2
Saturday 27 Jun 2015 18:56

لبرل ازم(2)

آیت اللہ شہید بہشتی ؒ
لبرل ازم(2)
*زیر نظر تحریر شہید مظلوم، شہید عدالت اسلامی و آزادی، آیت اللہ سید محمد حسینی بہشتی ؒ کے لیکچر کا ترجمہ ہے۔ وہ انقلاب کے بعد کے ایران کے پہلے چیف جسٹس تھے۔ 28 جون 1981ء کو بدترین دہشت گردی میں 72 دیگر اہم شخصیات کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ اس عظیم عالم، عارف، مفکر، فلسفی، مدبّر اور خالص و مخلص بندہ خدا کی شہادت پر امام خمینی ؒ نے امام زمانہ، دنیا بھر کے مظلوم و مستضعف ستم رسیدہ انسانوں، ملت ایران اور شہداء کے ورثاء کو مبارک باد اور تعزیت پیش کی۔

ترجمہ: عرفان علی
دوسرے لفظوں میں لبرلسٹ جس آزادی کی بات کرتے ہیں، اس کا فائدہ بس ایک فرد کو ہوتا ہے، دیگر عام انسانوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوسکتا۔ آزادی کا یہ تصور جس کی توثیق لبرل ازم کرتا ہے، یہ یک بعدی (ایک پہلو کا حامل) ہے، جس کا حتمی نتیجہ یہ ہوگا کہ (معاشرے میں) انسان دو طبقوں میں تقسیم ہوجائیں گے، ایک انتہائی دولت مند امیر طبقے پر مشتمل اقلیت، جو خود سے وضع کردہ کئی قسم کی آزادیوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے اور طمانیت و مسرت سے بھرپور زندگی کے مزے اُڑانے میں ہر قسم کی روک ٹوک سے آزاد ہونگے اور دوسرا طبقہ محروم فاقہ کش، ذہنی دباؤ اور کساد بازاری کے شکار انسانوں پر مشتمل اکثریت، جس کے پاس انتہائی کم امکانات ہونگے، کہ وہ ان نام نہاد آزادیوں کا استعمال کرسکے یا ان سے لطف اندوز ہوسکے۔ ہم لبرل مکتب کے پیروکاروں سے پوچھنا چاہیں گے کہ اگر وہ واقعاً یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ عوام الناس جو انتہائی مشکلات سے نبرد آزماہیں، کیا انہیں کوئی بھی ’’آزادی‘‘حاصل ہے؟ کیا یہ محروم و مستضعف اکثریت اپنی آزادی کو دولت مند اقلیت ہی کی طرح استعمال کرنے کے حق کو واقعاً استعمال کرتی ہے؟ آپ لبرل لوگ آزادی چاہتے ہیں لیکن محض پانچ فیصد عوام کے لئے جبکہ پچانوے فیصد اس سے محروم رہتے ہیں۔ اگر آزادی اچھی چیز ہے تو یہ سب کے لئے اچھی ہونی چاہئیے نہ کہ معاشرے کے ایک مخصوص طبقے کے لئے۔ اس قسم کی آزادی کی طرفداری کرتے ہوئے آپ اس حقیقت کا انکار کرنے کے درپے ہیں کہ ’’غربت کفر کی طرف لے جاتی ہے۔"

آپ اس حقیقت کا انکار کرنا چاہتے ہیں کہ غربت و افلاس انسان کو ایسی صورتحال کی طرف دھکیل سکتی ہے، جہاں وہ اللہ کی رحمت اور عدالت پر شک کریں۔ کیا یہ محروم انسان اللہ سے یہ سوال نہیں کرتے کہ کیوں وہ خستہ حالی کا شکار ہیں؟ کیا غربت اللہ کی عدالت پر شک (کی فصل) اُگانے کے لئے زرخیز زمین نہیں ہے؟ ایک مفلس شخص کی جانب سے ایسی شکایت پر کہ اپنی مفلوک الحالی کے باعث وہ عبادت کے لئے کھڑے ہونے کے قابل نہیں، ایک لبرل اس پر ترش روی سے ہنستے ہوئے طنزیہ فقرہ کس سکتا ہے کہ اس کی مالی بدحالی کا سبب یہ ہے کہ وہ جاہل ہے، اس نے تعلیم حاصل نہیں کی اور اگر وہ صاحب علم ہوتا تو وہ اس کے بارے میں ایسے ریمارکس نہ دیتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ علم کا نہ ہونا یا علم کی کمی بھی ایسی شکایات کا باعث ہوا کرتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس نے اعلٰی سطح کی تعلیم حاصل کی ہوتی تو کیا یہی شخص اس مسلط کردہ غربت کے مقابلے میں کاہل الوجودی کا رویہ اپناتا، یا یہ شخص اس کھلی ناانصافی اور عدم مساوات کے خلاف جنگ کرتا۔؟

اگر ہم لبرل ازم کا یقین کے ساتھ انکار کرتے ہیں، اس سے ہمارا ارادہ یہ نہیں ہوتا کہ اس کی بعض خوبیوں اور اچھائی کا بھی انکار کر دیں۔ ہم خود بھی انسان کی افزائش کے لئے انسانی آزادی کی مصلحت اور برتری پر یقین رکھتے ہیں۔ تاہم یہ آزادی کسی خاص گروہ کے لئے مخصوص نہیں ہونی چاہئیے۔ ہر کسی کو اپنی استعداد، لیاقت، فطری صلاحیتوں اور پیش رفت کے اکتشاف کا موقع دیا جانا چاہئیے، نہ کہ کسی مخصوص طبقے کو۔ انتہائی اختصار کے ساتھ، ہم اس آزادی کی توثیق کرتے ہیں جس کا لبرل ازم طرفدار ہے، بشرطیکہ اس آزادی کا اطلاق سب کے لئے ہو اور دوسرا یہ کہ وہ اسلامی قوانین کی متعین کردہ حدود کو نہ توڑیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ الٰہی احکامات مطلق اطاعت کے متقاضی ہیں، خواہ اس کی حکمت اور وجوہات ہمیں معلوم ہوں یا نہ معلوم ہوں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے احکامات کی تعمیل و اطاعت شک و شبہ سے بالاتر ہوکر اور بلا اعتراض کی جانی چاہئیے اور یہ کہ اسلامی برادری الٰہی قوانین کی ادنٰی ترین خلاف ورزی سے بھی غافل نہیں ہوسکتی۔ یہاں انتہائی اہمیت کے حامل ایک نکتے پر غور فرمائیں کہ الٰہی قوانین ہم پر تھونپے (یا مسلط) نہیں کئے گئے ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے، انسان آزاد ہے کہ دین و ایمان کو قبول کرے یا مسترد کر دے۔ قرآن شریف کہتا ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں، ہدایت گمراہی سے علیحدہ ہوچکی ہے۔‘‘ ( بقرہ۔۲۵۶)

لیکن اسلام کو قبول کر لینے کے بعد اس کے قوانین و ضوابط کی مطلقاً رعایت (یعنی پابندی) بھی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’’میں اسلام پر تو اعتقاد رکھتا ہوں، لیکن کیا ہوا اگر میں فجر کی نماز ادا نہیں کرتا یا ماہ رمضان اگر گرمی کے مہینے میں آجائے تو روزے نہیں رکھتا۔‘‘ اس قسم کے انسان مزید پوچھ سکتے ہیں کہ ’’پھر اسلام کس قسم کی آزادی کی توثیق کرتا ہے؟ کیوں کسی کو فحش شو دیکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی؟ ایسے شو دیکھنے کی ad-ibitum اجازت دی جانی چاہئیے۔‘‘ اسی طرح یہ کہ کیا اس قسم کے شو دیکھنے میں انسان آزاد ہو یا نہ ہو۔ ایسے افراد کے لئے آزادی اس میں ہے کہ انسان مخلوط سوئمنگ پول کے مزے لے۔ مذہبی افراد کے لئے، آزادی یہ ہے کہ وہ آزاد ہیں کہ ایسی جگہوں پہ نہ جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مرد و عورت سب کے سامنے کھلے طور پر ظاہر و آشکار ہونے میں آزادہوں یا کام کرنے کی جگہوں (دفاتر وغیرہ) میں نازیبا و نامناسب بھڑکیلے لباس پہننے کی آزادی ہو، بالکل اسی طرح جیسے متقی عورت اپنی مرضی کے مطابق لباس پہننے میں آزاد ہونی چاہئیے۔ میک اپ زدہ خواتین کو معاشرہ میں مردوں کے ساتھ گھلنے ملنے کی آزادی دی جانی چاہئیے۔ مرد بھی اس معاملے میں آزاد ہونے چاہئیں کہ وہ ایسی خواتین پر نگاہ ہی نہ کریں۔‘‘

یقیناً ہم اس قسم کی آزادی کے مخالف ہیں۔ یہ لفظ آزادی نہیں ہے جس پر ہمارا لبرل لوگوں سے اختلاف ہے۔ اختلاف کی ایک ٹھوس وجہ ہے۔ ہم جو بات سب کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ لبرل ازم کے اصلی مرکز یورپ میں اس نوعیت کی ’’لبرل‘‘ عملی مشقوں کی علامتیں پائی گئیں۔ اسی لئے اگر ابھی جمہوری اسلامی میں لبرل افراد کے اقتدار میں آنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں تو یہ اسی وجہ سے ہے کہ ہم لبرلسٹک نظریات کی حتمی شکل و صورت کو ان نظریات کی جائے پیدائش میں دیکھ چکے ہیں اور آج بھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں یہ راہ انسان کو اخلاقی فساد کی طرف لے جاتی ہے، نہ کہ وہاں جہاں انسان اپنے فطری رجحانات و استعداد کی درستگی کرسکتا ہو۔ (اور نہ ہی وہاں) وہ پختہ انسانی اقدار کے ثمر سے استفادہ کرسکتا ہے۔ کیا ایسے آزاد خیال معاشرے میں کہ جہاں انسان آشکار و پنہان ہوکر شہوت پرستی اور فحاشی کی زد میں ہو، واقعاً آزاد ہوسکتا ہے۔

یہ لفظ نہیں ہے جس پر ہمارے تنازعے کی بنیاد ہے۔ جب تک کوئی اللہ تعالٰی کے احکامات پر عمل پیرا رہتا ہے تو ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ خود کو لبرل کہتا ہے یا نان لبرل۔ اسلامی قوانین اور اصولوں پر ایمان کا زبانی یا تحریری اقرار کافی نہیں ہے۔ یہ انسان کا نیک عمل ہے جو شمار کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی دفتر کا سربراہ امتیازات، ظلم و ستم اور مالی و اخلاقی فساد کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے اور اپنے ماتحتوں کے لئے تقویٰ، عدالت، پاکبازی، شائستگی اور اللہ تعالٰی کے احکامات کی پیروی کا فرمان صادر کرتا ہے تو اس کی سیاسی وابستگی اور نظریات سے قطع نظر واقعاً وہ ہمارے لئے انتہائی محترم ہے۔ ہم انسانی برادری کے لئے کئی معاشرتی حدود و قوانین کی ضرورت کے سختی سے قائل ہیں۔ ہماری نظر میں ایسے قوانین درج ذیل بنیادوں پر وضع کئے جانے چاہئیں:
*(۱):۔ اللہ کے دین پر ایمان۔ یہ وہ مرکزی عامل ہے جو دینی احکامات اور قوانین پر عمل کرنے کے انسانی یقین پر اثر انداز ہوتا ہے۔
*(۲):۔ حکومت اور معاشرتی اداروں کی جانب سے قانون کا وضع کیا جانا اور اس کا نفاذ۔ انتہائی معصومیت ہوگی کہ یہ فرض کر لیا جائے کہ ہر شخص اپنے شعور و ایمان کی وجہ سے خود بخود قانون کی اطاعت کرتا ہے۔ اگر انسان قانون کی خلاف ورزی کرے، قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ادارے ہوں، جو ایسے افراد کو روکیں۔

اسلامی نظریات کے مطابق قانون کا نفاذ حکومت سے مخصوص ایک حق ہے۔ اس ضمن میں ایک خامی کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا، جو انقلاب کے چاہنے والوں اور طرفداروں سے نادانستہ طور پر سرزد ہوتی ہے اور جس کی آڑ لے کر نقّاد انقلاب اسلامی پر اس الزام کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں کہ ملک میں آزادی کو کچلا جا رہا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے کہ جب انقلاب کے حامی حکومت کے فرائض کی ادائیگی میں مداخلت کرتے ہیں اور ایسے کام انجام دیتے ہیں جو حکومتی اداروں کے متعلقہ حکام کو کرنے چاہئیں۔ ایسے لوگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ذمہ دار اداروں کو ان کے فرائض کی ادائیگی کرنے دیں۔ اگر ایک فرد اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو بحیثیت مسلمان ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اسے روکنے کی کوشش کریں، لیکن ایسا کرتے وقت ضروری ہے کہ ان شرائط پر عمل کریں جو اسلامی فقہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فرض کی ادائیگی کے لئے متعین ہیں۔

اس اصول کے کئی درجات اور مرحلے ہیں، جس میں درج ذیل بھی شامل ہیں۔
الف:۔ ہر ایک کو معروف کی ہدایت کرنی چاہئیے اور منکر سے انتہائی شدت کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے نفرت کرنی چاہئیے۔ (ایسا ایسے معاملات میں ہوتا ہے کہ جب انسان کسی مجرم کے خلاف کچھ بھی کرنے کے قابل نہ ہو)۔
ب:۔ اچھائی کے مقابلے میں طمانیت و مسرت اور برائی کو دیکھتے ہوئے ناراضگی انسان کے چہرے سے ظاہر ہونا چاہئیے۔ (مثال کے طور پر نیک اعمال کے لئے پسندیدگی اور قبولیت کے اظہار کے طور پر مسکراہٹ اور بداعمالی پر خشمناک نظر اور برہمی)۔
ج:۔ نیکی کی پرزور اور بھرپور حوصلہ افزائی میں مصروف رہے۔ اسی طرح بداعمالی کرنے والے کے مواخذے (احتساب) کے لئے کھلے عام تنقید بھی کرے۔
د:۔ اس مرحلے میں کسی حد تک عملی قدم اُٹھائے اور بداعمالی کرنے والے کسی شخص کو براہِ راست متنبہ کرے۔

ہ:۔ پانچواں مرحلہ ان مواقع سے متعلق ہوتا ہے جب عدالت و نیکی پر عمل کرنے کے لئے مصلحت اس میں ہو کہ طاقت کا استعمال کیا جائے، تاکہ ظلم و ستم اور برائی کو روکے۔ اس مرحلے میں اسلامی قوانین پر عمل کرنے کی ذمہ داری مذکورہ فرائض کے ذمے دار اداروں پر عائد ہوتی ہے اور اس کے لئے لازمی ہے کہ افراد اور گروہ کسی بھی قسم کی غیر متعلقہ کارروائی سے گریز کریں۔ اگر غیر حکومتی افراد اور گروہ ایسے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں گے تو انقلاب کے دشمنوں کو یہ حوصلہ ملے گا کہ وہ ناجائز اور گمراہ کن الزامات لگائیں کہ ملک افراتفری، ابتری کا شکار ہے اور اسلامی قانون و نظم و نسق مفقود ہوچکا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایسے الزامات مکمل طور پر بے بنیاد محسوس نہیں ہوتے۔
برادران و خواہران! اللہ کے قوانین کی حفاظت اپنی پوری قوت و طاقت، آگاہی و بیداری و ہوشیاری کے ساتھ کریں۔ آیئے سب اسے اپنا فرض سمجھیں کہ نیکی اور اچھائی کا نفاذ کریں، برائی کو روکیں، حق و عدالت کی حمایت کریں اور فساد، ظلم و ستم اور جھوٹ و افتراء کے خاتمے کی جنگ لڑیں۔ اس واجب کی ادائیگی کے لئے، ہم ہر صورت میں اپنی اعلٰی اسلامی میراث کے پابند رہیں، تاکہ عظیم اسلامی انقلاب کے خلاف پروپیگنڈہ اور مخالفت کے لئے دشمنوں کو کوئی بہانہ ہی نہ مل سکے۔

اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے میں پھر ایک مرتبہ ان بڑے نکات کو بیان کرنا چاہوں گا؛
*(۱):۔ اسلام انسانی آزادی کو انسانی وجود کا سب سے ارفع و اعلٰی پہلو سمجھتا ہے۔ انسان خالق کا دمکتا ہوا ہیرا ہے، چونکہ اللہ نے اسے آزادی و دانائی تحفے میں دی ہے۔
*(۲):۔ اسلام بڑی حد تک اس کا قائل ہے کہ آزاد اور عالم انسان بہترین طور پر یہ وسعت رکھتا ہے کہ اس راہ کا تعین کرے، جو اسے نمو اور فطری رجحانات و استعداد کی ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔ اسلام انسان پر زور دیتا ہے کہ وہ اس راہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے (تکامل) کی طرف اپنے اندرونی رہنما یعنی عقل کے ذریعے حرکت کرے۔
*(۳):۔ اپنے تجزیہ کرنے والے ذہن کے ہمراہ انسان وحئ الہٰی، نبوت، کتاب خدا اور انبیاء کی روایات (سنت) میں ایک اور عظیم سرچشمۂ علم کو دریافت کرتا ہے۔ اس طرح انسانی علم کے سوتے محض استدلال سے حاصل کردہ ذہنی ادراک سے نہیں پھوٹتے، بلکہ اس میں وہ علم بھی شامل ہوتا ہے جو وحئ الٰہی کے ذریعے القاء کیا جاتا ہے۔
*(۴):۔ جب ایک مرتبہ انسان کو تخلیق کے بارے میں ارادہ و مقصد الٰہی کا ذہنی ادراک ہوجاتا ہے تو پھر وہ زندگی کے قوانین بنانے کے لئے محض اپنی عقل سلیم پر انحصار نہیں کرتا۔ عقل قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے لیکن یہ وحئ الٰہی ہی ہوتی ہے جو انسان کے عقلی افکار اور مشاغل کی بنیاد کے طور پر اس کی مدد کرتی ہے۔ لہٰذا اسلامی نظام میں سارے قوانین و آرڈینینس وحئ الٰہی سے برآمد ہوتے ہیں۔ پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ انسانی عقل کا کردار قوانین کی تشریح اور ان میں باقاعدگی پیدا کرنا ہے۔

*(۵):۔ اسلام انسان کو آزاد وجود سمجھتا ہے۔ اسی لئے یہ انسان پر زور دیتا ہے کہ وہ کسی بھی حال میں فساد کے آگے نہ جھکے۔ اسلام انسان پر واجب قرار دیتا ہے کہ وہ فساد کے مرکز کو تباہ کر دے یا اس سے لڑتے ہوئے جان دے دے، یا کم از کم اس جگہ سے ہجرت کر جائے جہاں فساد پر مبنی اعمال کا غلبہ ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اسلام معاشرے کے افراد پر فسادی اور ظلم و ستم پر مبنی معاشرتی نظام کے مرتب کردہ اثرات سے لاتعلق اور بے حسی برتتا ہے۔
*(۶):۔ اسلامی نقطہ نظر کی روشنی میں انسان کو اگرچہ آزاد تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس پر بعض معاشرتی حد بندیاں بھی لاگو ہوتی ہیں۔ وہ آزاد تو ہے مگر الٰہی قوانین کی حدود اور فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے آزاد ہے۔
*(۷):۔ جمہوری اسلامی میں فسادی، ظلم و ستم پر مبنی جارحانہ طرز عمل کو روکا جائے گا اور اس کی قرار واقعی سزا بھی فقیہ کی جانب سے دی جائے گی۔ ان کا روکا جانا محض تقویٰ اور شعور کے اشاروں تک محدود نہیں ہے۔
*(۸):۔ جمہوری اسلامی میں امن عامہ بنیادی طور پر ایمان اور انسانی شعور پر قائم ہے اور ثانوی طور پر ایک طاقتور حکومت پر۔
*(۹):۔ اسلامی ماحول میں پلنے بڑھنے والا مسلمان ظلم و ستم اور فساد کا دافع ہوتا ہے، وہ کبھی بھی ان معاملات سے لاتعلق نہیں رہے گا۔ یہ مومنین اور مبارز انسانوں پر مشتمل ایک برادری ہے جو ہمیشہ فساد کے خلاف ردعمل کرے گی اور یہی معاشرے کی وہ قسم ہے جو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں۔

*(۱۰):۔ اللہ کے قوانین کی تشریح ایک ایسا فرض ہے جو شجاع، عادل اور زمانے کے حالات و واقعات اور تقاضوں سے مکمل طور پر آگاہ جامع الشرائط مرجع تقلید کے دوش پر ہے۔ یہ کام ایک عام انسان کر ہی نہیں سکتا، کیونکہ وہ اسلامی قوانین کی غلط تشریح بھی کرسکتا ہے۔ اگرچہ آزادئ اظہار ہر فرد کا حق ہے، حتمی حکم اور معیار کا فیصلہ اسلامی فقہ کا ماہر، متقی، عادل، شجاع اور حالات حاضرہ سے مکمل طور پر آگاہ و باخبر عالم مرجع تقلید کرے گا۔ الٰہی قوانین کی تشریح میں ہماری اسلامی برادری ایسے دینی رہبر و قائد کی رائے کی پیروی کرے گی۔ اس طرح ہماری برادری کی واضح اور شفاف قطعی پالیسی ہوگی۔ ہمیں اس کی فکر نہیں کہ کوئی ہمارے اس معاشرے کو لبرل کہے یا نان لبرل۔ نام نہیں بلکہ اصلِ حقیقت ہے جو اہمیت رکھتی ہے۔
برادران و خواہران! ہمیں زیادہ سے زیادہ اس قسم کے اجتماعات میں شرکت کرنا چاہئیے اور ٹھوس، واضح اور حتمی بنیادوں پر اسلامی ایشوز کی اصلِ حقیقت (جوہر) کو زیرِ بحث لانا چاہئیے، ورنہ جھوٹ گھڑنے والوں کے ساتھ ناموںُ جیسے سطحی ایشوز پر ہم کنفیوژن میں پھنس جائیں گے۔ نام تو غیر اہم ہے اور ناموںُ سے بے خوف ہو کر ہمیں ہمارے اسلامی انقلاب کے خالص اور non-eclectic جوہر اصلی کو کلیت کے ساتھ محفوظ رکھنے کے لئے بس ’’جوہر اصلی‘‘ پر توجہ دینا چاہئیے۔
خبر کا کوڈ : 468831
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش