3
Tuesday 16 Jun 2015 20:30

نیوکلیئر ڈیل پر ایرانی حکومت کا موقف

نیوکلیئر ڈیل پر ایرانی حکومت کا موقف
تحریر: عرفان علی

متوقع نیوکلیئر ڈیل کے بارے میں عوام و خواص کے شکوک و شبہات کے پیش نظر ایرانی صدر حسن روحانی گذشتہ چند روز سے وضاحت و صراحت کے ساتھ اپنا موقف بیان کر رہے ہیں۔ 13 جون کو تہران میں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ برائے ایٹمی توانائی (IAEA) کی جانب سے اضافی پروٹوکول پر عمل کے بہانے یا، این پی ٹی سمیت کسی بھی معاہدے کے تحت ایران کے فوجی رازوں تک رسائی کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ فوجی نوعیت کے راز بلکہ دیگر ٹیکنالوجیکل شعبوں کی کوئی بھی خفیہ معلومات تک غیر ملکیوں کو رسائی نہیں دی جائے گی۔ اتوار 14 جون کو صوبہ خراسان شمالی کے شہر بجنورد میں صوبائی سطح کے سرکاری عہدیداران کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ایران کے مذاکرات کار معین کردہ ساری ریڈ لائن کی پیروی کر رہے ہیں۔ معین کردہ ریڈ لائن سے ان کی مراد یورینیم افزودگی اور نیوکلیئر شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا جاری رہنا، ضد ایران قرار دادوں اور اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ ہے۔

بجنورد میں عوامی اجتماع سے خطاب میں صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ غیر ملکیوں کی عائد کردہ ظلم و جرم پر مبنی پابندیوں کو جاری رہنے کی اجازت نہیں دیں گے اور ملت ایران کے حقوق کو پامال کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ صوبائی سرکاری عہدیداران سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ ایک ملک جس کا کیس اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں باب ہفتم کے تحت بھیجا گیا لیکن وہ (سکیورٹی کاؤنسل کے مستقل اراکین کے ساتھ) مذاکرات کی میز پر بیٹھا اور اپنی ریڈ لائن میں رہتے ہوئے اپنے سارے اہم اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو یہ شک نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی حکومت مذاکرات کے لئے مقرر کی گئی ریڈ لائن کی خلاف ورزی کرسکتی ہے۔

ایران کے ماہرین کی ٹیم کے سربراہ حامد بیدی نژاد ہیں، جو وزارت خارجہ کے سیاسی اور بین الاقوامی امور کے ڈائریکٹر ہیں۔ آج انہوں نے انسٹاگرام پر بیان دیا ہے کہ گذشتہ دس روز سے ویانا میں ماہرین کی ٹیم مذاکرات میں مصروف رہی ہے۔ یہ ایرانی ماہرین اور گروپ پانچ جمع ایک (ای تھری پلس تھری) کے ماہرین روزانہ طویل نشستوں میں ممکنہ نیوکلیئر ڈیل کے میکنزم کا مجوزہ حتمی متن تیار کر رہے ہیں، جو نائب وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات میں پیش ہوگا۔ ایران کے نائب وزرائے خارجہ اور معاون مذاکرات کار عباس عراقچی اور ماجد تخت روانچی ویانا مذاکرات میں پانچ روز شریک ہوکر تہران آچکے تھے اور بدھ یعنی کل وہ دوبارہ ویانا جائیں گے۔ وہ بھی ویانا میں مذاکرات کے کئی راؤنڈز میں شرکت کرچکے ہیں۔ ان مذاکرات میں یورپی یونین بقیہ ممالک کی سفارتی نمائندگی کر رہی ہے اور EU کی ڈپٹی فارین پالیسی چیف ہیلگا شمٹ دوسرے فریق کے وفد کی قیادت کر رہی ہیں۔ جس طرح حامد بیدی نژاد ایرانی ماہرین کی قیادت کر رہے ہیں، اسی طرح ہیلگا کے ساتھی اسٹیفن کلیمنٹ ممکنہ حتمی معاہدے کے تتمہ (annexes) کا متن تیار کرنے میں دوسری فریق کے اہم فرد ہیں۔

عباس عراقچی نے پریس ٹی وی (24 اپریل 2015ء) سے گفتگو میں بتایا تھا کہ پابندی ہٹانے والے میکنزم کی تفصیلات کا متن لکھنے کا آغاز ہوچکا ہے۔ یاد رہے کہ غیر حتمی منصوبہ عمل میں بہت سے متنازعہ نکات شامل تھے، جس کی نشاندہی انہی دنوں ایک مقالہ میں تحریر کرچکا تھا۔ ریڈ لائن کے بارے میں امام خامنہ ای کا موقف بھی ماضی میں بیان کیا جاچکا ہے اور اسی کی روشنی میں 9 جون 2015ء کو ایرانی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے نیشنل سکیورٹی و خارجہ پالیسی نے ایک بل منظور کیا ہے، جس میں حکومت کے سامنے واضح کیا گیا تھا کہ ایران کے خلاف بیک وقت ساری پابندیاں ختم کروانے کی شرط پر عمل کروایا جائے۔ محض اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل کی پابندیاں نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین، امریکی کانگریس کی پابندیاں بھی ختم کروائی جائیں۔ غیر ایٹمی جگہوں تک کسی کو رسائی نہ دی جائے۔ نیوکلیئر سائنسدان، فوجی یا دیگر شخصیات تک رسائی کی اجازت نہ دی جائے۔ ایران کے پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول پر اور ریسرچ اور ڈیولپمنٹ پر کوئی قدغن برداشت نہ کی جائے۔ ممکنہ نیوکلیئر ڈیل کا عمل اراکین پارلیمنٹ کے سات رکنی گروپ کی زیر نگرانی ہو۔

اس کے بعد تہران کے قائم مقام امام جمعہ آیت اللہ احمد خاتمی نے نماز جمعہ کے خطبہ میں چھ ریڈ لائنز پر زور دیتے ہوئے ایرانی پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایرانی حکومت کو قانونی طور پر پابند بنائے کہ وہ ممکنہ معاہدہ میں ان شرائط کو تسلیم کروائے۔ نمبر ایک ضد ایران ساری پابندیاں ختم کی جائیں نہ کہ معطل، دھمکیوں کے ماحول میں مذاکرات کو مسترد کرکے جو نیوکلیئر کامیابیاں حاصل ہوچکی ہیں، ہر حال میں ان کا تحفظ کیا جائے۔ ایران کی فوجی تنصیبات اور نیوکلیئر سائنسدانوں تک کسی کو رسائی نہ دی جائے۔ یکطرفہ کوئی یقین دہانی نہ کرائی جائے اور فریق مخالف کو بھی پابند بنایا جائے کہ اس کی دی گئی ضمانتیں قابل تصدیق ہوں۔ مذاکرات یا معاہدہ صرف نیوکلیئر ایشو تک محدود ہو، کوئی دوسرا ایشو زیر بحث لانا غیر قانونی قرار دیا جائے۔

غالباً ایران میں موجود اس رائے کی وجہ سے صدر حسن روحانی کو خود متعدد مرتبہ یقین دہانی کروانا پڑ رہی ہے۔ اب صدر حسن روحانی کی حکومت آج رائٹر کی اس خبر پر بھی غور فرمائیں، جس میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل ممکنہ معاہدے پر اس وقت تک کوئی رائے نہیں دے گی جب تک کہ امریکی کانگریس اس پر اپنی رائے نہ دے دے۔ امریکی ایوان میں یہ بل منظور ہوچکا تھا کہ کہ اگر 8 جولائی تک معاہدے کا متن امریکی کانگریس کو مہیا کر دیا گیا تو وہ 30 روز تک اس پر رائے دینے کے پابند ہیں اور اگر اس کے بعد یہ متن ان تک پہنچایا گیا تو پھر وہ 60 روز تک اس پر بحث کرکے رائے دینے کا امریکی قانونی حق رکھتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ یورپی ممالک کے واشنگٹن میں مقیم سفارتکار 30 جون تک معاہدہ ہوتا نہیں دیکھ رہے۔ حالانکہ اب روس اور امریکا کے اعلٰی سفارتی عہدیداروں نے بھی کہہ دیا ہے کہ 30 جون کی ڈیڈلائن تک معاہدہ ممکن ہے۔

صدر حسن روحانی کی حکومت پر بھی لازم ہے کہ وہ یہ نکتہ یاد رکھیں کہ ایسا بھی دنیا کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل اپنا فیصلہ امریکی کانگریس کے فیصلے کے بعد کرے گی۔ یعنی ممکنہ نیوکلیئر معاہدہ پر امریکی کانگریس اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے اور اس امریکی ایوان میں جعلی ریاست اسرائیل کے ایجنٹوں اور حامیوں کی اکثریت ہے۔ صدر باراک اوبامہ خود بھی صہیونی ریاست کے طرفدار ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر ڈیل امریکا کے لئے فیس سیونگ کے مترادف ہے اور اس کی آڑ میں موساد کا ایجاد کردہ مصنوعی نیوکلیئر ایشو کے جعلی پن اور کھوکھلے پن کی وجہ سے حاصل ہونے والی طویل ذلت سے نکلنے کا ایک ٹھوس بہانہ مل سکے گا۔

ایران کی حکومت نے تاحال کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے کہ جس کی وجہ سے ان پر انگشت نمائی کی جاسکے۔ جتنی باتیں ہوئی ہیں، وہ خدشات کی بنیاد پر ہیں اور یہ خدشات ایرانی حکومت کے مذاکرات کاروں سے نہیں بلکہ امریکا جیسے مکار دشمن اور اس کے مجبور اتحادیوں کی سازشوں اور دوغلے پن سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی رائے عامہ اور طاقتور قیادت و رہبری کو متعدد مرتبہ خبردار کرنا پڑا ہے۔ صدر حسن روحانی کی حکومت سمیت سبھی کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے یا وسائل کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی اقتصادی مشکلات کا رونا رونے کی بجائے اس کے حل کی راہ تلاش کی جائے۔ امام خامنہ ای نے کہا ہے کہ راہ حل موجود ہے۔ مشکلات سے انکار نہیں، لیکن اس سے نکلنے کی راہ پر چلا جائے۔ صدر روحانی کی حکومت کے بارے میں ایک معتدل رائے رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ نیوکلیئر محاذ پر تاحال یہ مصروف عمل ہے۔ معاہدے کا متن بتائے گا کہ کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی۔ خوش باوری سے منع کیا گیا ہے، لیکن سوئے ظن بھی نہیں رکھا جانا چاہیے، بلکہ حسن ظن رکھا جائے کہ انشاءاللہ ملت ایران کے ایٹمی حقوق محفوظ رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 467063
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش