4
Friday 1 May 2015 17:30

پاکستان اقتصادی خوش حالی سے دور کیوں؟

پاکستان اقتصادی خوش حالی سے دور کیوں؟
تحریر: عرفان علی

چین کی سرمایہ کاری کے اعلانات پر جشن منانے والی حکومت اور ان کے ہمنواؤں کی خدمت میں عرض ہے کہ باوجود اس حقیقت کے کہ چین پاکستان کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے، لیکن دونوں کے درمیان تجارت کا سالانہ حجم محض 14 بلین ڈالر ہے۔ چین اور پاکستان کی آبادی اور جیو اسٹرٹیجک حیثیت و اہمیت کو دیکھیں اور اس کا موازنہ ترکی اور ایران سے کریں۔ موخر الذکر دونوں ممالک کی مجموعی آبادی پاکستان کی آبادی سے بھی کم ہے، لیکن ان دونوں کے مابین تجارت 14 تا 15 بلین ڈالر سالانہ ہے اور حال ہی میں اس کو 30 بلین ڈالر سالانہ تک توسیع دینے کا دوطرفہ اعلان کیا گیا ہے۔ کیا کبھی پاکستان کے حکمران طبقے نے اس پہلو پر سوچا بھی ہے کہ ہم ایران سے اتنی تجارت کریں گے؟ پی پی پی حکومت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورے کے وقت کم از کم میں نے پہلی مرتبہ یہ سنا کہ ایران سے 10 بلین ڈالر سالانہ دو طرفہ تجارت کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔ ان دنوں بھی یہ ناچیز 15 بلین ڈالر سالانہ تجارت کی تائید میں تحریریں لکھ چکا تھا۔

آج یہ تحریر لکھنے کا سبب پاکستانی ریاست کا سعودی و خلیجی عرب ممالک کی طرف نقصان دہ جھکاؤ پر مبنی ماضی کی غلط پالیسی کے ناقابل تلافی نقصانات کی بجائے ایک فائدہ مند متبادل پالیسی تجویز کرنا ہے۔ ایک مخصوص طبقے کے مولوی حضرات اور ان کے طاقتور سرپرست عناصر پاکستان کو سعودی عرب و دیگر خلیجی عرب ممالک کے فیوض و برکات پر آج تک لیکچر دیتے آئے ہیں، لیکن ہر غیرت مند پاکستانی کو معلوم ہے کہ سعودی عرب نے پاکستانیوں کو غلام سمجھا۔ پاکستانی سفارتکار لکھ چکے ہیں کہ 1971ء کی جنگ سے قبل عرب پاکستان کو بڑا بھائی سمجھتے تھے، لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد چھوٹا سمجھنے لگے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت نے حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کی وجہ سے پاکستان کو سنگین نتائج و نقصانات کی دھمکیاں دیں۔ ہمارے سینیئر صحافی دوست شجاع الدین قریشی جو ایک طویل عرصہ سرکاری خبررساں ادارے سے وابستہ رہے، انہوں نے فیس بک پر اس دھمکی کے جواب میں صرف ایک جملہ لکھا کہ پاکستان کی اس پالیسی سے جو بھی نقصان ہوگا، وہ ان 50 ہزار انسانی جانوں سے کم ہی ہوگا جو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ایجاد کردہ طالبان کے ذریعے پاکستان کو پہنچایا گیا۔

سعودی عرب کے دور دراز صحرائی علاقوں میں طبی سہولیات کے مراکز میں پاکستانی ڈاکٹرز اس لئے تعینات کئے جاتے ہیں کہ عیاش سعودیوں کو کام چوری کی عادت ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی تعمیر و ترقی اور دفاع پاکستانیوں کے خون پسینے کی بنیاد پر ممکن ہوا۔ کبھی پاکستان، سعودی اور پاکستان، یو اے ای تعلقات کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ ہم نے عرب کے ان بدو جاہلوں پر احسانات کئے ہیں یا ان بدبخت اسلام دشمن، انسانیت دشمن سامراجی اتحادی عرب شیوخ و شاہوں نے ہم پر؟ آصف علی زرداری جب ستمبر 2008ء میں صدر بنے تو سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو ادھار پر تیل کی سپلائی بند کر دی تھی، مالی امداد تو بہت دور کی بات ہے۔ پھر ایران نے پاکستان کو کریڈٹ پر تیل دیا۔

پاکستان کی اقتصادی ترقی نہ ہوسکی تو سبب یہ تھا کہ پاکستانیوں کو ان بادشاہوں کا ذہنی غلام بناکر نقصانات کو فائدہ بیان کیا جاتا رہا۔ ان ممالک سے ترسیل زر کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اس حقیقت کو فراموش کر جاتے ہیں کہ آج کی دنیا میں ہیومن ریسورسز اور آؤٹ سورس کی اصطلاح ایسی ہی خدمات انجام دینے والوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ اگر عربوں کو محنت اور خود انحصاری کا شوق ہوتا تو وہ اپنے علاقوں کی تعمیر و ترقی خود کرتے، وہ نااہل و نالائق تھے، اسی لئے پاکستانیوں کو جاکر وہاں خدمات انجام دینا پڑیں۔ دنیا میں کوئی ملک اپنی تعمیر و ترقی کے پس پردہ شخصیات کو غلام نہیں سمجھتا۔ بھارت سے جو ہندوستانی امریکا گئے، تھامس فریڈمین جیسے متعصب صہیونی امریکی نے اپنی کتاب ورلڈ از فلیٹ میں ان کی تعریف کی۔ کیا سعودی ایئر فورس اور بحریہ، پاکستان کی مدد و معاونت کے بغیر بن سکتی تھی؟ حالانکہ امریکا نے تو وہاں ظہران میں بہت پہلے سے فوجی اڈہ بنا رکھا تھا۔

قطر سے ایل این جی خریدنے کی تفصیلات پڑھیں۔ موازنہ کریں کہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کی مخالفت کرنے والے اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ معلوم ہے کہ انتہائی نقصان دہ اور مہنگا سودا ہے۔ میرے ایک انجینیئر دوست نے بتایا ہے کہ پاکستان کو گیس کی جتنی ضرورت ہے، اس کا ایک تہائی، ملکی وسائل سے حاصل ہو رہا ہے اور ایک تہائی ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے حاصل ہوگا اور اس کے باوجود پاکستان کو تاجکستان سے آنے والی گیس پائپ لائن کے منصوبے پر کام کرنا ہوگا، تب کہیں جاکر گیس کے ذریعے توانائی کے شعبے میں ہم اپنی ضروریات کے مطابق گنجائش پیدا کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ جنرل امجد شعیب نے کہا تھا کہ ایران گیس پائپ لائن سے ملک کی 35فیصد مقامی معیشت چل پڑے گی۔ یعنی پاکستان اس منصوبے کے ذریعے اپنے اخراجات کا 35 فیصد حاصل کرلے گا۔

لیکن جب آصف زرداری کے دور صدارت میں پی پی پی حکومت نے ایران سے تجارتی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی تو سعودی عرب اور خلیجی عرب ممالک کو بہت برا لگا۔ امریکا اور اس کی اتحادی ان عرب حکومتوں نے توانائی یا دیگر شعبوں میں پاکستان کو اب تک کیا دیا ہے؟ ٹیلی کمیونیکیشن کی نجکاری کی تفصیلات پڑھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ پی ٹی سی ایل کے کتنے اثاثے تھے اور کتنا سستا فروخت کر دیا گیا۔ کے ای ایس سی جو اب کے الیکٹرک ہے، اس کا ٹھیکہ کن شرائط پر دیا گیا اور پاکستان کو اس سے کتنا نقصان ہوا؟ آج بھی ایرانی بجلی ہی سب سے زیادہ سستی غیر ملکی بجلی ہے جو پاکستان خرید رہا ہے۔

نواز شریف سمیت بہت سے پاکستانیوں کو ترکی کی دوستی پر بھی بہت فخر ہے۔ کیا ترکی سے تجارت کے لئے ایران کے علاوہ کوئی زمینی راستہ ہے؟ صرف ایک ملک ایران سے گذر کر پاکستان ترکی تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ کیا پاکستان نے ایران تک ریلوے لائن کو اپ گریڈ کر دیا ہے؟ کیوں نہیں کیا؟ جب ترکی سے تعلقات کو مضبوط کرنے کی بات ہوتی ہے تو اس حقیقت کو کیوں فراموش کر دیا جاتا ہے کہ ترکی سے دوستی کا راستہ بھی ایران سے گذر کر جاتا ہے۔ خلیجی ممالک سے ترسیل زر پر انحصار کرنے والے پاکستانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ رزق حلال کماتے ہیں اور اگر پرواز میں کوتاہی آجائے تو ایسے رزق سے موت اچھی۔ نواز شریف بھی اس شعر کو گنگناتے رہے ہیں۔ اگر ایران اور ترکی سے دو طرفہ اور سہ طرفہ تجارت ہوگی تو ہیومن ریسورسز وہاں بھی شفٹ کر جائے گی۔ بجائے اس کے کہ پاکستانی کی سکیورٹی فورسز ایران تک جانے والے راستوں کو محفوظ بنائیں، ان کا فوکس افغانستان کی سرحدوں پر ہے، یہاں سے وسطی ایشیاء تک پاکستان کو ایسی کون سی خوشحالی نظر آرہی ہے کہ جس کو ایران اور ترکی پر ترجیح دی جا رہی ہے؟ اصل میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی خوشنودی کے لئے پاکستان کو گروی رکھا جاتا رہا ہے اور ان کو ناپسند ہر پالیسی پر عمل سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔

حالانکہ خود نظریہ پاکستان، حکومت کو یہ سمجھانے کے لئے کافی و شافی ہے کہ ایران پوری دنیا میں اور خاص طور پر عالم مشرق میں پاکستانیوں کے لئے ایک خاص اہمیت و حیثیت کا حامل ہے۔ پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف امام کعبہ کی موجودگی میں خطاب کرتے وقت بھول گئے کہ مسلمانوں کو حرم کی پاسبانی کے لئے ایک ہونے کی نصیحت کرنے والے قومی شاعر علامہ اقبال نے ’’شیخ حرم‘‘ اور سلاطین کو ’’خادم حرمین شریفین‘‘ کے غلاف میں بھی نہیں بخشا بلکہ ان کو ’’گلیم بوذرؓ، دلق اویسؓ اور چادر زہر ؑ ا‘‘ کو ’’چرا کر بیچ کھانے والا‘‘ لکھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں ’’ایسے چوروں سے رشتہ کیا، دفع کر، دور ہوجا،‘‘ کا نعرہ لگنا چاہیے تھا۔ اصل نعرہ یہ ہے کہ عالم اسلام کا ایک دوسرے سے رشتہ کیا، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ یہی زیادہ مناسب نعرہ ہے۔ حرمین شریفین سے رشتہ کیا کا نعرہ لگانے والے بھول جاتے ہیں کہ ایک مسلمان کی جان کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم ہوتی ہے۔

امریکا کے اتحادی عرب شیوخ و شاہ کے مقابلے میں ایک آزاد و خود مختار ملک یعنی ایران دنیا میں ایک ایسی حقیقت بن کر سامنے آچکا ہے، جس سے اچھے تعلقات رکھنا ہر بڑے ملک کی مجبوری بن چکی ہے۔ روس، امریکا کشیدگی بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ جب نومبر 2014ء میں روس، امریکا کشیدہ تعلقات کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا، تب روسی وزیر پاکستان کے دورے پر تھے جو ایک خوشگوار تبدیلی کی علامت تھی۔ پاکستان کو ایک متوازن خارجہ پالیسی کی ضرورت تھی اور ہے۔ خارجہ پالیسی کے نظریہ سازوں کو چاہئے کہ بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستانی ریاست اور حکومت کے لئے ایسی پالیسی وضع کریں کہ جو دنیا کے نقشے میں ہمیں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک خاص طور پر سعودی عرب کا دست نگر یا طفیلی ریاست بنانے کی بجائے واقعی آزاد و خود مختار قابل اعتبار ملک کے طور پر متعارف کروانے میں مددگار ثابت ہوسکے۔ ہماری اقتصادی خوشحالی ایک ایسی ہی خارجہ پالیسی کے ذریعے ممکن ہوسکے گی۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ معروضی حقائق کی روشنی میں پاکستان کی درست منزل اور اس سمت میں سریع حرکت پر مبنی پالیسی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو توڑا جائے۔
خبر کا کوڈ : 457743
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش