1
Monday 2 Mar 2015 17:21

امریکا، اسرائیل اختلافات کے ڈرامے کی حقیقت

امریکا، اسرائیل اختلافات کے ڈرامے کی حقیقت
تحریر: عرفان علی 

دنیا بھر میں فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کو بے وقوف بنانے کے لئے امریکا و اسرائیل اختلافات کے طویل ڈرامے کی نئی قسط چلائی جا رہی ہے۔ نئی قسط کا اسکرپٹ یہ ہے کہ امریکی کانگریس میں صہیونی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کو 3 مارچ 2015ء کو خطاب کی دعوت پر امریکی صدر باراک اوبامہ ناراض ہیں۔ انہوں نے کانگریس کی جانب سے دی گئی اس دعوت اور صہیونی وزیراعظم کی جانب سے آمادگی پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔ مقبوضہ فلسطین کا وہ وسیع و عریض علاقہ جسے امریکا و برطانیہ نے اسرائیل کے نام سے تسلیم کر رکھا ہے، وہاں کی پارلیمنٹ کنیست کے لئے الیکشن 27 مارچ کو ہونے ہیں اور ان دنوں انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ ان کے وزیراعظم اس مرتبہ الیکشن جیتنا چاہتے ہیں اور اس کامیابی کے لئے صدر اوبامہ کی ناراضگی کے باوجود امریکی کانگریس سے خطاب کو ملتوی کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ صہیونی مبصرین کہتے ہیں کہ عالمی سفارتی محاذ پر یہ خطاب اسرائیل کو بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ پھر اوبامہ حکومت منفی ردعمل ظاہر کرے گی۔

یہ وہ اسکرپٹ ہے جس پر مسلسل لکھا گیا ہے۔ امریکا کے شہر نیویارک سے شائع ہونے والے سب سے بڑے روزنامہ نیویارک ٹائمز میں کئی زاویوں سے امریکی اسرائیلی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ مشرق وسطٰی کے نامور تجزیہ نگار و دانشوروں نے بھی اس میں حصہ ڈالا ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ فلسطین کی مقدس سرزمین پر ناجائز قبضہ کرکے اس کے وسیع علاقے کا نام اسرائیل قرار دے کر اسے ریاست یا ملک بنانے کی جعلسازی سے لے کر اس کی تاحال بقا و دوام میں برطانیہ اور اس سے بھی بڑھ کر امریکی حکومت نے ہی قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ امریکی مقتدر ادارے اور شخصیات کی حمایت اور مدد درحقیقت اس ناجائز و غاصب جعلی ریاست کے لئے آکسیجن کا کام دیتی آئی ہے۔ امریکا کی اس نامناسب و بے جا حمایت اور مدد کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

ایک اہم مثال بنجامن کی پہلی صہیونی حکومت 1996ء تا 1999ء کے دوران بھی ملتی ہے، جب یہودی امریکی مارٹن انڈائیک تل ابیب میں امریکی سفیر تھا۔ تب بھی اختلافات کا ڈھونگ رچایا گیا تھا۔ تب صہیونی وزیراعظم نے مارٹن انڈائیک کو ماں کی گالی دی تھی۔ انگریزی خبر کے مطابق انہوں نے انڈائیک کو son of a bitch کہا تھا، حالانکہ مارٹن انڈائیک نے واشنگٹن میں پہلا صہیونی امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ اسٹڈیز قائم کیا تھا۔ کافی عرصے سے بروکنگس انسٹی ٹیوٹ کے سبان سینٹر فار مڈل ایسٹ پالیسیز کا سربراہ ہے۔ یہ ادارہ صہیونی حکومت و دیگر صہیونیوں کی حمایت میں سالانہ فورم منعقد کرتا ہے۔ جہاں اعلٰی امریکی و صہیونی حکومتی عہدیداران و دیگر خواص کو مدعو کیا جاتا ہے۔ یہاں دسمبر 2014ء میں خطاب کرنے والوں میں بنجامن نیتن یاہو بھی تھے، یہ الگ بات کہ خطاب سیٹلائٹ کے ذریعے ہوا۔ مارٹن انڈائیک کی بے عزتی کے باوجود وہ اور ان کی حکومتیں آج تک ایک دوسرے کے دوست ہیں۔

پچھلے سال ماہ اکتوبر میں امریکی حکومت کے اعلٰی عہدیدار نے دی اٹلانٹک کے جیفری گولڈ برگ سے گفتگو میں نیتن یاہو کو چکن شٹ کہا تھا۔ یہ انگریزی لفظ کسی کی توہین کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا۔ یعنی ایسا شخص جس کی کوئی وقعت یا حیثیت ہی نہ ہو۔ نیتن یاہو نے بھی کھلے عام کہا تھا کہ ان کی نظر میں امریکی حکومت کوئی وجود ہی نہیں رکھتی، اب وہ براہ راست امریکی کانگریس سے مخاطب ہوا کریں گے۔ 2014ء ہی میں امریکی حکومت کا موقف تھا کہ اگلے سال سے اسرائیل کے لئے اقوام متحدہ میں پیشگی بچاؤ والی پالیسی کو تبدیل کر دے گی۔ لیکن ایسا عملی طور پر ابھی تک ہوا نہیں کیونکہ اسی سال2015ء میں امریکا نے اقوام متحدہ میں فلسطینی انتظامیہ کی سفارتی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے جعلی صہیونی ریاست اسرائیل کا ساتھ دیا ہے۔ لہٰذا فلسطین دوست حلقے اس ڈرامے کو سنجیدہ نہ لیں۔ یہ سچی کہانی نہیں بلکہ فکشن ہے۔

سچ یہ ہے کہ بیت المقدس جو آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا چاہئے، وہاں جولائی 2014ء میں پیدا ہونے والی یاسمین، جس کی ماں تمارہ بھی بیت المقدس (مشرقی یروشلم) میں پیدا ہوئیں، اسے آج تک پیدائش کا سرکاری سرٹیفیکٹ نہیں دیا جا رہا کیونکہ بیت المقدس پر نسل پرست یہودی دہشت گرد صہیونی حکومت کا قبضہ ہے۔ دنیا بھر سے فلسطین میں جمع ہونے والے نسل پرست صہیونیوں پر مشتمل جعلی حکومت کا کہنا ہے کہ اس فلسطینی لڑکی کے باپ کا تعلق مغربی کنارے کے علاقہ بیت جالا سے ہے، اس لئے سند پیدائش جاری نہیں کی جائے گی۔ سچ یہ بھی ہے کہ بیت جالا بیت المقدس (یروشلم) سے محض 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور سچ یہ بھی ہے کہ بنجامن نیتنیاہو کا والد پولینڈ میں پیدا ہوا تھا اور وہ خود تل ابیب میں۔ اس کا باپ فلسطین پر قبضہ کرنے کے لئے بنائی جانے والی غیر فلسطینی یہودیوں کی دہشت گرد صہیونی تنظیموں بشمول ارگن کے بانی زی ایو جیبوٹنسکی کا پرسنل سیکریٹری تھا۔ اس کے باوجود وہ تو فلسطین پر قبضہ کرکے مسلط کی گئی جعلی ریاست اسرائیل کے شہری قرار دیئے گئے اور فلسطینی عربوں کو آج بھی اپنے ہی وطن میں پیدائش کی سند کے لئے صہیونی حکومت کے اعتراضات کا سامنا ہے۔

ایک اور سچ تو یہ بھی ہے کہ انٹرنیشنل لاء کے تحت یروشلم ایک مقبوضہ علاقہ ہے، جہاں اسرائیل کا کنٹرول خود اقوام متحدہ کے قوانین کی رو سے غیر قانونی ہے۔ کڑوا ہی سہی لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ نسل پرست صہیونی یہودی دہشت گردوں کے فلسطین پر ناجائز قبضے کو اسرائیل نامی ریاست کا جعلی نام و حیثیت دی گئی تھی تو اقوام متحدہ نے اپنے ہی وضع کردہ قوانین اور رکنیت کی شرائط کی خلاف ورزی کرکے اسے اقوام متحدہ میں رکنیت دی تھی۔ انٹرنیشنل لاء کے مطابق فلسطین میں یہودیوں کی بستیاں (settlements) غیر قانونی ہیں اور امریکا و یورپی یونین لفاظی کی حد تک اس کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر کبھی ان بستیوں کے خاتمے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کے لئے اسرائیل کو کبھی مجبور نہیں کرتے۔ ان غیر قانونی یہودی بستیوں میں پیدا ہونے والا ہر یہودی شہری تسلیم کیا جاتا ہے، اس کی سند پیدائش کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

دنیا بھر سے یہودی فلسطین میں آکر کسی بھی جگہ رہائش پذیر ہوجائیں، انہیں شہریت مل جاتی ہے، لیکن عرب فلسطینی بچی کو اس لئے سند پیدائش نہیں ملتی کیونکہ اس کا باپ بیت جالا کا رہائشی ہے اور جو بیت المقدس سے محض 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ اب ذرا یہ بتائیں کہ مغربی کنارے کے علاقے بیت جالا کے مکین فلسطینی عرب کی بیٹی جو مقبوضہ بیت المقدس (مشرقی یروشلم) میں پیدا ہوئی، اس کو سند پیدائش جاری کروانے کے لئے کوئی کردار ادا کر پائیں گے؟ یقیناً یہ کسی ایک بچے یا بچی کے ساتھ نہیں ہوا ہوگا۔ امریکا و اسرائیل تو اختلافات کے ڈراموں سے مخالفین کو وقتی طور پر بہلا پھسلا لیں گے، لیکن فلسطینیوں کے غم میں شریک ہم جیسے ان صحافتی لالی پاپ سے کیوں کر آسودہ خاطر ہوں گے۔ ہمیں یہ تلخ حقیقت معلوم ہے کہ فلسطینی دنیا بھر کی طرح اپنے وطن میں بھی بے وطن ہوچکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 444383
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش