0
Thursday 19 Nov 2015 12:46

صاحب بہادر چیف سی آئی اے کے نام

صاحب بہادر چیف سی آئی اے کے نام

تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

جناب صاحب بہادر! خدا آپ کا سایہ ہم ترقی پذیر ممالک پر قائم و دائم رکھے، کیونکہ ہمارا عروج و زوال آپ ہی کا مرہون منت ہوتا ہے۔ قدرت ہمیں وہ دن نہ دکھائے کہ آپ کی پیشانی شکن آلود ہو۔ حضور والا! ہمیں پتہ ہے کہ جس پر آپ کی ناراضگی سایہ فگن ہو، اس کا کیا حشر ہوتا ہے اور جو ملک آپ کی خوشنودی ہر حال میں مدنظر نہ رکھے، اسے کیسی عبرت ناک مثال بنایا جاتا ہے۔ یہ حقیر پاکستانی اس امر سے اچھی طرح  آگاہ ہے کہ جناب والا کو اپنے خاص مقاصد کو پورا کرنے کے لئے دانشوروں سے لیکر سیاسی راہنمائوں تک زندگی کے تمام شعبوں کے لئے مخصوص ڈھب کے لوگوں کی تلاش رہتی ہے، تاکہ انہیں اپنے مہرے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ یہ حقیر نوکر اس سے بھی باخبر ہے کہ آپ کے مرغوب لوگ وہ ہیں جو نہ صرف اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہوں بلکہ صرف اور صرف آپ کے احکام کے آگے سر خم کئے رہتے ہوں اور اس دھن میں اتنے پکے ہوں کہ جیسے ان کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں۔ آپ کو ناگوار گزرے گا لیکن آپ کے علم میں لانے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ احمق انہیں ضمیر فروش، وطن دشمن اور قوم کے غدار گردانتے ہیں اور ان کا شجرہ بنگال کے میر جعفر اور دکن کے میر صادق سے جا ملاتے ہیں۔ یہ ذہنی طور پر مفلوج اور یکطرفہ سوچ رکھنے والوںکا انداز نظر ہے، جو ذاتی مفاد پر ملک کے فائدے کو احمقانہ طور پر ترجیح دیتے ہیں، لیکن ملال کی کوئی بات نہیں، محمد علی جناح نامی شخص کے بعد ایسے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ اسی لئے تو آپ کی منڈی میں بکائو مال کی بولی لگتی ہے اور بکنے والوں کے دام بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔

اب تو آپ کی دی ہوئی دانش بہت ترقی کرچکی ہے، ہر صاحب سمجھ جانتا ہے کہ کیریئر سب کچھ ہے اور مادیت کے عروج پکڑنے سے یہ بنیادی نکتہ بھی آپ کے ہر غلام کی طرح ہر انگریزی سوچ کا حامل سمجھ چکا ہے کہ قوم کوئی ماں بہن تو نہیں کہ جس کی عزت کی خاطر جان کی بازی لگا دی جائے، یہ تو غریب کی جورو ہے، جس طرح آپ کے امریکہ میں یہ سب رشتے غیر جمہوری نہیں ہوتے کہ آپ ان کا پاس رکھیں۔ آپ کا اقبال بلند ہو! فقط میں ہی نہیں، نصف سے زائد قوم اس رنگ میں رنگی جا چکی ہے، ہر ایک کے سامنے ذاتی مفاد ہی ہے۔ جب آدھی سے زیادہ قوم امریکی نیشنلٹی کی آرزو لئے تعلیم، فن اور عبادت کے میدان میں صرف اس لئے جان جوکھوں میں ڈالے ہوئے ہے کہ آپ کے ملک کی شہریت مل جائے تو زندگی شاد ہو جائے۔ آپ کو زحمت مطالعہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے سامنے اپنے ملک کو تباہ کرنے اور اپنی قوم کو رسوا کرنے کا کوئی عمداً اور سو فیصد نتیجہ دینے والا پلان نہیں۔ آپ نے حقانی ایسوں کو بھیجا بھی، لیکن نہیں معلوم جلد ہی واپس بلا لیا۔ حالانکہ ان کی پھرتیاں دیکھ کے ایک دل خوش ہوا تھا کہ کوئی تو کھل کے سامنے آیا۔ آپ منظوری دیں تو ممکن ہے کہ رشوت ستانی، نااہلی، اقرباء پروری، صوبائی، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ تعصب کو تشدد کے ذریعے ایسا رنگ دیا جا سکتا ہے کہ ملک پاکستان کو ٹکڑے کرنے کی آپ کی دیرینہ خواہش جلد از جلد اور کم خرچ میں پوری ہو۔ بس آپ کا اتنا تعاون درکار ہے کہ ڈرون حملوں کے ساتھ ہمیں روس کے خلاف لڑی گئی جنگ کا بچا کھچا سامان عنایت فرمائیں، تاکہ چند ضدی محب وطن عناصر کی اس بے وقوفی کی عبرتناک سزا دینے میں کوئی ابہام نہ رہے۔

یہ چیزیں تو اب ہماری فطرت ثانیہ بن چکی ہیں، ان سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اسی لئے تو ہم ان کے اثرات سے بے خوف ہوچکے ہیں۔ یہ چیزیں آپ کے لئے پریشان کن نہیں البتہ ایک چیز کا دھڑکا ہر وقت لگا رہتا ہے کہ کبھی کبھی کوئی ٹیری جونز ایسی غلطی کر جاتا ہے کہ یہ سب ایک ہو جاتے ہیں اور آپ سرکار کے غلاموں کو نئے سرے سے ماحول بنانے میں دقت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن یہی وہ موقع ہوتا ہے کہ جب آپ کے دمساز مجھ جیسے شریف شہری کروڑوں کی تعداد سے الگ ہو کر نمایاں ہو جاتے ہیں۔ میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ کروڑوں کی آبادی میں ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفاد کی تکمیل کے لئے آپ کی ملازمت کرنے والوں کی کمی نہ ہوگی، لیکن اس احساس کے باوجود میں یہ جسارت کر رہا ہوں کہ آپ کو مجھ سے زیادہ بہتر، زیرک، فرض شناس اور کارآمد کارکن نہیں ملے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بس میں ہی ہوں، خدا نہ کرے کہ ایسی جسارت کروں، آسمان و زمین کی گردش نہ تھم جائے اور سلسلہ لیل و نہار نہ رک جائے کہ پاک سرزمین ایسے نوکروں سے خالی ہو۔ میری تو فقط اتنی سی التجا ہے کہ مجھے بھی ان شاہین صفت اور سیمابی روح رکھنے والے لوگوں کے مخصوص کیڈر میں شرف بخشا جائے، کیونکہ میں تو ایک دانشور ہوں اور مجھ جیسوں کا تعلیم حاصل کرکے اپنی قوم کی قسمت سنوارنے جیسے گھٹیا اور محدود کاموں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ میرا کام تو بین الاقوامی مسائل کو سلجھانا ہے۔ اگر میری کوئی لگن ہے تو صرف یہ کہ آپ کی کوئی خدمت کرکے عوام الناس کو بھلا سکوں۔

یوں تو میری زندگی میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں، لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں، جن کی وجہ سے کچھ لوگ، کچھ ادارے، کچھ تصورات مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ میں ایک دفعہ پھر دست بستہ عرض گذار ہوں اور اپنی ناتوانی کا اقرار کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ مذکورہ تصورات اور افراد کو میں اکیلا تبدیل نہیں کرسکتا، لیکن آپ کی غلامی میں اور سایہ شفقت میں، پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ آپ کے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے بہت ساری تبدیلیاں لاسکتا ہوں۔ بعض کم عقل اس کو بھی نظریہ پاکستان سے انحراف اور اسلام سے غداری موسوم کریں گے، لیکن آپ مطمئن رہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ اقدار اور نعرے تو اتنے مبہم ہوچکے ہیں کہ موجودہ نسلوں کو ان کا کچھ پتہ نہیں اور آپ بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اکثریت نماز بھی پڑھتی ہے اور انگلش فلمیں بھی دیکھتی ہے۔ عیدین بھی ادا کرتے ہیں اور  ویلنٹائن ڈے بھی مناتے ہیں۔ امریکہ مردہ باد کے نعرے بھی لگاتے ہیں اور امریکی ویزے کی منتیں بھی مانتے ہیں۔ بعض نا ہنجار ہیں ایسے جو سادہ لوح عوام کو ورغلا کر یہ بات ناجائز طور پر ان کے اذہان میں انڈیلنے کے چکر میں لگے رہتے ہیں کہ بھئی یہ جو ہمارے میں زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے (گستاخی معاف) یہ انہیں مغربی طاقتوں کا ہی کیا دھرا ہے، جن ممالک میں جانا چاہتے ہو اور جا کے بسنا چاہتے ہو۔

لیکن میری پھر بھی یہ گزارش ہے کہ کسی نہ کسی طرح مجھے عالی جناب کے وفاداروں میں شمار کیا جائے۔ میں نے بہت محنت کرکے معاشرے کے مختلف طبقات میں تعلقات استوار کئے ہیں۔ یونیورسٹی اور کالج کے طلبہ و طالبات، میڈیا کے افراد، ادبی ذوق کے حامل اہل قلم و اہل سخن، تجرد پسند، مجمع باز، محقق، بپلک ڈیلنگ کے ماہر، سیاسی شعبدہ باز، معاشرتی کاریگر، جاہلی پیشوا، قوم فروش ملا، کرائے کے جہادی اور نفسیاتی طور پر برادریوں کو یرغمال بنا کر اللہ کے نام پر بیچنے والے لٹیروں سمیت آپ کی ضرورت کا سارا مال میری جیب میں ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میری شان میں فقط اسی صورت اضافہ ہوسکتا ہے کہ میں آپکی جیب میں رہوں۔ جناب کا اقبال بلند ہو مجھے وزٹنگ کارڈ نہ سہی تو کم از کم ٹشو سمجھ کے اپنی جیب کی زینت بنا لیجئے۔ میں آپ کے خوابوں کی تعبیر ہوں۔ نہ مجھے خدا کا خوف ہے نہ آخرت کا ڈر۔ میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ کو منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے لئے نئے خون کی ضرورت ہے۔ میں ایک تازہ ڈگری ہولڈر ہوں اور خدمت کے لئے ایک دم تیار۔ اس کے علاوہ بوڑھے استعمار برطانیہ کی طرح میری قوم کو ایک سیدھی سادھی اور اللہ رسول کے نام پہ اتحاد رکھنے والی قوم سے بدل کر مختلف افتراقی اور فرعی اختلافات کو ہوا دیکر ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لئے اطلاع رسانی کے جدید وسائل جیسے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے استعمال کے لئے بھی میں فٹ ہوں۔ میرا قلم آپ کی امانت ہے اور میرے لفظ آپ کے ترجمان۔ الفاظ و معانی کے چکر میں مسلمان پبلک کو گھمانے کا جو ہنر میرے پاس ہے، اسکی گواہی تو میری جیب میں پڑے آپ کے ڈالے ہوئے سکے ہیں۔ میں ہمہ تن کوشاں ہوں کہ کوئی مسلمان بچہ سچا دیندار نہ بنے۔ کوئی عورت عصمت و حیا کی تصویر نہ رہے۔ مثال کے طور بھی کوئی پکا عاشق رسولؐ نہ ملے۔

جناب عالی! آپ کو میرے ہنر اور کمال کا اعترف کرنا پڑے گا کہ میں نے کسی بیرونی طاقت کو پاکستان پر حملے کا موقع نہیں دیا، لیکن چند سالوں میں کوئی گھر ایسا نہیں چھوڑا جہاں صف ماتم نہ بچھی ہو، کفن میں لپٹی لاشیں نہ آئی ہوں۔ حضور کی خدمت میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ملک میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے سنی شیعہ بھائیوں  کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے میں نے ایسے درندہ صفت ان کے سامنے لا کھڑے کئے ہیں کہ وہ سو سو لاشیں اکٹھی دفنانے پر مجبور ہیں۔ آپ کے دیس میں انصاف کا بہت چرچا ہے، لیکن یہ منظر آپ نے مسلمانوں کے قتل عام کا سرٹیفیکٹ دینے والی عدالتوں کے بعد تاریخ میں پہلی بار دیکھا ہوگا کہ عدالت ایک ہی وقت میں قاتلوں کو رہا کرنے کا حکم بھی دے اور اسی وقت میں ان کے خلاف آپریشن کا حکم بھی صادر کرتی ہو۔ میں فقط اپنے کلام اور قلم کی تقدیس کے لئے یہ ضروری نہیں سمجھتا کہ وہ آپ کی خدمات پر غلاظت اگلے بلکہ اب تو میں نے آپ کے ڈیویلپمنٹ فنڈ سے جوانوں کی ایسی فوج تلاش کر لی ہے، جو بارود کی آگ کے بغیر جنت کی سیر کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ المختصر یہ کہ میں ہر اس شخص سے واقف ہوں، جو کسی نہ کسی طرح آپ کے اہداف کے حصول میں ایک پرزہ بن سکتا ہے۔ اس لئے آپ مجھے جس نوع کا بھی مشن سونپیں گے، اس کی کامیابی کے لئے میرے پاس موزوں اور مناسب لوگوں کی کمی نہ ہوگی اور آپ کو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیئے کہ میں ہر قسم کے آدمی کو  اپنے ڈھب پر لا کر اس سے کام نکلوا سکتا ہوں۔

صحافی اور سیاست والوں سے لیکر سمگلروں اور غنڈوں تک سبھی کی رعایتی قیمتوں سے اچھی طرح آگاہ ہوں، ان کی بولی لگا سکتا ہوں، شاپنگ کرسکتا ہوں اور جب قیمت زر مبادلہ کی صورت میں لگتی ہے تو بڑے بڑوں کو ایمان اور استقامت نصیب ہو جاتی ہے۔ ہم اپنے آپ کو نیلامی میں پیش کرنا اپنے ملک اور قوم کی عظمت کے لئے نہایت نیک شگون سمجھتے ہیں۔ شاید آپ ہماری قومی کمزوری سے آگاہ نہ ہوں کہ ہمیں امپورٹیڈ چیزیں بہت پسند ہیں اور ڈالر تو ہماری جان بن چکا ہے۔ اسکی عزت افزائی کے لئے تو ہم نے بابائے قوم کی تصویر والا روپیہ بھی رسوائی کی حد تک بے قیمت کر دیا ہے۔ جناب عالی! میں نے آپ کو زحمت تو دی ہے لیکن کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ فی الوقت آپ کی خدمت میں مختصر الفاظ میں اپنے کوائف پیش کرنا مقصود تھا۔ آپ سے یہی التجا ہے کہ مجھے ایک مرتبہ خدمت کا موقع ضرور دیا جائے۔ میں آپ کی ہر آزمائش پر پورا اتروں گا۔ عجز و نیاز کی اس سے بڑھ کر اور کیا منزل ہوگی کہ اگر میں کام پورا نہ کرسکوں تو مجھے عراق کے صدام اور لیبیا کے قذافی کی طرح رسوا کرکے قتل کر دیا جائے، لیکن میری درخواست نہ ٹھکرائی جائے۔
                                                              
                                                                   آپ کا خادم
                                                                  ہنر مند قلم کار

خبر کا کوڈ : 498882
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش