0
Tuesday 2 Jun 2015 18:30

امریکہ اور فرانس، داعش کی پشت پناہی میں سرگرداں

امریکہ اور فرانس، داعش کی پشت پناہی میں سرگرداں
تحریر: ٹی ایچ بلوچ

پیرس میں داعش کے خلاف لائحہ عمل طے کرنے کے نام پہ امریکہ اور اسکے پٹھو ممالک پر مشتمل عالمی اتحاد کا اہم اجلاس جاری ہے، جس میں دنیا کے 60 ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہیں۔ امریکی قیادت میں ہونے والے اجلاس میں شدت پسند تنظیم داعش سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل کو بہانہ بنا کر عراق میں ظلم و ستم کا بازار جاری رکھنے کے نئے منصوبے طے کئے جائیں گے۔ امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ فرانس سمیت یورپی ممالک اور خلیجی ریاستوں کو اس بات پر تحفظات ہیں کہ حالیہ دنوں میں عالمی اتحاد کی مزاحمت کے باوجود داعش نے عراق اور شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے، 17 مئی کو داعش نے الرمادی شہر پر قبضہ کر لیا جو دارالحکومت بغداد سے صرف 55 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔

مذکورہ اتحادی ممالک اس بات کی تکرار کر رہے ہیں کہ داعش کی عراقی صوبہ الانبار میں پیش قدمی جاری ہے جبکہ شام کے سرحدی علاقوں پر بھی داعش قابض ہوچکی ہے۔ اس لئے شام میں داعش کے خلاف فضائی حملے کرنے والے ممالک میں امریکا، سعودی عرب، قطر، اردن اور بحرین شامل ہیں، جبکہ آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا اور فرانس کی فورسز عراق میں داعش کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ وہ ممالک جنہوں نے داعش کی بنیاد رکھی، تکفیری ٹولے کو پروان چڑھایا، وہ اپنے اجلاس میں داعش کے خلاف جنگی حکمت عملی طے کرنے کے ساتھ ساتھ عراقی فوج کی استعداد بڑھانے، شام میں باغیوں سے امن بات چیت جیسے امور پر تبادلہ خیال کریں گے، حالانکہ عالمی طاقتوں اور انکے پٹھو ممالک کے یہ نعرے طشت از بام ہوچکے ہیں کہ وہ عراق، شام اور خلیجی ممالک میں امن نہیں چاہتے۔ واضح رہے یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے کہ عراق میں ریاستی افواج اور شیعہ مجاہدین کئی علاقوں سے داعش کو واپس دکھیلنے کے لئے کامیابی سے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

عراقی وزیراعظم حیدر العبادی بھی اس اجلاس میں شرکت کريں گے، لیکن امریکی وزیر خارجہ جان کیری زخمی ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہو پائیں گے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق تکفیری گروہ داعش کے خلاف نام نہاد امریکی اتحادی فضائی حملے کے اثرات کے بارے میں جو خیال کیا گیا تھا اس میں ناکامی کے بعد عراق کی سیاسی صورتِ حال کے حل کے لئے بات چیت پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ داعش کے ساتھ بات چیت کا مقصد انہیں مزید وقت اور مواقع فراہم کرنا ہے، تاکہ عراق اور شام میں جاری دہشت گردی کو جاری رکھ سکیں۔ عراق میں داعش کے خلاف کارروائی کے لئے شیعہ ملیشیا پر حکومت کا انحصار روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، جس سے عالمی سطح پر استعماری ممالک وہاں مسلکی کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرکے عراق میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔ اسی لئے یورپی ملک فرانس کی جانب سے شیعہ مجاہدین کے نئے کردار کو انتہائی نازک صورت حال سے تعبیر کیا ہے۔ ذرا‏ئع کے مطابق الرمادی میں داعش پر حملے کے لئے شہر کے مشرق میں حبانیہ کے مقام پر تین ہزار مجاہدین نے بنیادی تربیت مکمل کر لی ہے اور الانبار میں جنگی محاذ پر چھ ایرانی ساخت کے راکٹ لانچر پہنچائے گئے ہیں۔

عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے داعش کے خلاف جنگ میں ایرانی مدد اور تعاون کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم کو شکست دینے کے لئے ایران اور عراق کے درمیان تعاون "لازمی" ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق کے ساتھ ساتھ ایران کو بھی داعش سے خطرہ ہے۔ ایران اور عراق کے بڑھتے ہوئے روابط پر امریکہ اور خلیجی ممالک کے تحفظات کے بارے میں بات کرتے ہوئے عراقی وزیراعظم نے کہا کہ عراق میں لڑی جانے والی جنگ کا مقصد خلیجی ممالک کو محفوظ رکھنا ہے، جنھیں داعش سے خطرہ ہے۔ اس سے قبل حیدر العبادی کہہ چکے ہیں کہ ایران اور اردن عراقی حکومت کی بڑی مدد کر رہے ہیں، لیکن خلیجی ممالک کو اس حوالے سے "خطرہ" محسوس ہوتا ہے اور خلیجی ممالک اس صورتحال کو حقیقت پسندانہ انداز سے نہیں دیکھ رہے۔

امریکہ کے وزیرِ دفاع ایشٹن کارٹر نے خود اپنی زبانی اس خیانت کا اقرار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبہ الانبار کے دارالحکومت الرمادی میں عراقی افواج کی شکست ظاہر کرتی ہے کہ ان میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف لڑنے کے عزم کی کمی ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عراقی فوجی تعداد میں داعش سے کہیں زیادہ تھے، لیکن انھوں نے اس کے باوجود پسپائی اختیار کی، امریکہ نے عراقی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور ان کو مسلح کیا لیکن کئی موقعوں پر عراقی فوج نے امریکہ کا دیا ہوا، اسلحہ داعش کے حملے پر چھوڑ کر فرار اختیار کیا۔ امریکی وزیر دفاع کے اس بیان سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ عراق میں کن مقاصد کی خاظر عراقی فوج کے نام پہ صدام کی باقیات کس طرح کی تربیت اور اسلحہ فراہم کیا گیا تھا، الانبار، الرمادی اور اس س پہلے موصل میں داعش کے ساتھ صدامی باقیات پر مشتمل امریکی فوج نے امریکہ کے مذموم مقاصد کو آشکار کر دیا تھا۔

اسی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک ہفتہ قبل سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ داعش کے خلاف لڑائی میں "عزم کی کمی" سے واضح ہے کہ عراق میں موجودہ صورتحال سے جڑی سازش میں امریکہ ملوث ہے۔ گذشتہ اتوار کو داعش دہشت گردوں نے الرمادی پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے بعد عراقی وزیراعظم نے شہر کو واپس لینے کے لئے شیعہ ملیشیا کو مدد کے لئے بلایا تھا۔ پیرس میں بلائے گئے اجلاس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب سے شیعہ مجاہدین اور عراقی افواج نے داعش دہشت گردوں کا صفایا شروع کیا ہے، امریکی اور اسکے اتحادی ممالک عراق اور شام میں استعماری مقاصد کو ناکامی سے بچانے کے لئے سرگرداں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 464628
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش