0
Tuesday 20 Oct 2015 22:15

عزاداری کی محدودیت دراصل فلسفہ وجودی پاکستان سے انحراف

عزاداری کی محدودیت دراصل فلسفہ وجودی پاکستان سے انحراف
تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

دين مبين اسلام سے عشق و محبت كے جذبہ سے سرشار برصغير كے مسلم اكابرين نے حضرت قائد اعظم محمد على جناح (رہ) کی ولولہ انگيز قيادت ميں متحد ہو كر آزادی و استقلال كی تحريک چلائی، جس كے نتيجہ ميں وطن عزيز پاكستان معرض وجود ميں آيا اور اس آزادی و استقلال كی تحريک كا بنيادی ہدف "مذہبی آزادی كا حصول" تها۔ برصغير كے مسلمان ہر قسم كی قربانياں دينے كيلئے اس لئے تيار تهے كہ انہيں ايک ايسا ملک نصيب ہوگا، جہاں پر وه مكمل آزادی كے ساتهـ اپنی مذہبی رسومات كو ادا كرسكيں گے۔ اب اگر اس ملک كے عوام كی مذہبی آزادی ہی سلب كر لی جائے تو نظریہ قيام پاكستان فوت ہو جاتا ہے اور یہ فلسفہ وجودی پاكستان سے انحراف ہے۔ اگر اس آزادی كو سلب كرنے والے خود پاكستانی حكمران ہوں تو يہ انكی پاكستان كے خلاف بہت بڑی خيانت ہوگی، كيونكہ ايسی پاليسی ملک كے امن اور سلامتی كيلئے خطرے كی گھنٹی ہے، پاكستانی عوام كو ايسے غدار حكمرانوں كے خلاف صدائے احتجاج بهرپور انداز میں بلند كرنی چاہیے اور انہیں ملک کے سياسی عمل سے بے دخل كر دينا چاہیئے۔

پاكستان كا ہر شہری جانتا ہے كہ صديوں سے شيعہ اور سنی مسلمان اس خطے ميں اكٹھے ره رہے ہیں، يہاں پر ہر مذہب اپنے نظريات اور معتقدات كے مطابق اپنی مذہبی رسومات ادا كرتا تها، ايک معروف فارمولہ انہوں نے اپنايا ہوا تها كہ "اپنے مذہب كو جھوڑو نہیں اور دوسروں کے مذہب كو چھیڑو نہیں۔" رواداری اور احترام متبادل كی ترويج پر زور ديا جاتا تها۔ علمی بحث و مباحثے اور مناظرے ہوا كرتے تهے، ليكن قوت كا استعمال ممنوع تها۔ كچھ مشتركہ مذہبی رسومات تھیں، جن میں عيد قربان، شب برأت، عيد ميلاد النبی (صلى الله عليه وآله وسلم) اور عزاداری نواسہ رسول (صلى الله عليه وآله وسلم) و يوم حسين (عليه السلام) منانا۔ ہر مسلمان اپنے طور و طريقے كے مطابق مذہبی رسومات ادا كرتا تها اور دوسرے كا احترام كرتا تها۔ حتی كہ غير مسلم بهی نواسہ رسول كی عزاداری ميں شريک ہوتے اور منتيں مانگتے تهے، بلكہ خود مجالس بهی كرواتے تهے۔ امام حسين  عليہ السلام سے عشق ركهنے والے فقط شيعہ و سنی مسلمان ہی نہیں بلكہ بڑی تعداد ميں ہندو، سكھ اور عيسائی بهی اس ملک ميں بستے ہیں۔

تکفیریت کا آغاز اور اہداف

ايسے ميں ايک تكفيری فكر اور سوچ نے حكمرانوں کی زير سرپرستی پھلنا پھولنا شروع كيا اور انہوں نے برملا مسلمانوں كو كافر اور مشرک بنانا شروع كر ديا۔ بات صرف وعظ و تبليغ اور خطابات اور غليظ لٹريچر تک محدود نہ رہی، بلكہ گلیوں اور بازاروں ميں كافر كافر كے نعروں كے ساتھ جلوس شہر شہر میں نكلنے لگے اور گذشتہ تين دہائيوں سے مسلسل نكل رہے ہیں۔ حكومتی ادارے ان نفرت آميز نعروں اور خطابات كو روكنے كی كوشش ہی نہیں كرتے، نہ ان كے خلاف ايف آئی آر درج ہونے دیتے اور نہ جج صاحبان نوٹس ليتے ہیں۔ نہ پارليمنٹ اسے روكنے كیلئے قانون سازی كرتی ہے، بعد ميں ان لوگوں نے قانون كو ہاتھ ميں ليا اور پہلے مرحلے پر جن كو كافر اور مشرک سمجهتے تهے، انہيں كبهی اجتماعی طور پر خودكش حملوں، لشكر كشيوں، مساجد، امام بارگاہوں، گرجہ گھروں اور ديگر مزارات و مقدس مقامات اور بسوں سے اتار کر مسافروں کو قتل کیا۔ كبهی ٹارگٹ كلنگ كے ذريعے جید اور معتدل علماء كرام، اسی طرح ڈاكٹرز، پروفيسرز اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق ركهنے والے قومی سرمايہ كو ہدف بنايا گیا، بعد ميں دوسرے مرحلے ميں قانون نافذ كرنے والے حساس اداروں، فوجی مراكز، مدارس، اسی طرح صنعتی و تجارتی مراكز كی تباہی اور عوام كے قتل و غارت كا بازار گرم كيا، حتى كہ غير ملکی مہمان بهی انكے شر سے محفوظ نہ رہ سکے۔

حکمرانوں کی ترجیحات کا محور ذاتی مفادات ہیں
ان دہشتگردوں نے مذہبی آزادياں سلب كرنے كی تبليغات اور دوسرے مسلمانوں كو جبری طور پر مذہب تبديل كرنے کی فقط دهمكياں ہی نہیں ديں بلكہ انہیں اپنے ظلم و تشدد كا نشانہ بھی بنايا۔ ہمارے حكمران ہميشہ ذاتی مفادات كو قومی مفادات پر ترجيح ديتے رہے، حتى كہ اس تكفيری سوچ كی كالی بهيڑيں حكومت كے حساس و غير حساس اداروں كے ريشوں كے اندر سرايت كر گئیں، اس تكفيری سوچ کے پروان چڑھنے سے ملک طرح طرح كے بحرانوں كا شكار ہوگيا اور اس ملک ميں زندگی كجا سانس لينا بهی دشوار ہوگیا۔ ملكی سرمايہ باہر منتقل ہوگيا اور ملک كا مستقبل تاريک ہوگیا، ملک کی وسيع اراضی پر حکومت كی رٹ ختم ہوگئی، آئين پاكستان كے خلاف آوازيں بلند ہونا شروع ہوئیں اور پاكستان كو تكفيرستان بنانے كی باتيں ہوئیں۔ بالآخر محب وطن قوتون نے متحد ہو كر وطن عزيز كو اس تكفيريت كے ناسور سے پاک كرنے كی آواز بلند كی اور مقبوضہ وزيرستان سميت پورے پاكستان پر سبز ہلالی پرچم لہرانے اور تكفيريت كے مراكز تباه كرنے كا مطالبہ كيا۔

سیاسی پارٹیاں دراصل تکفیریت کی سہولت کار ہیں
اس تكفيريت سے لڑنے كيلئے قومی ايكشن پلان بنا اور قانون سازی ہوئی، پاک آرمی نے آپریشن ضرب عضب كا آغاز كيا، اس ميں كافی كاميابياں حاصل كيں اور تكفيريت كو بہت بڑا دهچكا لگا۔ تكفيريت كے بين الاقوامی مركز سے چونکہ زرداری اور نواز شريف كے گہرے تعلقات ہیں اور انكی پارٹیوں ميں تكفيريوں كے سہولت كار موجود ہیں، لہذا انہوں نے نيشنل ايكشن پلان كی ڈائيورشن كی منصوبہ بندی كی اور پاكستان كو پوليس اسٹيٹ ميں تبديل كرنے كيلئے قومی خزانے سے نئے پولیس کے ادارے تشكيل دیئے، تاكہ انكی گرفت مضبوط ہو، انكے پرورده اور انكے غير ملكی آقاؤوں كے پيدا كرده تكفيری نیٹ وركس دہشتگردی سے جس مذہبی آزادی كو سلب نہیں کرسكے، وه اب اسی نيشنل ايكشن پلان كی آڑ ميں سلب كر ليں۔ اس سال حكمرانوں نے پورے ملک میں بالعموم اور پنجاب ميں بالخصوص عزاداری نواسہ رسول كو محدود اور ختم كرنے كيلئے جو اقدامات كئے ہیں، جس طرح چادر و چارديواری كے تقدس كو پامال كيا ہے اور آئينی آزاديوں كو سلب كيا ہے۔ حسينيت سے دشمنی كی اس سے بڑی مثال ہمیں پاكستان كی تاريخ ميں نہیں ملتی۔ ميڈيا بر نشر ہونے والے محرم الحرام كے حوالے سے داعش، طالبان اور دیگر تكفيری گروہوں كے لٹریچر اور حكومت وقت كے بنائے ہوئے ضوابط و قوانين ميں مكمل مطابقت نظر آتی ہے۔ اگر حكومت اپنے شهريوں كی حفاطت كرنے سے قاصر ہے تو انہیں مزيد شكنجوں ميں تو نہ جكڑے۔ پاكستان كے شيعہ و سنی عوام حكومت كے بغير بهی ابنی عبادت گاہوں اور جلسے جلوسوں اور عزاداری كی حفاطت كر سكتے ہیں۔

تكفيری افكار كا خاتمہ اسلام كے حقيقی روشن افكار كی نشرواشاعت كے بغير ممكن نہیں
ہماری مسلح افواج عسكری ميدان ميں تكفيريت كو كچل رہی ہیں اور ہمارے سياستدان سياسی ميدان ميں انہیں تقويت بخش رہے ہیں۔ ان تكفيری افكار كا خاتمہ اسلام كے حقيقی روشن افكار كی نشرواشاعت كے بغير ممكن نہیں، جن لوگوں كی ذمہ داری حقيقی اسلام كی نشرواشاعت بنتی ہے، وه تكفيريوں كے لئے نرم گوشہ ركھتے ہیں يا انكی پشت پناہی كرتے ہیں۔ "ايسے خود غرض اور ناعاقبت انديش حكمرانوں كی موجودگی ميں دہشت گردی كيخلاف جاری جنگ كبهی بهی كاميابی سے ہمكنار نہیں ہوسكتی" اور انكی بيلنس پاليسی دہشتگردوں كے خلاف آواز بلند كرنے والے محب وطن علماء اور شخصيات جو اخوت و محبت اور امن و رواداری اور اتفاق و اتحاد كے علمبردار ہیں، ان پر پابندياں عائد كرنا دہشتگردی كی تقويت كا سبب بن رہی ہے، وه چاہتے ہیں كہ تكفيريت كے خلاف اٹھنے والی آوازيں بهی دبا دی جائيں اور ايسا كيوں نہ ہو، كيونكہ نيشنل ايكشن پلان اور اسكی قانون سازی كے اجلاس ميں اكثر وه لوگ شريک تهے، جنكے ڈائریکٹ يا ان ڈائریکٹ تكفيری دہشتگردوں سےرابطے ہیں، انكی ذاتی مصلحتيں اور مفادات تكفيريت كے بين الاقوامی مركز سے وابسطہ ہیں۔ دنيا بهر كے تكفيری داعش ہوں يا طالبان يا پاكستان كے اندر متعدد انكے نیٹ ورک، وہ برملا يزيد ابن معاويہ كو خليفۃ المسلمين مانتے ہیں اور اعلان كر رہے ہیں كہ قتل امام حسين عليہ السلام يزيد لعين كا صحيح اقدام تها، يزيد زنده باد كا نعره لگاتے ہیں اور عزاداری نواسہ رسول كو ختم كرنا انكا ہدف ہے۔

انهوں نے پوری امت مسلمہ كو بتا ديا كہ وه اہل سنت نہیں بلكہ يزيدی ہیں اور پاكستانی شيعہ و سنی مسلمان ہوں يا دنيا بهر كے مسلمان سب كے سب حسينی ہیں اور حسينيت زنده باد كا نعره لگاتے ہیں۔ ہماری حكومت بهی حسينيت زنده باد كے نعره كو دبانے كی بهرپور كوشش كر رہی ہے۔ حكومتی اور غير حكومتی ادارے مجالس عزاء كی مانيٹرنگ كر رہے ہیں، تاكہ كسی بہانے سے خطباء و ذاكرين كو جيلوں ميں ڈالا جائے، ليكن قانون كی دهجياں اڑانے اور نفرتيں پهيلانے والے تكفيری علماء كے خطابات سوشل ميڈيا پر پڑے ہیں، كيسٹس فروخت ہو رہی ہیں اور برملا خطابات كرتے پهرتے ہیں، انكے خلاف كوئی ايكشن نہیں ليتا اور اگر بعض اوقات كسی كو گرفتار كر ليا جاتا ہے تو تهوڑے عرصے بعد پريشر ميں آکر باعزت طور پر بری كر ديا جاتا ہے۔ حكمران عوام كو دهوكہ دينے كيلئے يہ ثابت كرنا چاہتے ہیں كہ دہشت گردی كا سبب وہابی و تكفيری سوچ نہیں بلكہ شيعہ و سنی خطباء و ذاكرين ہیں۔ خود حكومتی اداروں كے اعداد و شمار گواه ہیں كہ اس ملک كی تباہی و بربادی اور دہشتگردی وہابی تكفيريوں كی بدولت ہو رہی ہے اور ملک ميں كوئی ايک سنی يا شيعہ گروه ايسا نہیں جو ملک كے اندر دہشت گردی پھيلا رہا ہے۔ حكومت وقت اپنے غير ملكی آقاؤوں كو خوش كرنے كيلئے جتنا چاہتی ہے ظلم كر لے، ليكن حکومت کو اچھی طرح جان لينا چاہیئے كہ تاريخ گواه ہے كہ "حسينی كٹ تو سكتے ہیں ليكن عزاداری نواسہ رسول مقبول پر كوئی آنچ نہیں آنے ديں گے۔"
خبر کا کوڈ : 492544
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش