0
Wednesday 8 Jul 2015 13:35

بیت المقدس کی آزادی کو لاحق خطرات؟

بیت المقدس کی آزادی کو لاحق خطرات؟
تحریر: ارشاد حسین ناصر

اس وقت دنیا جتنے بھی مسائل کا شکار ہے، اس میں سب سے دیرینہ مسئلہ فلسطین ہے، اس کا تعلق چونکہ امت مسلمہ سے ہے، امت مسلمہ میں نااتفاقی اور پراگندگی نیز مسلم حکمرانوں کی غافلانہ نیند کے باعث یہ آج بھی امت مسلمہ کی غیرت کا امتحان بنا ہوا ہے، فلسطین کے دارالخلافہ بیت المقدس میں امت اسلامیہ کا اولین قبلہ موجود ہے، اس کو اسرائیل کے نجس پنجوں سے چھڑوانے کیلئے کئی جنگیں ہونے کے باوجود واپس نہیں لیا جاسکا۔ ارض مقدس فلسطین، سرزمین انبیاء ہے، جسے صیہونی عزائم کی تکمیل کیلئے یہود و نصاریٰ نے ملکر امت اسلامی سے چھین لیا ہے، اس پر ناجائز قبضہ کو سڑسٹھ برس ہوچکے ہیں، دنیا آج مختلف عنوانات کے تحت عالمی سطح پر ایام مناتی ہے، تاکہ اس چیز یا شخصیت یا مسئلہ کو عالمی سطح پر پہچنوایا جاسکے۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے جمعۃالوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیا تھا اور اس روز کی اہمیت اس قدر آشکار فرمائی کہ اسے یوم الاسلام اور یوم اللہ قرار دیا، امت اسلامی کو اسے شایان شان طریقہ سے منانے کی بھی بھرپور تاکید فرمائی۔ انہوں نے فرمایا کہ جو اس دن کو نہیں مناتا وہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر مسلمان ملکر ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیل میں گرا دیں تو اسرائیل اس میں غرق ہو جائے گا، تمام تر سازشوں کے باوجود آج اس یوم کو دنیا بھر میں بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔ انبیاء کی سرزمین فلسطین اور قبلہء اول بیت المقدس پر صیہونیوں کے ناجائز قبضہ کو سڑسٹھ برس گذر چکے ہیں۔ 15 مئی 1948ء کو دنیا پر ناجائز وجود پانے والی ریاست کو امام راحل امام خمینی نے مسلمانوں کے قلب میں خنجر سے تعبیر کیا تھا اور امت کو اس کی آزادی کی راہ جہاد کی صورت دکھائی تھی، مگر خائن عرب حکمرانوں نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے تسلیم ہونے کی ذلت کو گوارا کیا، نتیجتاً ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان اسی طرح دربدر ہیں…

بانی انقلاب امام خمینی نے ایران میں اسلامی انقلاب لانے اور استعمار کو زبردست شکست دینے کے بعد عالمی سطح پر اسلامی کیلنڈر کے ایک اہم ترین دن جمعۃالوداع کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا، تاکہ مسئلہ قدس، امت اسلامی فراموش نہ کر دے اور اس کے ساتھ ہی فلسطینی مجاہدین کی کھلی حمایت و مدد بھی شروع کی۔ ایران کی طرف سے مظلوم فلسطینیوں کی مکمل سرپرستی کی گئی اور انقلاب آنے کے بعد ایران میں تہران میں قائم اسرائیلی سفارت خانہ کو فلسطین کی نمائندہ تنظیم آزادی فلسطین کے سپرد کر دیا گیا۔ ایران کی طرف سے مدد کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، وہ اس وقت بھی عالمی استعمار اور اسرائیل کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے، جس کے نام سے ان کی روح و جسم میں لرزا طاری ہو جاتا ہے… اگر مسلمان حکمران ایران کی طرح فلسطینی حریت پسندوں کا ساتھ دیتے تو اسرائیل کا وجود یقیناً دنیا سے مٹ چکا ہوتا، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سڑسٹھ برس عالم اسلام کی اجتماعی بے حسی اور مظلوم فلسطینیوں سے مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رویوں کی طویل اور دردناک داستانوں سے بھرا ہوا ہے، تو دوسری طرف یہ سڑسٹھ برس ظلم و بربریت وحشت و درندگی کی قدیم و جدید تاریخ سے بھرپور اور سفاکیت کے انمٹ مظاہروں کی پر درد و خوفناک کہانیوں کے عکاس ہیں……

ان سڑسٹھ برسوں میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہر دن قیامت بن کر آیا ہے، ہر صبح ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوئی، ہر لمحہ بے گناہوں کے خون سے، گھر بار، سڑکیں، بازار، مساجد و عبادت گاہیں، سکول و مدارس کو رنگین کرنے کا پیامبر بن کر آیا ہے…… ناجائز ریاست اسرائیل کے حکمرانوں نے ان سڑسٹھ برسوں میں خون آشامیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے، اس کی مثال تاریخ کے صفحات بیان کرنے سے قاصر ہیں…… کون سا ظلم ہے، جو بے گناہ، معصوم اور مظلوم قرار دیئے گئے ارض مقدس فلسطین کے باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا…… آج فلسطین کی دختران کی عزتوں کی پائمالی کا حساب نہیں، کتابیں اور بیگ اُٹھائے سکول جاتے معصوم بچوں پر بموں کی یلغار اور گولیوں کی بوچھاڑ کے واقعات سے کئی دفتر مرتب ہوچکے ہیں، سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے تعلیمی اداروں میں جانے والے، والدین کی اُمید، نوجوانوں کی خون میں اٹی لاشیں اور نوحہ و ماتم کرتی مائوں اور بہنوں کی چیخ و پکار اور نالہ و فریاد کے مناظر دنیا کے باضمیر انسانوں کو ہر روز جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں……!

اگر ہم فلسطین کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سازش گروں کی طرف سے ایک اعلان 2 نومبر 1917ء کو سامنے آیا اور اس میں سرزمین فلسطین یہودیوں کو بطور قومی وطن عطا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اس وقت یہ سازش عملی شکل اختیار کر گئی جب دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کے قلب میں واقع اسرائیل نامی ناجائز صہیونی ریاست کا اعلان 15 مئی 1948ء کو کیا گیا۔ تسلط و طاقت کے فلسفہ پر قائم اس ناجائز ریاست کے ساتھ ہی ظلم و جور اور سفاکیت و بربریت کا یہ سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہوجاتا ہے۔ توسیع پسند و تسلط و طاقت کے نشہ میں مدہوش اسرائیل نے 1967ء میں تمام فلسطین پر قبضہ کرلیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا۔ یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن، لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، مگر سامراجی اور استعماری ہتھکنڈوں نے انہیں یہاں سے بھی نکالنے کی سازش کی، چنانچہ ستمبر 1975ء میں اردن کی شاہی افواج نے یہاں پر مقیم فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کر دی۔ ان کا قتل عام کیا گیا، اس کے بعد ان فلسطینیوں کو لبنان میں پناہ پر مجبور کر دیا گیا۔ اس بھیانک ظلم کو سیاہ ستمبر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔

درماندہ، ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے اور اپنے وطن، گھر اور آبائی سرزمین کے حصول کی خواہش رکھنے والے فلسطینیوں نے استعماری سازشوں کا مقابلہ اور اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کارروائیاں جاری رکھیں۔ دوسری طرف اسرائیل کو عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے بہت زیادہ مالی و فوجی امداد دی اور ہر قسم کا تعاون کیا، حتٰی کہ اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرنا بھی امریکہ نے اپنا وطیرہ بنا لیا جبکہ امریکہ، اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد بھی نہیں ہونے دیتا…… اس کشمکش میں اسرائیل نے لبنان پر بھی حملے کئے اور لبنان کے کئی علاقوں پر بھی قابض ہوگیا۔ یوں تحریک آزادی فلسطین کے بعد مزاحمت اسلامی لبنان نے بھی جنم لیا اور اسرائیل کی توسیع پسندی و تشدد پسندی کے خلاف قربانیوں کی داستانیں رقم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔

ایک طرف تویہ ظلم و ستم بڑھتا رہا اور دوسری طرف ظلم و سازشوں اور اپنوں کی بزدلی و منافقت کے شکار ارضِ مقدس فلسطین اور لبنان کے باسیوں میں ظالموں جابروں، ستم گروں اور منافقوں سے نفرت اور حقیقی قیادت و صالح مقاصد کے حصول کا جذبہ فروغ پاتا رہا۔ لبنان میں امریکی، فرانسیسی اور صیہونی فوجیوں کے خلاف خودکش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ لوگ دُم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور فلسطین میں جہادی تحریکوں نے رفتہ رفتہ زور پکڑا اور آپس کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر غاصب یہودیوں کے خلاف کارروائیوں کو تیز کیا…… اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نہتے فلسطینیوں کی پتھر سے شروع ہونے والی تحریک غلیل سے ہوتی ہوئی کلاشنکوف اور راکٹ لانچر کے بعد میزائلوں تک پہنچ چکی ہے۔ سڑسٹھ برس میں فلسطینیوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں، بارود کی بارش میں، تاراجی اور بربادی میں، منافق اور بزدل لیڈروں، استعماری سازشوں، خوراک کی قلت، محاصرے، گھروں سے نکالے جانے اور مہاجر بنا دیئے جانے میں کیسے زندہ رہنا ہے اور اپنی مظلومیت کو اپنی طاقت میں کیسے بدلنا ہے۔ استعمار کے مسلط کردہ حکمرانوں سے کیسے نمٹنا ہے اور استعمار کو کیسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کرنا ہے۔ شہادتوں کو کیسے اپنی قوت اور طاقت میں تبدیل کرنا ہے۔ درد کو کیسے دوا بنانا ہے۔

مگر ہم اس وقت مسئلہ فلسطین کی راہ میں جہاں سب سے بڑی رکاوٹ امت کی نااتفاقی اور تفرقہ کو سمجھتے ہیں، وہاں اسلام کے نام پر پروان چڑھنے والی تکفیری سوچ اور اس کے حامل گروہوں کی تشکیل، جن کی برملا پشت پناہی اسرائیل کر رہا ہے، یہ خطرہ بھی بہت بڑا خطرہ درپیش ہے۔ آج ارض مقدس فلسطین میں ایسے تکفیری گروہ حقیقی جہاد کی روح کے خلاف کام کرتے ہوئے جہاد کے تقدس کو پائمال کر رہے ہیں اور امت کی مشکلات میں اضافہ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی گروہوں کی وجہ سے کئی مسلم ممالک آفات کا شکار ہیں۔ اہل غزہ پر بھی اس گروہ نے یلغار کرنے کا اعلان کیا ہے، جسے کسی بھی صورت میں ناکام بنایا جائے۔ مزاحمت اسلامی حماس کا غزہ پر اثر و رسوخ اس تکفیری ایجنٹ گروہ سے برداشت نہیں ہو رہا، اسی لئے اس کے بعض باغیوں نے حماس سے غزہ چھین لینے کا اعلان کیا ہے، جو کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہے۔ کیا یہ قابل قبول ہے کہ اسرائیل کی طرح داعش نامی دہشت گرد ٹولہ جو اپنی سفاکیت سے ہی یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس کے پیچھے یہودی ذہن اور پیسہ کارفرما ہے، یہ دہشت گرد ٹولہ اگر غزہ یا مقبوضہ فلسطین میں قوت حاصل کر گیا تو فلسطینیوں کی لاشیں بجلی کے کھمبوں سے لٹکی نظر آئیں گی، اس کے بعد شائد اسرائیل کو کسی بمباری یا تجاوز کی ضرورت نہیں رہیگی۔

فلسطینیوں کی تاریخ جہاد و شہادت سے رقم ہے، اتنا طویل پر کٹھن سفر طے کرنے والی ملت مظلوم فلسطین نے مزاحمت اور جہاد و شہادت کے جوہر عظیم کی شناخت کے بعد یہ عزت و سعادت کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ارض فلسطین کی آزادی کیلئے ان سڑسٹھ برسوں میں ہزاروں قیمتی لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں، ان میں عام لوگ بھی ہیں اور تحریک آزادی کے قائدین اور مجاہدین بھی۔ گذشتہ برسوں میں ڈکٹر فتحی شقاقی، شیخ احمد یٰسین، ڈاکٹر رنتیسی اور حماس و جہاد اسلامی کے کئی قیمتی و برجستہ قائدین کی عظیم قربانیوں نے شجاعت کی جو داستانیں رقم کی ہیں، وہ نئی نسل کیلئے مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ آج فلسطین کے اندر یا باہر پیدا ہونے والے فلسطینی بچے کو جہاد و شہادت کی گھٹی دی جاتی ہے، ان کے کانوں میں شہادت و جہاد کے شعار کی اذان دی جاتی ہے۔ فلسطین کی عظیم مائیں ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی سازشوں، ظلم و تشدد اور منافقت کے پروردوں کی غداری کے باوجود یہاں پر ارضِ مقدس فلسطین کی آزادی اور یہودیوں کو یہاں سے مکمل طور پر نکال باہر کر دینے کے جذبات اور احساسات غالب آچکے ہیں۔ آج ہر فلسطینی بچہ، بزرگ، نوجوان، خواتین اس عزم پر آمادہ و تیار نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں لیکن ارضِ مقدس فلسطین پر ناپاک صہیونی قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، اپنی دھرتی کا ایک ایک انچ اسرائیلی قبضے سے آزاد کرائیں گے اور تکفیری گروہ کی سازشوں کو ہر حال میں ناکام بنائیں گے۔ اہل فلسطین کو آج جس قدر حکمت، تدبر اور وحدت کی ضرورت ہے، اس سے پہلے شائد نہ تھی۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنے مقصد کے حصول کیلئے قربانیاں پیش کرنے اور جانوں پر کھیلنا سیکھ جاتی ہیں، انہیں زیادہ دیر تک غلام اور زیر نگیں نہیں رکھا جاسکتا۔ اسرائیل کی لبنان پر تینتیس روزہ جارحانہ جنگ اور جدید ترین وسائل کیساتھ بے دست و پا تنظیم حزب اللہ سے بدترین و شرمناک شکست اور غزہ کی محصو ر و مجبور تنظیم حماس سے بائیس روزہ جنگ میں شکست سے اسرائیل کا ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹ چکا ہے۔ ان جنگوں کے بعد ہی اسرائیل نے یہ پالیسی اختیار کی ہے کہ اب ڈائریکٹ حملوں کی بجائے انہیں باہمی جھگڑوں میں الجھا دیا ہے، اس مقصد کیلئے مسلمانوں کے درمیان سے ایسے عناصر کو اپنے ساتھ ملایا ہے، جو ان کے مقاصد کی تکمیل کیلئے ہر حد سے گذر جانے پر تیار ہوتے ہیں۔ مشرق وسطٰی بالخصوص عرب ممالک میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی اور بڑھتے ہوئے مظالم اسرائیلی پالیسی کا نتیجہ ہیں۔ بدقسمتی سے یہ کام اسلام کے نام پر سرانجام دیا جا رہا ہے، جس کا راستہ روکنا ہوگا، ورنہ فلسطین کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔

ارض مقدس کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی کیلئے ضروری ہے کہ امت میں اتحاد و وحدت کا چلن عام ہو، قبلہ اول امت کے اتحاد کا مظہر ہے تو امت کا اتحاد ہی بیت المقدس کی آزادی کی نوید بن سکتا ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ فلسطین و بیت المقدس کی آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا کہ یہی ارادۂ الٰہی اور منشائے پروردگار ہے۔ وہ ظالموں کو نابود کرتا ہے، فرعون و نمرود کو اس کے انجام سے دوچار کرتا ہے۔ شداد کو اس کی بنائی ہوئی جنت سے محروم کرتا ہے، صیہونیوں نے بھی فلسطین کو اپنی جنت بنانے کی سازش کی ہے، امت انہیں اس میں غرق کر دے، بس باہمی اتحاد و یکجہتی و فروغ ملنا چاہیئے، اللہ نے کمزوروں اور مستضعفوں کو حکمرانی دینے کا وعدہ کر رکھا ہے اور ہمارے لئے ایسی بہت سی مثالیں بھی قائم کی ہیں، تاکہ ہم حوصلہ نہ ہاریں، ہمت نہ ہاریں، دشمنان خدا کو نابود کرنے کیلئے حکم و امر الٰہی کو عملی کریں، انشاٗءاللہ قدس آزاد ہو کر رہیگا۔
نوٹ: اس مرتبہ عالمی یوم القدس 22 رمضان المبارک کو پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے، چونکہ کئی ممالک میں رمضان المبارک کے چاند کے فرق کیوجہ سے 29 رمضان المبارک کے دن عید کا امکان ہے۔
خبر کا کوڈ : 472356
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش