1
1
Sunday 8 Nov 2015 10:30

شخصیتِ اقبال پر نگاہِ نو(1)

شخصیتِ اقبال پر نگاہِ نو(1)
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com


تاریخِ بشریت شاہد ہے کہ افراد، ممالک اور معاشروں کی طرح اقوام بھی زندگی اور موت سے دوچار ہوتی ہیں، شکست و ریخت کا سامنا کرتی ہیں، عروج و زوال کی منازل طے کرتی ہیں، امارت و غربت کا ذائقہ چکھتی ہیں، عزّت و ذلت کو لمس کرتی ہیں اور فتح و شکست کی وادیوں سے گزرتی ہیں۔ چونکہ اقوام کے باہمی تعلقات بھی افراد، معاشروں اور ممالک کی طرح کے ہی ہوتے ہیں، چنانچہ اقوام بھی آپس میں مذاکرات، جنگیں، صلح، افکار کا تبادلہ، نظریات کا پروپیگنڈہ، تہذیبی یلغار اور ثقافتی جارحیت کرتی ہیں۔ کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت کسی ایک خاص معاشرے کو جنم دیتی ہے اور پھر قومی سطح کی تہذیبی و ثقافتی جنگیں معاشرتی محاذوں پر لڑی جاتی ہیں۔ معاشرے کی حدود، اقوام و ممالک اور افراد کی نسبت وسیع و عریض ہونے کے باعث، معاشرتی سطح پر لڑی جانے والی جنگوں کے اثرات بھی کئی گنا زیادہ وسیع پیمانے پر مرتّب ہوتے ہیں۔ معاشرتی سطح پر لڑی جانے والی تہذیبی و ثقافتی، نظریاتی اور فکری یلغار اتنی موثر اور غیر محسوس ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے بغیر اسلحہ اٹھائے اور ایک قطرہ خون گرائے ممالک کے جغرافیے، افراد کے دماغ اور اقوام کی قیادتیں تبدیل کی جاسکتی ہیں۔

اگر ہم اتنے بڑے دعوے کے حق میں تاریخ کے قبرستان سے کوئی پرانا مردہ لانے کے بجائے، عصرِ حاضر کی کوئی زندہ و تابندہ گواہی پیش کرنا چاہیں تو وہ سرزمینِ پاکستان کی گواہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے خلاف معاشرتی سطح پر جو ثقافتی و فکری جنگ لڑی گئی، وہ اتنی غیر محسوس اور موثر تھی کہ چند سالوں کے اندر ہی افراد کے اذہان اس طرح تبدیل کئے گئے کہ لوگ باہم دست و گریباں ہوگئے، قوم میں فکری خلاء اس قدر پیدا کیا گیا کہ امت واحدہ کا نعرہ لگانے والے، پنجابی اور بنگالی، مہاجر اور مقامی کے نعرے لگانے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی افرادی قوّت تقسیم ہوگئی، ملّی وحدت پارہ پارہ ہوگئی، نت نئی قیادتیں وجود میں آئیں اور پاکستان کا جغرافیہ تبدیل ہوگیا۔ یاد رہے کہ اتنی بڑی جنگ میں پاکستان کے کسی بھی دشمن ملک کی براہِ راست ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوئی، پیسہ خرچ ہوا پاکستانیوں کا، خون گرا پاکستانیوں کا اور ملک ٹوٹا پاکستان۔

آج ہر باشعور انسان یہ سمجھتا ہے کہ اتنی بڑی اور کامیاب جنگ فوج کے ذریعے نہیں لڑی جاسکتی اور اس طرح کی اتنی بڑی تبدیلی بارود کے دھوئیں سے عمل میں نہیں آسکتی۔ اگر ہم اتنی بڑی تبدیلی کے عمل کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جو لوگ دوسرے افراد کے مال و اسباب کو لوٹنا چاہتے ہیں یا کسی دوسرے ملک پر اپنا تسلط جمانا چاہتے ہیں یا پھر کسی دوسری قوم کو شکست دینا چاہتے ہیں، وہ کسی مخصوص علاقے میں فوج اور اسلحہ جمع کرکے اپنے منصوبے کے مطابق پیش قدمی کرتے ہیں، لیکن جو لوگ بغیر کوئی نقصان اٹھائے، ایک ہی وقت میں کسی قوم کو شکست دے کر اس کے ملک پر اپنا تسلط جماکر اس کے مال و متاع کو لوٹنا چاہتے ہیں، وہ فوج اور اسلحہ جمع کرکے بارڈروں پر حملہ نہیں کرتے بلکہ وہ غیر محسوس انداز میں لوگوں کے دماغوں پر فکری اور ثقافتی حملہ کرتے ہیں۔ اس لئے کہ جو لوگ فکری طور پر ہتھیار پھینک دیں اور میدان خالی چھوڑ دیں وہ عملی زندگی میں بھی ہتھیار پھینک دیتے ہیں اور میدان خالی چھوڑ دیتے ہیں۔

جو لوگ عسکری طاقت اور فوجی لائو لشکر کے ساتھ دوسری اقوام پر شب خون مارتے ہیں اور دوسرے ممالک کو فتح کرنے کے چکر میں رہتے ہیں، وہ چنگیز خان، ہلاکو اور صدام کی طرح اپنے پیچھے غم ناک کہانیاں، دلخراش قصّے اور تباہی و بربادی کے صرف آثار چھوڑ جاتے ہیں، لیکن جو لوگ ممالک کے بجائے معاشروں کو مسخر کرنے کے لئے نکلتے ہیں، وہ اپنے پیچھے صرف اچھے یا برے اثرات نہیں چھوڑتے بلکہ اپنے افکار بھی چھوڑ جاتے ہیں، ان کے افکار وقت کے تندور میں دبی ہوئی چنگاری کی طرح ہمیشہ سلگتے رہتے ہیں اور وقت آنے پر شعلہ بن کر بھڑک اٹھتے ہیں۔ زمانے کی راکھ سے شعلہ بن کر بھڑکنے والے یہ افکار اگر مثبت ہوں تو سید قطب، موسیٰ صدر، بہشتی، چمران، مودودی اور اقبال کی طرح صدیوں پر محیط معاشروں کی اصلاح و تعمیر کرتے ہیں، لیکن اگر یہ افکار منفی ہوں تو میکیاولی،لاک اور لینن کی طرح معاشروں کی دنیا میں ایٹم بم کی طرح پھٹتے ہیں اور زلزلے کی طرح بربادی لاتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ بشریت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بغور مطالعہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ قومی اور ملکی سطح پر بادشاہ اور سپہ سالار جنگیں لڑتے ہیں، لیکن معاشرتی محاذوں پر لڑائی صرف اور صرف علماء، فقہاء، صاحبان قلم، دانشمندوں اور مفکرین کے درمیان ہوتی ہے۔

اگر کوئی قوم اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر دوسری اقوام کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے، لیکن اس کا دامن صاحبانِ علم و اجتہاد اور اربابِ فکر و دانش سے خالی ہو تو ایسی قوم جیتنے کے باوجود ہارنے والوں کی طرح زندگی گزارتی ہے اور فتح پانے کے باوجود اپنے آپ کو شکست خوردہ اقوام کی صف میں پاتی ہے۔ لیکن اگر کسی قوم کا دامن اربابِ فکر و دانش سے پُر ہو اور اسے کوئی دوسری قوم تلوار اور طاقت کے زور سے شکست بھی دیدے تو ایسی قوم بہت جلد اپنی شکست کو فتح میں بدل کر اپنی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کو بحال کرسکتی ہے۔ جس قوم میں مفکرین اور صاحبان علم و اجتہاد ہوتے ہیں، وہی قوم آگے بڑھ کر دوسری اقوام کی قیادت کرتی ہے اور جس قوم میں صاحبان علم و دانش کی کمی ہوتی ہے، وہ دوسری اقوام کے پیچھے پیچھے چلتی ہے اور ان کی تقلید بلکہ اندھی تقلید کرتی ہے۔

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جب تک دنیاء اسلام میں علم و تحقیق کا دور دورہ رہا، معصومین کی بالواسطہ یا بلاواسطہ درسگاہوں سے کئی مکاتب کے امام، کئی علوم کے بانی اور کئی ایجادات کے موجد نکلتے رہے، لیکن جب دنیاء اسلام پر مسلط بادشاہت و ملوکیت نے علمی مراکز کے گرد دائرہ تنگ کرنا شروع کر دیا، علماء کو بادشاہوں کے دروازوں پر جھکانے کی کوششیں کی جانے لگیں، فقہاء کے لئے شاہی دستر خوان سجنے لگے، شعراء، نوابوں کی شان میں قصیدے لکھنے لگے اور مورّخین شاہی حویلیوں سے وظیفے لینے لگے تو پھر عالمِ اسلام میں علمی و فکری زوال کی ایسی آندھیاں چلیں کہ امت مسلمہ کی شاندار تہذیب و ثقافت کی عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی۔ کچھ ہی عرصے میں مسلمان قوم سے اقوام کی رہبریت چھن گئی اور مسلمان بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح ذلت و رسوائی کے صحرا میں خاک چھاننے لگے۔

وہی مسلمان جن کی درسگاہیں اقوامِ عالم کی علمی و سیاسی سربراہی کر رہی تھیں، اب دنیا بھر میں گدائی کا کشکول لئے پھرنے لگے اور پھر عالمِ اسلام پر ایسا وقت بھی آیا کہ عربستان کا مسلمان، عرب قومیت کے بت کو پوجنے لگا، ایران کے مسلمان نے شہنشاہیت کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا، افغانستان کا مسلمان اپنی انا کے خول کے اندر بند ہوگیا، ترکی کے مسلمان نے سیکولر اسٹیٹ کی عبا اوڑھ لی اور ہندوستان کا مسلمان، تاجِ برطانیہ کی ہوس کا نوالہ بن گیا۔ یعنی یہ وہ زمانہ تھا جب پورے عالمِ اسلام پر غیر مسلموں کی علمی، فکری، ثقافتی، سیاسی اور عسکری یلغار بغیر کسی مزاحمت کے جاری تھی، مغل اقتدار کو اس کے درباری دانشمند لے ڈوبے تھے اور خلافتِ عثمانیہ کے تابوت میں اتاترک نے آخری کیل ٹھونک دی تھی۔

اس وقت جب امتِ مسلمہ کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا تو کسی تاج محل نے عالمِ اسلام کے سر پر شفقت کا سایہ نہیں ڈالا، کسی نور جہان کے باغ نے عالمِ اسلام کے دکھوں کا مداوا نہیں کیا، کسی بہادر شاہ کی بہادری ملتِ اسلامیہ کے کام نہیں آئی اور کسی شاہ جہان نے دم توڑتے اسلام کو اپنا خونِ جگر نہیں پلایا۔ جی ہاں! جب اسلامی ممالک پے در پے ٹوٹتے جا رہے تھے، مسلمان قوم مسلسل غلامی کی زنجیروں میں جکڑتی چلی جا رہی تھی اور اسلامی معاشرہ رو بہ زوال تھا تو پھر جمال الدین افغانی، الطاف حسین حالی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور علامہ محمد اقبال جیسے دانشمندوں نے ہی آگے بڑھ کر اسلام اور مسلمانوں کو سہارا دیا۔ ان مفکرین نے ایسے زمانے میں عالمِ اسلام کی خدمت کی، جب مدارس خانقاہوں میں تبدیل ہوچکے تھے، فکریں بک چکی تھیں اور قلم خرید لئے گئے تھے۔

امت مسلمہ اور اسلامی معاشرے کی تعمیرِ نو اور اِحیا کے لئے فکری، علمی اور عملی جدوجہد کرنے والی اہم شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت علامہ محمداقبال کی ہے۔ ہم لوگ کہنے کو تو اقبال کے علمی و فکری وارث ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ ابھی تک فکرِ اقبال کی "الف ب" سے بھی آشنا نہیں ہیں۔ اغیار اقوام، نسل در نسل اقبالیات پر تحقیق و تالیف و تراجم اور سیمینارز میں مشغول ہوکر مسلسل اقبال کے علمی و فکری سرچشمے سے سیراب ہو رہی ہیں جبکہ ہم نے آج تک اقبال کو صرف ایک شاعر سمجھ رکھا ہے، حتّٰی کہ اگر ہم اقبال پر کوئی مقالہ لکھنے یا تحقیق کرنے بیٹھتے بھی ہیں تو اقبال کے صرف چند اشعار کو جوڑ توڑ کر اپنی تحقیق یا مقالہ ختم کر دیتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے فکرِ اقبال پر کام کر لیا ہے۔ حالانکہ اقبال کسی رومانوی شاعر کے بجائے ایک عملی مجاہد تھے، اسی لئے اقبال خود بھی خود کو فقط شاعر کہلوانا پسند نہیں کرتے، جیسا کہ سید سلمان ندوی کے نام ایک خط میں آپ نے لکھا ہے: "میرا شعر کہنے کا مقصد ہرگز ادب برائے ادب نہیں کیونکہ مجھے اتنی فرصت نہیں کہ فنّی نزاکتوں کی طرف توجہ دوں۔ میرا مقصد صرف انقلابی افکار کو ظاہر کرنا ہے، چاہے آنے والے مجھے شاعر ہی نہ سمجھیں۔" ١

ہم اس مقالے میں حتّی المقدور امت مسلمہ کے مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں اقبال کے افکار کے ساتھ ساتھ اقبال کے عملی اقدامات کا بھی ذکر کریں گے۔ چونکہ ہمارے ہاں عمومی طور پر اقبال کو صرف ایک شاعر یا پاکستان کا قومی شاعر کہنے پر اکتفاء کر لیا جاتا ہے، اقبال کو صرف شاعر کہنا اور سمجھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے شہید مطہری کے بارے میں یہ کہا جائے کہ آپ بہت اچھے خطیب تھے، یا پھر حضرت امام خمینی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ آپ باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے۔۔۔ اقبال صرف شاعر نہیں تھے اور نہ ہی اقبال کی حقیقی شناخت شاعری ہے، جیسا کہ خواجہ حسن نظامی کے نام ایک اور خط میں بھی آپ نے لکھا ہے: "آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھتا اور شاعری کو کبھی بھی ایک فن کے طور پر نہیں لیا ہے۔" ٢

اقبال کی ساری زندگی، انتھک محنت اور استعمار کے خلاف جدّوجہد سے بھری پڑی ہے۔ اگر ہم فکرِ اقبال سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کے مسائل اور ان کا حل کیا ہے تو ہمیں پہلے اقبال شناسی کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔ اقبال کی معرفت کے بغیر فکر اقبال کو سمجھنے کی کوشش کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی نابینا انسان کسی لمبے سفر پر نکل پڑے۔ اقبال کی معرفت لائبریریوں میں سجے ہوئے کتابوں کے ڈھیر پڑھنے سے یا پھر اقبال کے اشعار اکٹھے کرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اقبال تو ایک مجاہد انسان ہے اور ایک مجاہد کی معرفت مجاہدین کی بزم سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ عصرِ حاضر میں اگر ہم کسی مردِ مجاہد کی زبانی اقبال کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای سے یہ معرفت حاصل کریں جو یہ فرماتے ہوئے ہوئے نظر آتے ہیں: "من مریدِ اقبال ہستم"

اسی طرح ڈاکٹر علی شریعتی کی شہادت کے موقع پر جب کسی نے آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے یہ سوال کیا کہ کیا ڈاکٹر شریعتی کا اقبال یا سید جمال الدین افغانی اسد آبادی کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے؟ تو اسوقت انہوں نے جو جواب دیا اس کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ شریعتی نے نسلِ نو کی فرہنگ (تہذیب) کے مطابق اسلام کو منظرِ عام پر ضرور لایا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم شریعتی کا موازنہ اقبال اور سید جمال الدّین سے کرنے لگ جائیں، سید جمال الدین وہ شخصیت ہے، جس نے سب سے پہلے"اسلام کی طرف واپس پلٹنے" کے مسئلے کو اٹھایا، سید جمال الدّین نے جو کام کیا، اس سے دنیا میں تین فکری انقلاب آئے، ایک ہند میں، دوسرا مصر میں اور تیسرا ایران میں۔ اقبال نے بھی دو فکری انقلاب لائے، ایک مغربی تہذیب و ثقافت سے رہائی کا اور دوسرا خود اسلام کی یعنی مشرقی تہذیب و ثقافت کی طرف پلٹنے کا اور یہ وہ فکر ہے جو کئی سال بعد شریعتی جیسے لوگوں نے ایران میں عام کی، شریعتی جو اپنی "خودی" کی طرف پلٹنے کی بات کرتا ہے، یہ وہ بات ہے جو 1930ء میں اقبال نے شریعتی سے 40 سال پہلے ہندوستان میں کر دی تھی اور خودی کے اشعار کے ذریعے ایک ملت کو وجود دے دیا تھا، جو ملتِ پاکستان ہے۔ شریعتی خود کو اقبال کا شاگرد سمجھتے تھے، وہ لوگ جنہوں نے شریعتی کی زبانی اقبال کا ذکر سنا ہے، ان پر واضح ہے کہ شریعتی کا اقبال سے موازنہ ٹھیک نہیں ہے۔ ٣

اگر ہم سید علی خامنہ ای کے علاوہ کسی اور دانشمند کی زبانی اقبال فہمی کا مرحلہ طے کرنا چاہتے ہیں تو مولانا مودودی اقبال کے بارے میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں: مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کی منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ جب اس کی تہہ میں پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔ ٤
اب آیئے شناختِ اقبال کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ فکرِ اقبال میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل کیا تھا۔ ہم فکر اقبال کے تناظر میں امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کو مندرجہ ذیل دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
1۔ ایسے مسائل جنہیں حل کرنے کے لئے اقبال نے فکری کاوشوں کے سمیت عملی اقدامات بھی کئے۔
2۔ ایسے مسائل جو اقبال کے نزدیک نہایت اہمیت کے حامل تھے لیکن اقبال کی عمر نے وفا نہیں کی اور اقبال کو انھیں عملی طور پر انجام دینے کی فرصت نہیں ملی۔ لہذا ان مسائل کا حل ہم فقط اقبال کے اشعار و مضامین یعنی افکار میں ڈھونڈتے ہیں۔

جب ہم فکر اقبال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو سمجھنا ہوگا اور جب ہم فکر اقبال کو ذاتِ اقبال کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال فقط گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی ہیں۔ اقبال نے جو سمجھا اور جو کہا اس پر خود بھی عمل کیا ہے۔ اقبال نے فلسفیوں کی طرح نہ ہی تو محض نظریہ پردازی کی ہے اور نہ ہی سیاستدانوں کی طرح فقط زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے بلکہ فکرِ اقبال میں جو امت مسلمہ کو درپیش مسائل تھے، اقبال نے انھیں حل کرنے کے لئے عملی طور پر کام کیا ہے اور خدمات انجام دی ہیں اور جن مسائل کو حل کرنے کی زندگی نے اقبال کو فرصت نہیں دی، اقبال نے ان کا حل تحریری صورت میں نظم و نثر کے قالب میں بیان کیا ہے۔ یادرکھیے! اقبال کی ایک خاص خوبی جس کے باعث اقبال کا آفتابِ فکر ہر دور میں عالم بشریت کے افق پر جگمگاتا رہے گا، یہ ہے کہ اقبال نے صرف امت کے مسائل نہیں اچھالے بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا ہے اور صرف حل ہی پیش نہیں کیا بلکہ عملی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد بھی کی ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 496359
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
مجھے ایک ٹی وی پروگرام کے لئے مواد چاہیے تھا۔ بہت خوشی ہوئی یہ کالم پڑھ کر میرا مسئلہ ہی حل ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ادارے کو مزید ترقی عطا کرے اور آپ لوگ اسی طرع علم و ہدایت کے چراغ جلاتے رہیں۔
ہماری پیشکش