2
Saturday 12 Dec 2015 22:50

ترکی، عراق کشیدگی کے اسباب

ترکی، عراق کشیدگی کے اسباب
تحریر: عرفان علی

ترکی ایک متضاد اور مضحکہ خیز موقف کے ساتھ زبردستی عراق میں گھس بیٹھا ہے۔ بار بار موقف تبدیل کر رہا ہے۔ پہلے کہا کہ عراقی حکومت کی دعوت پر فوجی تربیتی مشن پر بعشیقہ کیمپ کے علاقے میں فوجی بھیجے ہیں۔ پھر کہا کہ ٹریننگ مشن پر مامور ترک فوجیوں کی حفاظت کے لئے بیک اپ فوجی بھیجے ہیں اور جب عراقی حکومت نے یہ سارے موقف مسترد کرکے وارننگ دی کہ اڑتالیس گھنٹوں میں مکمل فوجی انخلاء کرے تو ترکی کا موقف آیا کہ موصل میں موجود داعش سمیت دیگر دہشت گردوں سے ترک سلامتی کو خطرہ ہے اور عراق حکومت موزوں اقدامات نہیں کر رہی اس لئے ترک فوجی وہیں رہیں گے۔ بعشیقہ کیمپ کا علاقہ صوبہ نینوا میں دھوک اور اربیل صوبوں کے قریب واقع ہے، یعنی کرد علاقے کے نزدیک یہ آشوری مسیحی اور ایزدی فرقے کا علاقہ ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ ڈیڑھ سو فوجی عراقی حکومت کو مطلع کئے بغیر بھیجے ہیں۔ لیکن عراق کے وزیر دفاع خالد ال عبیدی نے بتایا کہ تقریباً ایک ہزار ترک فوجی بھیجے گئے۔ عراقی حکومت کے اعتراض پر پہلے ترک وزیراعظم داؤد اوغلو نے کہا کہ جب تک عراقی حکومت کے ساتھ معاملات طے نہیں پا جاتے، تب تک مزید ترک افواج نہیں بھیجی جائیں گی۔ لیکن تب چھ سو فوجی بھیجے جاچکے تھے اور تین سو پچاس 350 ترک، عراق سرحد پر جمع تھے۔ عراقی وزیر خارجہ ابراہیم ال جعفری نے ان کے موقف کو مسترد کرکے مطالبہ کیا کہ سوائے مکمل فوجی انخلاء کے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

عراقی وزیراعظم حیدر ال عبادی کی ہدایت پر اقوام متحدہ میں عراق کے سفیر محمد علی ال حکیم نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں درخواست جمع کرا دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کاؤنسل ترکی سے مطالبہ کرے کہ وہ عراق سے مکمل فوجی انخلاء کرے۔ یہ درخواست اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور کے حوالے کر دی گئی ہے، کیونکہ ان دنوں سلامتی کاؤنسل کی صدارت ان کے پاس ہے۔ عراقی موقف یہ ہے کہ دو طرفہ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ ترکی کا عمل aggressive act ہے۔ داعش سے لڑنے کے لئے فوجی معاونت دو طرفہ یا کئی طرفہ معاہدے کی بنیاد پر ہونی چاہیئے اور خاص طور پر عراقی خود مختاری کو ملحوظ خاطر رکھ کر اور عراقی فوج کی کو آرڈی نیشن سے ہونی چاہیئے۔ ٹویٹر پر عبادی نے کہا کہ ترکی نے عراقی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ یہ ان کا آئینی اور قومی فریضہ ہے کہ وہ ملک کی جغرافیائی حدود کی حفاظت اور اس کی خود مختاری اور سلامتی کو یقینی بنائیں۔

عراق کے اراکین قومی اسمبلی نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ترکی جھوٹا ہے، کیونکہ ترکی نے افواج وہاں تعینات کی ہے جہاں عراق کی افواج موجود ہی نہیں ہیں۔ جمعرات 10 دسمبر کو ترک وفد عراق پہنچا، جس کو عراقی حکومت نے خوش آمدید کہا۔ ترک انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ ہاکان فدان کی سربراہی میں ترک وفد کو عراق میں بتا دیا گیا کہ اب یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا اور مکمل فوجی انخلاء سے ہی دونوں ممالک کے خوشگوار تعلقات کا دروازہ کھلے گا۔ عراق کے مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی کے ترجمان عبدالمہدی نے مرجع تقلید کا موقف جمعہ کے روز بیان کر دیا ہے اور عراقی حکومت اسی موقف کے تابع دکھائی دیتی ہے۔ یہ ہے ترکی اور عراق کے درمیان موجود کشیدگی کی تفصیلات۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترکی عراق کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دینا کیوں چاہتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ترکی عراق کی داخلی سیاست میں مداخلت کا قائل ہے۔ امریکی افواج کی موجودگی میں ترکی عراق کی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرد علاقے میں بمباری کرتا رہا ہے۔ دھوک اور اربیل صوبے ترکی کی سرحدی پٹی پر واقع ہیں جبکہ نینوا صوبہ جس میں موصل شہر واقع ہے، یہ شام کی سرحدی پٹی پر واقع ہے۔ بعشیقہ کیمپ ہے تو موصل کے قریب لیکن دھوک اور اربیل کی سرحدی پٹی کے قریب۔ ترکی عراق میں اسامہ ال نجیفی کے گروپ کی سرپرستی کرتا ہے، جبکہ عراق کے ترک النسل افراد یعنی ترکمن اس سے نفرت رکھتے ہیں، چونکہ وہ دھوکے باز اور بدعنوان ہے۔ اس کے ساتھ مشکل سے دو ہزار افراد ہیں اور وہ عراقی حکومت سے آٹھ نو ہزار افراد کا فنڈ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ترکمن افراد اس عوامی لشکر میں شامل ہیں جو آیت اللہ سیستانی کے فتوے کی روشنی میں بنایا گیا ہے اور جس میں سنی عرب اور شیعہ سبھی شامل ہیں۔

عوامی لشکر یا حشد الشعبی داعش سمیت دیگر عراق دشمن دہشت گردوں کے خلاف کامیابی سے لڑ رہا ہے۔ اس لشکر کی مدد اور حمایت سے عراق کی سکیورٹی فورسز نے کئی علاقے آزاد کروائے ہیں۔ لیکن ترکی عراق کی حکومت پر فرقہ واریت کا الزام لگا کر اپنی نیابتی جنگ اسامہ نجیفی جیسے گروہوں کے ذریعے بھی لڑنا چاہتا ہے اور اپنی فوج کے ذریعے دیگر گروہوں کو مضبوط کرنے کا خواہشمند بھی ہے۔ موصل اور پورے نینوا پر اس وقت اسامہ نجیفی کے بھائی گورنر کی حکومت تھی، جب یہاں داعش نے حملہ کیا اور قبضہ کیا تھا۔ لیکن نہ تو نجیفی اپنے صوبے کا دفاع کر پائے اور نہ ہی داعش کو تاحال بھگا پائے۔ ایک ترک صحافی نے اپنے ملک کی حکومت کو یاد دلایا ہے کہ یہ شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے، 2003ء میں بغداد میں ترک سفارتخانے پر خودکش حملہ ہوا تھا اور 17 دسمبر 2004ء کو موصل میں ترک اسپیشل فورسز کو مارا بھی گیا تھا اور یہ کام سنی عربوں نے کیا تھا، یعنی زمینی حقیقت یہ ہے کہ عرب ترکوں کے لئے بانہیں پھیلائے نہیں بیٹھے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ترک حکومت عراق میں جو اہداف رکھتی ہے، وہ تاحال اسے حاصل نہیں کر پائی ہے۔ الٹا اس کے ہم نسل عراقی یعنی ترکمن اس کے خلاف ہوچکے ہیں۔

ہفتہ کی شب سحر اردو ٹی وی کے سیاسی ٹاک شو انداز جہاں میں اس موضوع پر گفتگو کے وقت میں نے پرانی باتوں کی تکرار کو مناسب نہیں سمجھا، ورنہ میں روس کیساتھ ترک کشیدگی کے بارے میں 25 اور 30 نومبر کو بیان کرچکا ہوں کہ ترکی یورپی یونین میں شمولیت کے لئے ایسا کر رہا ہے یا نیٹو کے کسی خفیہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، یا اس کا کوئی اور سبب ہو، ایک بات واضح ہوچکی کہ یہ اس کے مفاد میں نہیں۔ یہ بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس خطے میں اصل مسئلہ اسرائیل ہے، جس کا گریٹر اسرائیل کا خواب چکنا چور ہو رہا تھا تو اس نے شام اور عراق میں مزاحمت کے محور کے خلاف نیابتی جنگ شروع کروا دی اور امریکہ نے ہمیشہ کی طرح اس کی سازش میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ شین بیتھ کے سابق سربراہ ایمی ایالون نے چارلی روز کو انٹرویو میں ایک سنی کوالیشن کی بات کی تھی کہ ایران، شام، حماس و حزب اللہ کے خلاف اسرائیل ترک اور عرب سنی کوالیشن بنا کر مقابلہ کرے گا۔

آج یمن، شام اور عراق میں اس کوالیشن کی اسلام اور عرب دشمن سازشیں پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ ویسے بھی ترکی دنیا کا واحد مسلمان ملک ہے جس کی پارلیمنٹ میں صہیونی صدر شمعون پیریز نے خطاب کیا، رجب طیب اردگان کے ترکی نے پاکستان اور اسرائیل میں دوستی کروانے کے لئے اپنی سرزمین پیش کی، جس کی تفصیلات اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب Netither a Dove nor a Hawk میں تحریر ہیں۔ ترکی نے یورپی یونین سے مایوس ہوکر مشرق کی سمت دیکھنا شروع کیا اور پڑوسی ممالک کے ساتھ زیرو پرابلم کی سفارتکاری شروع کی، لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ ترکی کو یورپی یونین سے امید افزا اشارے ملے ہیں اور اس کی قیمت پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی ہے، آرمینیا کے ساتھ تاریخی طور پر تنازعات تھے، روس، شام اور اب عراق۔ ایسے نہ ہو کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
خبر کا کوڈ : 504623
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش