0
Saturday 5 Sep 2015 14:30

یوم دفاع، نئے شعور اور نئے ولولے کے ساتھ

یوم دفاع، نئے شعور اور نئے ولولے کے ساتھ
تحریر: ثاقب اکبر

پاکستان میں اس مرتبہ 6 ستمبر یوم دفاع کے موقع پر ایک خاص جوش و خروش کی فضا دیکھنے میں آرہی ہے۔ حکومت کی سطح پر ہی نہیں یہ ولولے عوام میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مادر وطن سے محبت کے یہ مناظر ستمبر 1965ء کی یادیں تازہ کر رہے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ مختصر سی مدت میں پاک فوج اور امن و امان کے ذمے دار دیگر اداروں نے ملک کے اندر سے جس انداز سے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، اس نے سب کے حوصلے بڑھا دیے ہیں۔ ایک عرصے بعد حکومت، فوج اور عوام یکساں اور ایک صفحے پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ضرب عضب کے معرکوں میں مسلح افواج نے اپنی جرأت مندی سے نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے قدم قدم پر وطن دشمنوں اور وحشی دہشت گردوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کے شہروں میں بھی تحفظ کا ایک احساس پیدا ہوا ہے۔ اپنی فوج پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں بھی کامیابی سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایجنسیوں میں ہم آہنگی اور ان کی اطلاعات کی فراہمی میں نتیجہ خیزی کا احساس ہر ذی شعور پاکستانی کر رہا ہے۔ اس صورت حال نے خود پاکستان کے مستقبل کے بارے میں عوام کے یقین اور ایمان میں اضافہ کیا ہے۔ ایسے میں جب یوم دفاعِ پاکستان منایا جا رہا ہے تو اس میں ملک کے تمام طبقوں اور شعبوں میں ایک ہم آہنگ اور ایمان افروز فضا کا ہونا فطری بات ہے۔

اس موقع پر ضروری ہے کہ یہ فیصلہ دہرایا جائے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو ادھورا نہیں چھوڑا جائے گا۔ نیز دہشت گردوں اور امن و سلامتی کے دشمنوں کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ کیونکہ نامکمل اور ادھورا مشن دشمنوں کو پھر سے اکٹھا ہونے اور پاک وطن کے خلاف اپنے گھناؤنے جرائم کو جاری رکھنا پر ابھارنے کا باعث بنے گا۔ یہ پہلو حوصلہ افزا ہے کہ حکومت اور فوج میں یکسوئی اور یکجہتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے ارادوں میں کمزوری آج تک حاصل کی گئی کامیابیوں کو ختم کر دینے کا باعث بن سکتی ہے۔ مسلح افواج اور امن و امان کے ذمے دار ادارے قابل قدر قربانیاں دے رہے ہیں۔ حکومت کے عزم و استقلال میں بھی کسی قسم کی لغزش نہیں آنا چاہیے اور ہمیں پوری طرح اطمینان ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ یہ ہم آہنگی اور قوی ارادہ پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔

نیشنل ایکشن پلان جسے تمام سیاسی جماعتوں کی مکمل تائید سے شروع کیا گیا ہے، اسے ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں کے عوام کی بھی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں میں گھسے ہوئے سیاہ رو عناصر اپنی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالنے کے لئے اور قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے گمراہ کن بیانات دیتے ہیں، لیکن ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں سے ایسے عناصر کو ہم جدا کرکے رہیں گے۔ ان عناصر نے سیاسی پارٹیوں کو بھی بہت سخت نقصان پہنچایا ہے۔ وہ سیاسی قائدین جو خود اپنی پارٹیوں میں ایسے عناصر سے نالاں ہیں اور جن کا دامن کرپشن اور دہشت گردوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت سے پاک ہے، انھیں اب کھل کر اپنی جماعتوں سے ایسے عناصر کو نکال باہر کرنے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر انھوں نے مداہنت کا رویہ اختیار کئے رکھا تو ان کی اپنی سیاسی ساکھ کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ تمام سیاسی قائدین کو مسلح گروہوں سے سیاسی جماعتوں کو الگ کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اصولی طور پر تو سیاسی قائدین اس بات سے اتفاق کرچکے ہیں لیکن عمل کے موقع پر بھی انھیں اپنی صداقت کا ثبوت دینا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا یہ بھی ایک ناگزیر تقاضا ہے۔

یوم دفاعِ وطن کے موقع پر ہمیں جہاں مسلح افواج اور پولیس کے جانباز، شہید افسروں اور جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے، وہاں پاکستان کے ان گروہوں اور طبقوں کو بھی عظیم سلام عقیدت پیش کرنا ہے، جنھوں نے زخم پہ زخم سہ کر اور مسلسل قربانیاں دے کر بھی اس وطن کے ساتھ اپنی وفاداری کا عہد نبھایا ہے اور دہشت گردی کے مقابلے میں دہشت گردی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس سلسلے میں ہم نہیں بھلا سکتے ان لوگوں کو جنھیں ایک خاص مسلک سے وابستگی کے جرم میں مسلسل خاک و خون میں غلطاں کیا جاتا رہا۔ ان کے مسافروں کو بسوں سے اتار کر درندگی سے قتل کیا گیا۔ ان کے عبادت خانوں پر حملے کئے گئے۔ ان کی بستیوں اور محلوں کو بموں سے اڑایا گیا۔ یہاں تک کہ ان کے جنازوں کو کندھا دینے والوں اور ہسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت کرنے والوں تک کو ظلم و بہیمیت کا نشانہ بنایا گیا، لیکن انھوں نے جواب میں گولی اور بارود کا سہارا نہیں لیا۔ ان کا صبر بالآخر رنگ لے آیا۔

پاکستان میں عظیم عرفاء اور صوفیاء کے مزاروں کو بھی نہ بخشا گیا۔ حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ، حضرت داتا گنج بخشؒ، بابا فرید گنج شکرؒ اور ایسے دسیوں بزرگان دین اور اولیائے کرام کے مزاروں پر وحشت ناک حملے ہوئے، سینکڑوں لوگ شہید اور زخمی ہوئے لیکن آفرین ہے ان ہستیوں کے عقیدت مندوں پر کہ جنھوں نے بارود کے مقابلے میں درود کا سہارا لیا اور آخر کار اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور پاک فوج ان ہستیوں کے دشمنوں کے خلاف اللہ کا انتقام بن گئی۔ ہم نہیں بھول سکتے اسماعیلیوں پر ہونے والے مظالم کو اور ہم نہیں فراموش کرسکتے اس ملک کی اقلیتوں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کو۔ اسی طرح ہم اس ملک کے سکولوں اور کالجوں سے اٹھنے والی چیخوں کو بھی فراموش نہیں کرسکتے۔ البتہ ہم جانتے ہیں کہ یہ آہیں، یہ سسکیاں اور یہ چیخیں عرش الٰہی تک جا پہنچیں اور اللہ کی نصرت ان مظلوم بندوں کو نصیب ہوئی۔

آج جب ہم یوم دفاع منا رہے ہیں تو ہمیں پاکستان میں عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کے لئے بھی اپنے عزم کا جائزہ لینا ہے۔ اس لئے کہ عدل و انصاف کے بغیر حاصل کی ہوئی کامیابیاں ضائع ہوسکتی ہیں۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت میں گھسے ہوئے بعض موثر افراد اشک شوئی کے لئے اور ذمے دار اداروں کو دھوکہ دینے کے لئے بے گناہ لوگوں کی پکڑ دھکڑ میں مصروف ہوں اور ظاہر یہ کر رہے ہوں کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ جن لوگوں نے قربانیاں دی ہیں، ان سے نفرت کرنے والے عناصر اور دہشت گردوں کے سرپرست حکومتی منصبوں کا سہارا لے کر قانون پسند افراد کے خلاف مقدمات قائم کرنے اور انھیں طرح طرح سے پھانسنے میں مصروف ہوں۔ یہ بات ہمیں اس لیے کہنا پڑ رہی ہے کہ ملک کے مختلف حصوں سے اس طرح کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سیاہ باطن افراد آخر کار آشکار ہو کر رہیں گے، لیکن ایسا وقت آنے میں دیر ہونے کی وجہ سے بہت سے بے گناہوں پر عرصۂ حیات تنگ ہو چکا ہوگا۔

اس سلسلے میں 3 ستمبر 2015ء کو اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام منعقد ہونے والے ایک تعزیتی ریفرنس میں جس طرح کے جعلی مقدمات قائم کرنے کی نشاندہی کی گئی ہے، اس پر ذمے دار حلقوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں وہ لوگ جو امن و امان کے قیام اور اتحاد امت کے لئے سرگرم عمل رہے ہیں، اگر انہی کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تو پھر دہشت گردی کے خلاف جو مہم جاری ہے، وہ مشکوک ہو کر رہ جائے گی۔ حق اور باطل میں واضح تمیز کی ضرورت ہے۔ آج وہ موقع ہے کہ جب ہمیں قربانیاں دینے والوں اور مشکل حالات میں دہشت گردی اور تکفیریت کا مقابلہ کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اتحاد امت کے لئے مسلسل جدوجہد کرنے والے افراد کو آج تمغوں اور محبتوں سے نوازا جائے۔ وہ اس قوم کے ہیرو ہیں، جنھوں نے انتہائی خطرناک حالات میں بھی اس ملک کا دفاع کیا اور اس کے دشمنوں کے خلاف سینہ سپر رہے، چاہے ایسے افراد فوج میں ہوں، پولیس میں ہوں، علماء میں ہوں، مشائخ میں ہوں یا کسی اور طبقے میں۔ 6 ستمبر یوم دفاع کے موقع پر انھیں سلام عقیدت پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 484110
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش