1
1
Thursday 24 Sep 2015 13:40

حج اندرونی اور بیرونی دشمن سے لڑائی کا نام ہے

حج اندرونی اور بیرونی دشمن سے لڑائی کا نام ہے
تحریر: ایس این حسینی

حج کے ایام ہیں، آج بعض اسلامی ممالک میں یوم عرفہ اور بعض میں روز عید ہے۔ عرفہ کے دن کے متعلق علمائے کرام کو تو پتہ ہوگا تاہم عوام الناس، جو اب تک حج کی سعادت سے محروم ہیں، کو فلسفہ عرفہ اور فلسفہ حج سے کم ہی واقفیت حاصل ہوگی۔

یوم عرفہ:
9 ذوالحجہ کو یوم عرفہ کہتے ہیں، جسکے اگلے دن عید الاضحیٰ کا دن ہوتا ہے۔ اس دن کو یوم عرفہ اسلئے کہتے ہیں کہ دنیا بھر سے آئے ہوئے حاجی حضرات اس دن عرفات میں جمع ہوکر غروب آفتاب تک ‘‘وقوف’’ کرتے ہیں۔ لفظ عرفات یا عرفہ عربی لفظ عرف سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے، پہچان یا شناخت۔ چنانچہ یہ حدیث قارئین کے ذھن میں ہوگی۔ ‘‘من عرف نفسہ فقد عرف ربہْ’’ یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ کہتے ہیں کہ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے اس مقام پر ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ اسی وجہ سے اس دن کو عرفہ اور اس مقام کو عرفات کہا جاتا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ چونکہ عرفات میں وقوف کے دوران حجاج کرام کو اللہ تعالی اور اپنے نفس کی وہ معرفت حاصل ہوجاتی ہے کہ انکی تمام گناہ خزاں کے پتوں کی مانند جھڑ جاتے ہیں۔ عرفات میں ایک پہاڑی ہے جسے ‘‘جبل رحمۃ’’ یا جبل عرفات کہتے ہیں۔

عرفات اندرونی دشمن سے جنگ کا مقام:
حج کی ابتداء عرفہ سے ہوتی ہے یعنی حجاج اس سے پہلے آزاد ہوتے ہیں، اس سے پہلے جو اعمال ہیں وہ سب مستحبات میں سے ہیں، عمرہ جتنا کرنا چاہیں، سنتی طواف جنتا کرنا چاہیں، ختم قرآن ہے، اور سنتی نمازیں، اور دیگر اعمال جتنے کرنا چاہیں، یا نہ کرنا چاہیں، انسان آزاد ہے، لیکن عرفات روانگی سے قبل مقام ابراہیم سے یا حرم کے اندر کسی بھی جگہ سے، اگر یہاں سے ممکن نہ ہو تو حرم کے حدود کے اندر کسی بھی مقام سے حج تمتع کی نیت سے احرام باندھ لیا جاتا ہے۔ یوں حج کی ابتداء عرفات سے ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ حج کا پہلا رکن عرفات ہے۔ کسی بھی مسلک سے تعلق ہو، عرفات میں ظہر اورعصر کی دونوں نمازیں اکٹھی پڑھتے ہیں۔ حج کے ایک ایک رکن پر اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو انسان کو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ حج در اصل اپنے رب سے قربت پیدا کرنے اور ایک بڑے اندرونی دشمن سے نفرت بلکہ جنگ کرنے کا نام ہے اور جنگ کے بھی اپنے اصول ہوتے ہیں، عمومی طور پر آپ نے دیکھا ہوگا کہ کوئی ملک یا کوئی قبیلہ جب کسی دشمن کا خطرہ محسوس کرتا ہے تو وہ جنگ سے پہلے کچھ تیاری کرلیتا ہے۔ اپنی افواج کی تربیت سے لیکر فوجی سازوسامان کی فراہمی تک تمام تیاریاں مکمل کرلیتا ہے۔ گویا عرفات خود کو دفاعی لحاظ سے مضبوط کرنے کا مقام ہے، اس کے بعد جب جنگ شروع ہوتی ہے تو دشمن کے ساتھ مقابلے کے دوران نقصان کم جبکہ فتح کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔

عرفات میں حجاج کرام اندرونی دشمن کے خلاف جنگ جیتنے کے حوالے سے تیاری کرنے میں جس ہتھیار کا سہارا لیتے ہیں۔ ان میں سے اہم دعائے عرفہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر مختلف دعائیں اور اوراد شامل ہیں۔ چنانچہ حجاج ان دعاووں کا ورد کرتے ہیں اور رو رو کر رب کریم سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں۔ روایات کے مطابق عرفات میں انسان خطاوں اور گناہوں سے ایسے پاک ہوتا ہے جیسے نومولود بچہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔ جن حضرات کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے انکو یقینا پتہ ہوگا کہ عرفات میں انسان کے رحمانی جذبات کس حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ انسان کو خود ہی ایک احساس اور امید پیدا ہوتی ہے کہ انکی خطائیں بس بخش دی گئیں ہیں، گویا عرفات اندرونی دشمن یعنی شیطان سے جنگ کرنے کے لئے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کا نام ہے۔ عرفات میں ظہر سے لیکر غروب آفتاب تک ٹھہرنا (وقوف کرنا) لازمی ہے، چنانچہ ظہر سے پہلے عرفات میں حاضر ہونا چاہیئے، اور غروب سے پہلے عرفات سے نکلنا حرام ہے اور موجب کفارہ ہے۔ غروب کے بعد حاجی کو یہاں سے نکلنے کا اختیار ہے، تاہم صبح کاذب سے پہلے پہلے مشعر الحرام (مزدلفہ) پہنچنا بھی واجب ہے۔ عرفات میں دشمن سے جنگ کرنے کا پہلا مرحلہ جب سر ہوتا ہے تو دوسرے مرحلہ کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ غروب ہونے سے پہلے پہلے اکثر حجاج عرفات کے آخری حد پر پہنچ جاتے ہیں۔ اور غروب ہوتے ہی عرفات کو کراس کرکے مزدلفہ کی جانب گامزن ہوجاتے ہیں۔

معشر الحرام، دشمن پر حملے کے اسباب و ہتھیار کی فراہمی:
دشمن سے مقابلہ کرنے اور اس پر فتح حاصل کرنے کے لئے انسان کو لڑنے کے وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشعر الحرام بیشتر پہاڑی علاقہ ہے۔ بیشتر چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں۔ یہاں پہنچ کر انسان کو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پہاڑوں پر برفباری ہوئی ہو، میدان اور پہاڑ سب سفید چادر اوڑھے نظر آتے ہیں۔ حجاج کرام یہاں پہنچ کر بہت تھکے ہوتے ہیں تاہم انکے لئے وقت کم ہوتا ہے۔

جمع بین صلاتین (مغرب و عشاء کی اکٹھی نمازیں)
صبح سے پہلے پہلے تھکاوٹ کے باوجود جن لوگوں نے نماز مغربین نہیں پڑھی ہوتی، وہ مغرب و عشاء اکٹھے پڑھتے ہیں۔ اور پھر کنکریوں کی تلاش میں پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔ اور چھوٹے، درمیانہ اور بڑے شیطان (شیطان بزرگ) کو کنکریاں مارنے کی غرض سے ہر حاجی لگ بھگ ساٹھ یا ستر مناسب حجم کی کنکریاں جمع کرکے اپنے لئے کوئی مناسب جگہ تلاش کرکے تھوڑا سا آرام یا عبادت میں وقت گزار کر صبح کرلیتے ہیں۔ نماز صبح کی ادائیگی کے فورا بعد مشعر الحرام سے جب حجاج روانہ ہوجاتے ہیں، تو آگے اور پیچھے تا حد نگاہ سفید پانی کا ایک متحرک سمندر ہی نظر آتا ہے۔ مشعر الحرام کے بعد آنے والے علاقے کو ‘‘معسر’’ کہتے ہیں، جو مینا اور مشعر کے درمیان ایک حد فاصل ہے۔ اس حد پر حجاج بڑی بیتابی سے طلوع آفتاب کا انتظار کرتے ہیں۔ جب سورج کی کرنیں کسی قریبی پہاڑ یا آس پاس کسی اور جگہ پر پڑکر نظر آجاتی ہیں تو بارڈر پر کھڑے تمام حجاج بلا فاصلہ حرکت میں آکر منٰی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ انکے بعد آنے والے لاکھوں حجاج بھی انکے پیچھے حرکت کرتے ہوئے منیٰ میں داخل ہوجاتے ہیں۔

منٰی، قربانی اور شیطان سے ڈائریکٹ لڑائی کا مقام
منٰی
وہ جگہ ہے جہاں قربانی کی جاتی ہے، قربانی عربی زبان کا لفظ ہے جسکا معنی ہے، قریب ہونا یا قربت پیدا کرنا یعنی قربانی کا مقصد ہے اللہ کی قربت اور نزدیکی حاصل کرنا۔ آج سے پانچ ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کی قربت حاصل کرنے کی نیت سے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے اسی جگہ (منٰی میں) لایا تھا۔ اس سے پہلے انہوں نے اپنی بی بی حضرت حاجرہ سے ایک چھری اور ایک رسی طلب کی تھی۔ بی بی نے پوچھا کہاں جارہے ہیں؟ بتایا دوست کی دعوت ہے۔ پوچھا! چھری کی کیا ضرورت ہے؟ بتایا اگر ضرورت پڑی تو دوست کی خاطر کوئی چیز ذبح کروں۔
یہی کہتے ہوئے جب آگے بڑھے تو بی بی حاجرہ کے پاس شیطان آگیا اور کہا کہ چھری کیوں دی یہ تو تیرے بیٹے کو ذبح کرنے جارہا ہے، بی بی حاجرہ نے پتھر اٹھا کر شیطان کو مارا۔ ابراہیمؑ آگے بڑھا اور قربان گاہ پہنچ گیا تو حضرت اسماعیلؑ کے پاس شیطان آگیا اور کہا کہ دیکھو باپ نے تو تمہیں قتل کرنے کا تہیہ کررکھا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے ایک پتھر اٹھا کر شیطان کو دے مارا۔ کچھ ہی آگے سب سے بڑا شیطان (شیطان بزرگ) آگے بڑھ کر حضرت ابراہیمؑ کے پاس آگیا اور کہا کہ دیکھو اس بڑھاپے میں جا کے ایک بیٹا پیدا ہوا، اب اسے قتل کرر ہے ہو۔ ابراہیمؑ نے پتھر اٹھا کر کہا کہ تو شیطان ہے، میں جانتا ہوں۔ یہ اسماعیل خدا ہی نے تو عطا کیا ہے، کیا حرج ہے اسی کی امانت ہے اسی کو تو سونپ رہا ہوں۔ اور پھر پتھر شیطان کو دے مارا۔

اور یوں اپنے لخت جگر کے ہاتھ پاوں اور پھر اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس کے گلے پر چھری پھیر دی۔ اسی دوران اللہ کے حکم سے جنت سے ایک دنبہ اس چھری کے سامنے لٹا دیا گیا۔ اور اسماعیلؑ کے بدلے وہ دنبہ ذبح ہوا اور اللہ تعالی نے وعدہ کرتے ہوئے فرمایا ‘‘ وفدیناہ بذبح عظیم’’ یعنی اسماعیل کی قربانی کو ذبح عظیم (اس کے نسل سے امام حسینؑ کی قربانی) سے بدل دیا گیا ہے۔ اور پھر جسطرح ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ دوست کی دعوت ہے، اللہ نے اس لفظ کو اتنا پسند کیا کہ حضرت ابراہیمؑ کو خلیل (دوست) کا لقب عطا فرمایا۔ اور اسکی قربانی کو حج کا ایک رکن قرار دیا۔ انکے، انکے بیٹے اور انکی زوجہ کی جانب سے شیطان کو مارنے کے عمل کو بھی حج کا ایک رکن اور واجبات میں سے قرار دیا۔ چنانچہ وہی سنت ابراہیمی ادا کرنے، یعنی شیطان کو پتھر مارنے اور اسکے بعد قربانی کرنے کو حجاج پر واجب کردیا گیا۔ حجاج عید کے دن منٰی پہنچ جاتے ہیں۔ پہلے اپنے خیمے تلاش کرکے وہاں اپنا سامان رکھ دیتے ہیں اور اسکے بعد مزدلفہ یعنی مشعر سے اٹھایا ہوا ہتھیا، ایک چھوٹی سی تھیلی میں رکھ کر جمرہ عقبہ یعنی بڑے شیطان کا رخ کرلیتے ہیں۔ یہ ہتھیار دس سے لیکر بیس تک کنکریوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ شیطان کے پاس بلکہ پورے راستے میں حجاج کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے۔ اور پتھر پھینکنے اور قدموں کی آواز بالکل ایک مہیب اور خطرناک زلزلے کی مانند معلوم ہوتی ہے۔ اور لوگ لگا تار شیطان پر کنکریاں مارتے نظر آتے ہیں۔ جمرہ پہنچ کر ہر حاجی پر بڑے شیطان کو سات کنکریاں مارنا واجب عمل ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی طرح شیطان کو کنکر مارنے کے بعد حاجی خود یا اسکا نائب یا وکیل اسکے لئے کوئی جانور ذبح کرتا ہے۔ آج کل حاجیوں کے ہجوم کے باعث بعض اوقات قربانی اسی دن ممکن نہیں ہوتی۔

سر مونڈھنا:
اسی دن یا جب بھی قربانی کی خبر حاجی کو ملتی ہے، تو وہ فورا حجام یا کسی ایسے حاجی سے اپنے بال منڈھواتا ہے جس کے بال اس سے پہلے منڈھوائے جا چکے ہوں۔ اس عمل کو اصطلاح حج میں ‘‘حلق’’ کہتے ہیں۔ چنانچہ حلق کے بعد انسان احرام سے آزاد ہوجاتا ہے۔ گویا اسکے بعد انسان جنگ سے فارغ ہوکر اپنا اسلحہ اتار کر رکھ دیتا ہے۔ تاہم حج کا عمل ابھی ختم نہیں ہوا۔ اسکے بعد طواف، صفا و مروہ میں سعی کرنا اور تین رات منٰی میں بیتوتہ (یعنی آدھی رات قیام) کرنا وغیرہ جیسے مراحل سے بھی حاجی کو گزرنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

خبر کا کوڈ : 487245
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید ولی، اسٹریلیا
Pakistan
سلام علیکم عید مبارک
فلسفہ حج اور قربانی پر ہمیشہ مختلف قسم کے سوالات اور اعتراضات کم علم لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں، کاش سوال جواب کی شکل میں اس کو فیس بک پر شیر کرتے جزاک اللہ
سید ولی، اسٹریلیا
ہماری پیشکش