0
Thursday 2 Apr 2015 12:30

شور شرابے میں ظالم اور مظلوم کا معاملہ گم ہوگیا

شور شرابے میں ظالم اور مظلوم کا معاملہ گم ہوگیا
تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی

غیر خدا سے مدد مانگنے کو شرک سمجھنے والے خادم الحرمین الشریفین نے ہمارے شریفین سے مدد مانگی اور ان سے استغاثہ کیا تو ہمارے ہاں یہ بحث چل نکلی کہ ہمیں ان کی مدد کرنا چاہیے یا نہیں۔ بات کچھ کی کچھ ہوگئی۔
’’ہم حرمین شریفین کی حفاظت کے لئے ہر طرح کی قربانی دیں گے۔‘‘
ہاں ضرور دیں گے، لیکن کیا اس وقت حرمین شریفین خطرے میں ہیں اور اگر ہیں تو انھیں کس سے اور کیاخطرہ ہے؟
ہم سعودی عرب کی سرزمین کی حفاظت کریں گے؟ کیا سعودی عرب پر یہود و نصاریٰ یا مشرکین نے حملہ کر دیا ہے؟ سعودی عرب کو کس سے خطرہ ہے؟
کیا ہم آل سعود کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور کہہ کچھ اور رہے ہیں؟
جب یہ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے ہم پر بہت احسانات ہیں اور انھوں نے اس وقت ہم سے مدد مانگی ہے، اس لئے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے، تو یہ باتیں اپنے اندر کس قدر سچائی رکھتی ہیں؟
اس سوال کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان سب سوالوں نے اصل سوال گم کر دیا اور اصل معاملہ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور وہ ہے اپنے ہمسایہ کمزور اور غریب ملک پر سعودی شاہی حکومت کی جارحیت۔

سعودی عرب کیوں مقدس ہے؟ اس لئے کہ وہاں حرمین شریفین واقع ہیں، لیکن اس سے سعودی عرب کا شاہی خاندان اور اس کا ہر فیصلہ کیونکر مقدس ہوجاتا ہے؟ سعودی عرب کے شاہی خاندان کے پاکستان پر ’’مالی‘‘ احسانات کا یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ وہ جو بھی اقدام کرے، پاکستان کو آنکھیں بند کرکے اس کی حمایت کرنا چاہیے۔ اپنے ہمسایہ ملک یمن پر سعودی عرب نے کس عالمی یا اخلاقی قانون اور قاعدے کے تحت یلغار کی ہے؟ اگر ’’حوثی‘‘ چند قبائل کا مشترکہ نام ہے تو ’’آل سعود‘‘ ایک خاندان کا نام ہے۔ اگر ’’زیدی‘‘ ایک مسلک کا نام ہے تو ’’وہابی‘‘ بھی ایک مسلک کا نام ہے۔ زیدی مسلک کے لوگ تو یمن میں کم و بیش چالیس فیصد ہیں۔ حوثی قبائل کی تعداد یمن میں کل آبادی کا کم از کم ایک تہائی ہے۔ خاندان سعود کس قانون اور اصول کے تحت سعودی عرب پر حکمران ہے؟ انھوں نے کس اصول کی بنیاد پر نبی کریمؐ کی سرزمین کا نام اپنے دادا کے نام پر رکھ دیا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن پر سعودی شاہی حکومت نے اس وقت یلغار کی جب یمن کا سابق صدر منصور ہادی صدارت سے استعفٰی دے کر صنعا سے فرار ہوچکا تھا۔ اسے سعودی عرب اور اس کے ساتھیوں نے عدن پہنچ کر استعفٰی واپس لینے کا اعلان کرنے پر آمادہ کیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس قرارداد کی بنیاد پر علی عبداللہ صالح کے بعد منصور ہادی کو عبوری صدر بنایا گیا تھا، اس نے اس پر عمل درآمد کے بجائے اس کے خلاف اقدامات شروع کر دیئے تھے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ’’انصار اللہ‘‘ کو اس وقت ملک کے بیشتر قبائل کی حمایت حاصل ہے، جن میں علی عبداللہ صالح کے حامی قبائل اور افواج بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب نے جس اصول کی بنیاد پر افغانستان میں ’’طالبان‘‘ کی حکومت کو جائز تسلیم کیا تھا، وہ اصول بدرجہ اتم اسے یمن میں برپا دکھائی دینا چاہیے۔

یمن میں نہتے عوام کا قتل عام جاری ہے۔ یمن کی حکومت یا انصار اللہ نے سعودی عرب کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا تھا۔ شمالی یمن میں حوثی ایک ہزار برس تک حکمران رہے ہیں۔ خود سعودی عرب 1967ء تک حوثیوں کو یمن کا جائز حکمران سمجھتا چلا آیا ہے۔ یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح بھی زیدی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں بھی تینتیس برس تک سعودی عرب یمن کا جائز حکمران قرار دیتا چلا آیا ہے۔ اہل یمن صدر اسلام سے مسلمان چلے آرہے ہیں۔ حوثیوں کی قیادت سادات کرام میں سے ہیں۔ وہ نبی کریمؐ کی اولاد میں سے ہیں۔ ان سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو کیونکر خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟

اس وقت سعودی عرب کے بمبار طیارے یمن میں جو تباہی پھیلا رہے ہیں، ہمارے ہاں کے ذرائع ابلاغ اصلاً ان کی خبر نہیں دے رہے۔ نہتے عوام جن میں عورتیں اور بچے بڑی تعداد میں شامل ہیں، کی جگر پاش تصویریں جو سوشل میڈیا پر آرہی ہیں، سینے پر ہاتھ رکھ کر دیکھیے۔ نبی کریمؐ کے فرمان کی روشنی میں اسلام کا اصول تو یہ ہے کہ ’’مظلوم کے مددگار بنو اور ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہو‘‘ اگر ہم یہ نہیں کرسکتے تو کم از کم ظالم کا ساتھ دینے کا تو ارادہ نہ کریں۔ سعودی عرب کی مدد کرنے کی بات کرنا، اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یمن کے رہنے والے مظلوم اور جارحیت کا شکار بھی مسلمان ہیں۔ سعودیوں نے پاکستان کو جو مالی مدد فراہم کی ہے، کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آج ہم مظلوم کے قتل و غارت میں ان کے شریک ہوجائیں، تاکہ پھر وہاں پر امریکا کی پٹھو حکومت قائم ہوسکے؟ انصار اللہ کا قصور ان کے نعروں اور بینروں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ اللہ اکبر، امریکا مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ انھیں مارنے اور ان کا قتل عام کرنے کے لئے یہی’’جرم‘‘ کافی ہے۔

سعودی عرب نے دس ’’مسلمان‘‘ ملکوں کا اتحاد غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں کیوں تشکیل نہیں دیا؟ اسرائیل پر چڑھائی کے لئے سعودیہ نے پاکستان سے کبھی کوئی مدد کیوں نہیں مانگی؟ شرم الشیخ میں شرم سے عاری حکمرانوں نے اسرائیل کو کیوں نہیں للکارا؟ حماس اور اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دینے والوں نے صہیونی حکومت کو کیوں دہشت گرد قرار نہیں دیا؟ جنرل سیسی اور سعود خاندان کی شجاعت اور بہادری کے مظاہرے کمزور اور فقیر یمنیوں کے خلاف کیوں ہو رہے ہیں؟ جنرل سیسی کو اب تک 15 ارب پٹروڈالر مل چکے ہیں، مزید ملنے کی توقع ہے، لہٰذا وہ بھی ’’احسانات‘‘ کا بدلہ چکانے کے لئے ’’مرد میدان‘‘ بن گیا ہے۔

ہم نہیں سمجھتے کہ جنرل راحیل شریف جنھیں اس وقت پوری پاکستانی قوم کا اعتماد حاصل ہے، وہ کوئی ایسا فیصلہ کریں گے، جس سے دہشت گردی کے خلاف ان کے پرعزم فیصلوں پر آنچ آئے اور پاک فوج کو جو قوم کی اجتماعی حمایت حاصل ہے، وہ متزلزل ہوجائے۔ امریکا اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ ’’مجاہدوں‘‘ کو آج دہشت گرد قرار دے کر ہماری فوج ان کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، اب پھر سعودی عرب اور امریکا کی جنگ میں کود کر نئے مصائب کو پاکستان میں درآمد کرنے کی غلطی نہیں کرے گی۔ اس لئے کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تک نہ پہنچ سکنے والی مظلموں کی آہ عرش الٰہی تک جا پہنچے۔
خبر کا کوڈ : 451570
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش