0
Monday 31 Aug 2015 17:29

کیا بلاول پیپلز پارٹی کو زندہ کر پائیں گے!!!

کیا بلاول پیپلز پارٹی کو زندہ کر پائیں گے!!!
تحریر: نادر بلوچ

پیپلز پارٹی کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے، شائد ہی کسی اور جماعت کو ان چیلنجز کا سامنا ہو، پارٹی دن بدن اپنا گراف کھو رہی ہے اور سکڑ کر اب سندھ تک محدود ہوگئی ہے۔ پنجاب کے وہ علاقے جہاں پیپلز پارٹی کا ایک وقت میں عروج تھا، اب وہ اس کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ حتیٰ جمشید دستی جیسے آزاد امیدوار نے پیپلز پارٹی سے بغاوت کرکے خود پارٹی کو ایک بڑے مارجن سے شکست دے دی۔ تاریخ نے دیکھا کہ دو ہزار تیرہ کے عام الیکشن میں بڑے سے بڑے برج الٹ گئے یوں، سلسلہ گیلانیا نے اپنی بدترین حکمرانی اور کرپشن کے باعث پارٹی کو ناقابل یقین نقصان پہنچایا۔ گو کہ پارٹی قیادت اور رہنما اس کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں، جن میں سے ایک طالبان کی کارروائیوں کے باعث الیکشن مہم کا نہ چلنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بےنظیر کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کا پارٹی سنبھالنا، کرپٹ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا اور عوام سے رابطہ منقطع کر لینا، نے پارٹی ورکرز اور جیالوں کو بدظن کر دیا۔ یوں پارٹی کے اکثر جیالے یا تو گھر بیٹھ گئے یا پھر تحریک انصاف میں ضم ہوگئے۔

دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں عوامی نشینل پارٹی کو بھی طالبان کی کارروائیوں اور تحریک انصاف کے باعث نقصان پہنچا، تاہم اس کا پیپلز پارٹی کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا ووٹ بینک بھی کسی حد تک متاثر ہوا ہے، تاہم جو ذلت آمیز شکست پیپلز پارٹی کو ہوئی اس کا دیگر جماعتوں سے تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ رہی بات نون لیگ کی تو اسے ہمیشہ سے ملک پر مسلسط کیا جاتا رہا ہے۔ تاریخ اٹھائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے راستہ روکا گیا ہے جبکہ نون لیگ کو زبردستی اس قوم پر مسلط کیا گیا۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کیلئے سازشیں کی گئیں اور مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد آئی جے آئی بنایا گیا۔ سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کئے گئے، لیکن اس تمام صورتحال کے باوجود پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت آگے بڑھتی رہی اور عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھی۔ لیکن بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سب الٹ ہوگیا، اس وقت پارٹی قیادت اور عام ورکرز کے درمیان گیپ بڑھ گیا ہے، پارٹی قیادت اب میدان کے بجائے ڈرائنگ روم تک محدود ہوچکی ہے، اسی لئے کہنے والے اب بھی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے پانچ سال حکومت محترمہ بےنظیر کی شہادت کی وجہ سے کی، اسی طرح گلگت بلتستان میں پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پوری قوم نے دیکھا کہ اس خطے میں حکومت کرنے والی جماعت کو فقط ایک نشست ملی اور وہ بھی زیادہ ووٹوں کے فرق سے نہیں۔ گلگت بلتستان میں شکست کی وجوہات بھی کرپٹ عناصر کو نوازنا، مخلص اور اہل کارکنوں کو دھتکارنا ہے۔ مہدی شاہ جیسے شخص کو پارٹی کی باگ دوڑ دے دی گئی، جس نے کرپشن کے ریکارڈ رقم کئے، جس پر الگ کالم لکھا جاسکتا ہے۔

اس وقت بلاول بھٹو زرداری انہی مسائل کو ایڈریس کرنے کیلئے اسلام آباد آئے اور مختلف اضلاع کو بلاکر ان سے میٹنگز کیں، لیکن افسوس کہ پارٹی رہنماوں اور خاص کر فریال تالپور نے بلاول کو گھیرے میں لئے رکھا، زرداری ہاوس اسلام آباد میں پارٹی کارکنان کے ساتھ ہونے والی ان ملاقاتوں میں بلاول کو کارکنان کے ساتھ بولنے اور ان کی شکایات سننے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ حتیٰ فریال تالپور، منظور وٹو اور فرحت اللہ بابر ملاقاتوں میں شامل رہے اور کارکنان کو دل کی بڑھاس نہیں نکالنے دی۔ یوں کارکنان اور مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے پارٹی عہدیداران مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے۔ پارٹی عہدیداروں کو بلاول کے ساتھ ملاقات کے بعد باہر آکر یہ باتیں کرتے سنا گیا کہ جن کیخلاف شکائتیں کرنے آئے تھے، وہ خود ان ملاقاتوں میں شریک رہے اور ہمیں بولنے نہیں دیا گیا۔ ایسی صورتحال میں ہماری شکائتوں کا ازالہ کیسے ہوگا؟، حد تو یہ ہے کہ جن کی وجہ سے پارٹی کو پنجاب میں ناقابل یقین نقصان اٹھانا پڑا، وہ اب بھی پارٹی قیادت سے دور نہیں ہوئے، ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ پارٹی کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔

بلاول کے ایک ہفتے کے قیام کے دوران مختلف اینکرز اور صحافیوں کی جانب سے بڑی کوشش کی گئی کہ کسی طریقے سے بلاول کیساتھ ملاقات ہوسکے اور ملکی حالات سمیت پارٹی کے امور پر ان سے بات کی جائے، لیکن پارٹی کے گرد گھیرا ڈالے رہنماوں نے پارٹی پالیسی کو درمیان میں لاکر یہ ملاقات نہ ہونے دی۔ حتیٰ صحافیوں کی جانب سے 20 منٹ کی ملاقات کی استدعا کی گئی جو مسترد کر دی گئی۔ زرداری ہاوس اسلام آباد کے باہر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران بلاول سے منسوب تمام بیانات خود فرحت اللہ بابر نے بنائے ہیں، جبکہ اس میں خود بلاول کا کوئی اِن پٹ شامل نہیں تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک طرف بلال پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں، دوسری جانب وہی پرانے چہرے بدظن جیالوں کا منہ چیڑا رہے ہیں، ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ پارٹی دوبارہ فعال ہو اور عوام کا پارٹی قیادت پر اعتماد بحال ہو۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کی زیادہ تر کھیپ تحریک انصاف میں شامل ہوچکی ہے، حتٰی وہ مشیر اور وزراء بھی پی ٹی آئی جوائن کرچکے ہیں، جن کی گذشتہ دور حکومت میں پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا، اب وہ فصلی بٹیروں کی طرح تحریک انصاف کی منڈیر پر جا بیٹھے ہیں۔

یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ جب تک پارٹی کی صحیح معنوں میں تطہیر نہیں کی جاتی اور مفاد پرست ٹولے کو الگ نہیں کیا جاتا، اس وقت تک پارٹی کا دوبارہ زندہ ہونا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ بلاول کے ایک ہفتے کے اس پڑاو میں پرانے چہرے یہ بات کہتے نظر آئے کہ پارٹی کی موجودہ صورتحال کی اہم وجہ  نون لیگ کیساتھ مفاہمتی پالیسی کا اپنایا جانا ہے، جسے اب ہم ترک کرنے کا اعلان کرتے ہیں، منطور وٹو نے میڈیا ٹاک کے دوران کہا ہم نون لیگ کیساتھ مفاہمتی پالیسی کو الوادع کہتے ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا فقط یہ ایک مسئلہ ہے، جس کے باعث پارٹی کمزور ہوئی ہے یا خود منظور وٹو جیسے لوگ ہیں، جنہوں نے پارٹی کو ناصرف بدنام کیا ہے بلکہ جیالوں کو پارٹی قیادت سے بھی دور کر دیا ہے۔ پارٹی کو زندہ کرنے کیلئے بلاول بھٹو کو بڑے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ سب سے پہلے یہ کہ خود احتسابی کے بغیر پارٹی کو آگے بڑھانا ناممکن ہے، جن جن افراد نے پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے، انہیں پارٹی سے الگ کرنا پڑیگا، کرپٹ عناصر کو قانون کے حوالے کرنا پڑیگا۔ اس کے علاوہ خود بلاول کو ڈرائنگ روم سے نکل کر عوام کے پاس جانا ہوگا، تبھی ممکن ہے کہ پارٹی آگے بڑھ سکے۔ بلاول کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ وہ بلدیاتی الیکشن میں انتخابی مہم کا آغاز اپنی ماں کی جائے شہادت یعنی لیاقت باغ سے کریں گے، لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں ہر ضلع میں جانا ہوگا، جیالوں کی کڑوی کسیلی باتیں سننا ہوں گی اور انہیں اعتماد دینا گا۔ تب جا کر پارٹی اپنے راستے پر چل سکے گی۔
خبر کا کوڈ : 483150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش