0
Friday 7 Aug 2015 15:03

صادق آل محمدؐ

صادق آل محمدؐ
تحریر: سید اسد عباس تقوی

امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن امام علی علیہم السلام کا نام جیسے ہی سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو بجائے اس کے کہ ذہن انسانی میں اہل بیت کی ایک نورانی کڑی کا تصور ابھرے، عمومی ذہن میں فقہ جعفریہ کے امام کا تصور ابھرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسلام کی فقہی بصیرت اور شناخت کے حوالے سے بہت سے گوشوں میں کلی اور جزئی راہنمائی مہیا کی ہے، تاہم وہ معروف معنٰی میں کسی نئی فقہ کے بانی نہ تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو فقط فقہ کا امام سمجھنا اور ان کا موازنہ دیگر آئمہ فقہ سے کرنا، علمی اور خارجی حقائق کے تناظر میں کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو اسے تاریخ کے ابواب ہائے پارینہ میں امام ابو حنیفہ کی لو لا السنتان کی صدا چونکا دے گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی تمام عمر مقام یعلمھم الکتاب والحکمۃ اور مسند یزکیھم پر جو کہ انہیں ان کے جد امجد محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ورثہ میں ملی تھی گزاری۔ آپ عارف اسرار نبوت و رسالت تھے، ایسا کیونکر نہ ہو، عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے جسے مولانا شبلی نعمانی نے اسی مناسبت سے ذکر کیا ہے، صاحب البیت ادری بما فی البیت (گھر والا گھر کے بارے میں زیادہ آگاہ ہوتا ہے)۔

تاریخ بتاتی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے خوشہ چینوں میں مختلف شعبہ ہائے علم کے سینکڑوں ماہرین تھے۔ آپ سے کسب فیض کرنے والے ماہرین علوم مروجہ و غیر مروجہ کی تعداد تقریباً چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے دادا امام علی بن حسین اور اپنے بابا امام محمد باقر کا زمانہ پایا اور ان سے کسب فیض کیا۔ بھلا ہو اہل مغرب کا جو سائنسی علوم میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے مختلف نظریات پر تحقیق کے بعد ہمیں بتایا کہ جعفر صادق (ع) کے دیئے ہوئے سائنسی و علمی نظریات آج تقریباً تیرہ سو سال گزرنے کے بعد حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ مغربی سائنسدان نہ صرف امام جعفر صادق کی علمی برتری کے قائل ہوئے بلکہ انہوں نے ہم مسلمانوں کو بھی بتایا کہ آپ کے مابین جعفر صادق (ع) جیسی شخصیات نے جنم لیا ہے، جنہیں ہم نے فقہ و کلام تک محدود سمجھ لیا تھا۔

معروف مصنف اور دانشور ڈاکٹر محسن نقوی اپنی کتاب ''امام جعفرِ صادق(ع) اور ان کا عہد'' میں امام جعفر صادق (ع) کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں: امام کی حیاتِ طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ بشریت کو بھی اس قد آور شخصیت نے اپنے علم و عمل سے انسانیت کو کس قدر فیض بخشا ہے۔ اس کا اندازہ امام سے متعلق ان آراء سے ہوسکتا ہے، جن کا اظہار مختلف مفکرین نے وقتاً فوقتاً کیا ہے، اس کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں۔
کمال الدین محمد بن طلحہ یعنی امام شافعی نے اپنی کتاب ''مطالب السؤل'' میں امام کے متعلق لکھا ہے: زمین نے کسی فقیہ کو نہ اٹھایا، آسمان نے کسی فقیہ پر سایہ نہ کیا، جو جعفر (ع) صادق سے بڑھ کر ہو۔ انہوں نے اپنے علم دانش سے دوسروں پر فیوض کی بارش کی۔ ان کے علم اور اخلاق سے صفاتِ انبیاء عیاں تھیں۔
امام ابو حنیفہ کا یہ قول مشہور ہے: اگر میری زندگی کے وہ دو سال نہ ہوتے (جو میں نے امام صادق(ع) کی خدمت میں گزارے) تو میں ہلاک ہو جاتا۔

ابن خلکان رقم طراز ہیں: آپ مذہب امامیہ کے بارہ اماموں میں سے ایک ہیں۔ آپ اہلِ بیت کے سردار تھے، سچی گفتگو کی بناء پر صادق کا لقب دیا گیا۔
ابنِ حجر مکی نے صوائق محرقہ میں بیان کیا ہے: تمام بلادِ اسلامیہ میں ان کے علم و حکمت کا شہرہ تھا۔
علامہ شہرستانی کے بموجب: وہ علم دین و ادب کا سرچشمہ، حکمت کا بہر ذخار، زہد و تقویٰ میں کامل اور عبادت و ریاضت میں بلند پایہ رکھتے تھے۔
قاہرہ یونیورسٹی کے کلیہ ادب کے پروفیسر سید محمد صادق نشاۃ لکھتے ہیں: امام جعفرِ صادق (ع) کا گھر یونیورسٹی کی طرح تھا، جس میں حدیث، تفسیر، حکمت اور کلام کے علماء کا مجمع ہوتا تھا۔ اکثر اوقات آپ کی مجلس درس میں دو ہزار اور کبھی کبھی چار ہزار تک مشہور علماء حاضر ہوتے تھے۔
مشہور محقق و مفکر ڈاکٹر احمد امین المصری کے بقول: شریعت شیعی کی اس عہد کی سب سے بڑی شخصیت بلکہ یوں کہا جائے کہ مختلف فرقوں کی سب سے بڑی شخصیت امام جعفر صادق (ع) کی ہے۔ (دائرۃ المعارف، قاہرہ یونیورسٹی)۔

ڈاکٹر محسن نقوی مزید لکھتے ہیں: ایک درخت اپنے پھل سے، ایک آدمی اپنے ساتھیوں سے اور ایک استاد اپنے شاگردوں کی صلاحیتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ امام صادق (ع) کے شاگرد اور اصحاب کی ایک طویل فہرست ہے، ان میں چند معروف نام آبان بن تغلب، ہشام ابن الحکم، مفضل بن عمر، حماد بن عیسٰی، زرارۃً بن اعین، محمد بن علی المعروف مومن طاق اور آخر میں لیکن بہت قابل احترام جابر بن حیان ہیں۔ جابر بن حیان مغرب میں بابائے کیمیا کے عنوان سے معروف ہیں۔ ان کو کہیں گیبر، کہیں جیبر اور کہیں جابر لکھا گیا۔ جابر کی اپنے استاد امام جعفر صادق (ع) سے وارفتگی کے سبب ہی مغربی سائنسدان اس جانب متوجہ ہوئے کہ امام کے دیئے ہوئے تمام تر نظریات کو آج کے علوم کے ماہرین کے ذریعے پرکھا جائے۔ یہ تحقیق جو اسی کی دہائی میں مکمل ہوئی اور فرانس کی یونیورسٹی نے اسے شائع کروایا، میں فقط دو مسلمان سائنسدان یا دانشور تھے، بقیہ اکتیس ماہرین غیر مسلم تھے۔ اگر کوئی شخص امام جعفر صادق کی علمی خدمات سے متعارف ہونا چاہے تو اسے فرانس یونیورسٹی سے شائع ہونے والی اس تحقیق جس کا فارسی (مغز متفکر شیعہ) اور اردو ترجمہ (سپر برین ان اسلام) شائع ہوچکا ہے، سے آغاز سفر کرنا چاہیے۔ جابر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے لکھا: میرے استاد جعفر صادق نے مجھے کیلشیم، بخارات، عمل کشید اور قلم سازی کے بارے سکھایا بلکہ کیمیا کے بارے میں جو کچھ میرا علم ہے، وہ میرے استاد جعفر صادق (ع) کا تعلیم کردہ ہے۔

آج مغربی مفکرین اور سائنسدان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق (ع) عالم انسانیت کا سپر برین ہیں۔ وہ حیران ہیں کہ ایک شخص کیسے کسی استاد سے کسب فیض کئے بغیر اتنے سارے علوم کا ماہر ہوسکتا ہے۔ ان مفکرین کا اتفاق ہے کہ امام جعفر صادق (ع) نے اپنے والد کے علاوہ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہ کئے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ امام جعفر صادق (ع) کے والد امام محمد باقر (ع) بھی ان تمام علوم کے ماہر تھے۔ بغیر استاد کے ان علوم میں مہارت کے حوالے سے مغربی مفکرین کے نظریات جو اس تحقیقی دستاویز کا حصہ ہیں، لائق مطالعہ ہیں۔
قارئین کرام! اس تحریر کو جتنی وسعت دی جائے یہ اسی قدر پھیل سکتی ہے، کیونکہ اس کا موضوع سخن علم و حکمت کا بحر ذخار ہے۔ مجھ میں ایسا کوئی وصف نہیں ہے کہ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں کچھ لکھوں، جس کو عالم اسلام اور اس سے باہر کی معروف اور ممتاز شخصیات نے طرح طرح سے خراج عقیدت پیش کیا ہو۔ ان ٹوٹی پھوٹی چند سطور کا مقصد اپنا نام ان لوگوں کی فہرست میں شامل کرنا ہے، جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی ذات والا صفات پر قلم اٹھا کر اپنے مقام و مرتبہ کو بلند کرنے کی کوشش کی۔ پروردگار عالمین اس ادنی سی کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں ان برگزیدہ ہستیوں کی حقیقی معنوں میں معرفت نصیب فرمائے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 477458
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش