذمہ دار عناصر کو مسلح کرنا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اساتذہ، سکول اسٹاف غیر ریاستی، غیر سرکاری یا غیر ذمہ دار نہیں ہیں تو بھی اسلحہ سے لیس ہوکر دفاعی یا جارحانہ جنگ لڑنا نہ ہی ان کے فرائض میں شامل ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ 

کیا صوبے میں دہشتگردی اور فائرنگ کا واقعہ صرف سکول میں پیش آیا۔ جنازوں پر حملے ہوئے، ہسپتالوں میں ہوئے، ہنگو، پشاور، کوہاٹ، ڈی آئی خان عرصہ دراز سے ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہیں۔ تو اس صوبائی حکومت کے پاس اس کا یہی حل ہے کہ عوام کے ہاتھوں میں اسلحہ تھما دو، اس دلیل اور اجازت کے ساتھ کہ تم سامنے والے کو مار دو، اس سے قبل کہ وہ تمہیں مار ڈالے۔ کیا صوبائی حکومت ہم سب کو مسلح کرنے کی پالیسی اپنانا چاہتی ہے۔؟ جو اساتذہ ابتک چھوٹی سی چھڑی سے بچوں کی سرزنش کرتے تھے، وہ اب چھڑی کیساتھ کلاشنکوف یا پسٹل کے ساتھ کلاس میں حاضر ہونگے۔ جس ٹیچر سے بچے فیض حاصل کرتے ہیں اور اسے اپنے لئے ایک نمونہ خیال کرتے ہیں، کیا ان کے دلوں میں زمانہ طالبعلمی میں ہی اپنے اساتذہ کی طرح مسلح ہونے کی خواہش پیدا نہیں ہوگی۔ جن سرکاری و پرائیویٹ اسکولز کی ٹیچرز کو کے پی کے حکومت اسلحہ کی تربیت دے رہی ہے، کیا ضمانت ہے کہ مستقبل میں حکومتی پالیسی سے اختلاف کی بنیاد پر اس تربیت اور اسلحہ کو بروئے کار نہیں لائیں گے۔ اسکولز میں ہونے والے ایسے واقعات بھی ماضی کا حصہ ہیں کہ جس میں ٹیچر نے عالم طیش میں طالب علم پر اتنا تشدد کیا کہ وہ کئی دن ہسپتال میں رہا۔ کیا ضمانت ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس کہ ٹیچرز غصے و غضب کی حالت میں اسلحہ کے استعمال کی جانب نہیں جائیں گے۔

اس کے علاوہ ریاست جب کسی عام شہری کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دیتی ہے، تو اس میں اسلحہ کو چلانے کی تربیت شامل نہیں ہوتی اور نہ ہی چلانے کی اجازت شامل ہوتی ہے۔ یعنی اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے، جبکہ اسلحہ کو چلانے کا اختیار صرف ریاست کے ان اداروں کے اہلکاروں کے پاس ہوتا ہے جن کو ریاست تربیت بھی فراہم کرتی ہے۔ صوبائی حکومت نے اساتذہ کو اسلحہ اور تربیت دونوں کا اہتمام کیا ہے۔ یعنی اجازت بھی اور اختیار بھی۔ جو ایک لحاظ سے سکیورٹی اور نظم و نسق سنبھالنے والے اداروں سے بھی بڑھ کر ہے، کیونکہ ان اداروں کے اہلکار دوران ڈیوٹی اسلحہ حاصل کرتے ہیں اور ڈیوٹی ٹائم کے بعد واپس جمع کراتے ہیں، جبکہ اساتذہ کو جاری اجازت نامے اور تربیت ہمیشہ کیلئے ہیں، اور ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں ہے۔ صوبائی حکومت کے شروع کئے گئے پروگرام کے پہلے مرحلے میں 10 تعلیمی اداروں کی خواتین اساتذہ کو پولیس لائنز پشاور میں تربیت دی گئی جو کہ تین روز تک جاری رہے گی۔ فرنٹیئر کالج کی اساتذہ کو پستول اور ایس ایم جی چلانے کی تربیت دی گئی، جس میں اساتذہ نے کم اور زیادہ فاصلے پر اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔ صوبے میں صرف سرکاری سکولز کے ٹیچرز کی تعداد سوا لاکھ کے قریب ہے، کالجز اور یونیوسٹیز کا تدریسی عملہ اس کے علاوہ ہے اور پرائیویٹ سکولز کے اساتذہ کی تعداد بھی اس میں شامل نہیں ہے۔

صوبائی حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سے صوبے میں سوا لاکھ مسلح افراد کی تعداد میں اضافہ ہونے جا رہا ہے، بدقسمتی ہے یہ مسلح افراد تربیت یافتہ بھی ہونگے اور مزید بدقسمتی یہ کہ یہ تمام افراد لاکھوں بچوں کو پڑھانے اور سکھانے پر معمور ہیں۔ مستقبل میں اس کے کس حد تک خوفناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس کا اندازہ لگانے کیلئے شائد اتنا ہی کافی ہے کہ پاکستان میں مدارس کی تعداد بہرحال سرکاری سکولز کی تعداد سے کم ہے، مگر ان کے خلاف ایکشن تو دور ان کی چھان بین کیلئے بھی درکار حوصلہ حکومت کے پاس میسر نہیں، تو مستقبل میں اس تربیت یافتہ عسکری افرادی قوت کو قابو میں رکھنے کیلئے صوبائی حکومت کسے مسلح کرے گی، بیروزگاروں کو یا افغان مہاجرین کو، کیونکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں صرف یہ دونوں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ شخصی دفاع کے حق کی کوئی بھی دلیل تحریک انصاف کی حکومت پیش کرے، مگر حقیقت یہی ہے کہ ریاست جب عوام کے ہاتھوں میں اسلحہ دیکر انہیں اپنے تحفظ کی ذمہ داری سپرد کرتی ہے تو دراصل تحفظ فراہم کرنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری سے مبرا ہونے کا اعلان کرتی ہے اور تحفظ فراہم کرنے والے اپنے اداروں کی ناکامی کا اعتراف کرتی ہے۔ کے پی کے حکومت کی ناکامی کے اعتراف پر مبنی اس پالیسی کو ریاستی اداروں کی حمایت حاصل ہے یا نہیں، اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، مگر کہیں سے اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہوئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 435519
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش