0
Monday 4 Jan 2016 11:30

درد بہت گہرا ہے

درد بہت گہرا ہے
تحریر: سید اسد عباس

محمد و آل محمد اور ان کے اصحاب باوفا پر طول تاریخ میں ہونے والے مظالم پر نسلوں سے گریہ کرنے والی قوم کیسے برداشت کرسکتی ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی میثم تمار سولی پر جھول جائے اور وہ خاموش تماشائی ہوں، کسی مسلم بن عقیل کا سر قلم ہو اور وہ آواز بلند کرنے کی ہمت رکھنے کے باوجود خاموش رہیں۔ کوئی ابوذر شہر ربذہ کی جانب بے دخل کر دیا جائے اور وہ بے اعتنا رہیں۔ اس درد کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ درد کسی ایک فرد کے قتل کا درد نہیں ہے، یہ کوئی فرقہ وارانہ درد نہیں ہے۔ اس درد کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ تاریخی پس منظر کا حامل یہ درد کسی بھی انسان کو جھنجلا دینے کے لئے کافی ہے۔ اس درد پر ایک اضافی درد یہ ہے کہ کوئی اسے باغی کہتا ہے اور کوئی دہشت گرد، اپنے پرائے شیخ نمبر باقر النمر شہید کے قتل کو مختلف انداز سے بیان کر رہے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ شیخ نمر کون تھے، ان کا موقف کیا تھا، انھوں نے کیوں کر موت کو گلے لگایا، ہر شخص اپنی اپنی عینک لگائے ان کی شخصیت پر تبصرہ کر رہا ہے۔ صحافی برادری کبھی انھیں داعش کا رکن کہتی ہے تو کبھی شیعہ رافضی اور کبھی حکومت آل سعود کا باغی۔ حق و باطل کے معیارات ان لفظوں میں یوں دھندلا گئے ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے اور معتدل صحافی و دانشور اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے درپے ہیں۔

ان سب سے فقط اتنا کہوں گا کہ خدا کا خوف کریں۔ اگر خدا نے آپ کو بات کرنے کا ہنر دے ہی دیا ہے، آپ اس قابل ہوچکے ہیں کہ ٹی وی کے کیمروں کے سامنے آسکیں، قلم کو استعمال کرتے ہوئے اپنی رائے لوگوں تک پہنچا سکیں تو اس استحقاق کے ساتھ موجود اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھیں۔ حق و باطل کو خلط ملط مت کریں۔ ہاں اگر آپ اس مقصد کے لئے کسی دنیاوی فائدہ کے متمنی ہیں تو آپ سے بات کرنا بے معنی ضرور ہے، تاہم اتمام حجت بہرحال ضروری ہے، کیونکہ یہی منہج محمد و آل محمد ہے۔ شیخ نمر شیعہ عالم دین ضرور تھے، لیکن وہ بہرحال ایک انسان پہلے تھے۔ دنیا میں لاکھوں شیعہ بستے ہیں، لیکن ہر شیعہ شیخ نمر نہیں ہے۔ اس شخص کو بھلا آل سعود سے ٹکرانے کی کیا ضرورت تھی، سعودیہ کے مشرقی علاقوں قطیف و احصاء میں شیعہ صدیوں سے آباد ہیں، یہ شیعہ جب سے آل سعود کی حکومت قائم ہوئی ہے، ان حالات سے گذر رہے ہیں، جن کا تذکرہ شیخ نمر نے اپنی ایک تقریر میں کیا، لیکن کبھی کسی شیعہ نے اس خوف کی فضاء سے چھٹکارا نہیں پایا اور نہ ہی اس کی کوشش کی۔

شیخ نمر کا قصور فقط یہی ہے کہ وہ اس فضا میں زندہ نہیں رہ سکتے تھے، جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں اس انداز سے کیا: ’’ہم سو سال سے ڈر، خوف، ظلم اور بربریت کے تحت زندہ ہیں۔ میری عمر پچپن سال سے کچھ زیادہ ہے۔ اپنی پیدائش سے لے کر آج تک میں نے اپنے آپ کو کبھی بھی اس مملکت (سعودیہ) میں محفوظ نہیں سمجھا۔ ہم پر کوئی نہ کوئی الزام لگا کر ہمیں پریشان کیا جاتا ہے۔ حتی کہ ہم دیواروں سے ڈرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ملک کی سکیورٹی سروس کا سربراہ کہتا ہے کہ ہمارا بس چلے تو ہم تم سب کو قتل کر دیں۔ تمہیں زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔ یہ ان کی منطق ہے۔ آو ہمیں قتل کرو، ہمارا خون وہ کم سے کم قیمت ہے، جو ہم اپنی اقدار کے تحفظ کے لئے ادا کر سکتے ہیں۔ ہم موت سے نہیں ڈرتے۔ ہم شہادت کے متمنی ہیں۔‘‘ اس تقریر کا ایک ایک جملہ شیخ نمر کی تحریک کو بیان کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جب سے بحرین میں تحریک کا آغاز ہوا ہے، سعودی افواج وہاں موجود ہیں اور قطیف و احصاء میں بھی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، یہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ کوئی بیرونی ملک مداخلت کر رہا ہے۔ ان میں اتنی جرات نہیں کہ یہ اس ملک کا نام لیں۔ ان کی عموماً اس سے مراد ایران ہوتا ہے۔‘‘

شیخ نمر نے کہا کہ ’’دس دسمبر 1978ء کو عوامیہ کے عوام نے اپنی حرمت کے تحفظ کے لئے قیام کیا، جب پولیس اس قصبے پر حملہ آور ہوئی، یہ وہ وقت ہے جب شاہ ایران ابھی اقتدار میں تھا، ایران میں انقلاب اسلامی برپا نہیں ہوا تھا۔ انقلاب اسلامی ایران کے برپا ہونے سے چار ماہ قبل۔ عوامیہ کے عوام کے کوئی سیاسی مفادات نہیں تھے، کوئی امن و امان کا مسئلہ نہیں تھا۔ فقط عزاداری کا حق مانگ رہے تھے۔ فقط یاحسین ؑ کی صدا بلند کر رہے تھے۔ اپنی حرمت اور اپنے عقیدے کا دفاع کر رہے تھے اور پولیس ان پر ٹوٹ پڑی۔ اس رات انہوں نے سو افراد کو گرفتار کیا۔ انقلاب ایران سے قبل 1978ء میں۔ یہ کیسے بیرونی مداخلت کی بات کرتے ہیں۔‘‘ شیخ نمبر کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے کہا ’’سعودی حکومت کہتی ہے کہ ہم آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے، کیا تم ان مساکین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹو گے، جو تمہارے تحت زندگی کر رہے ہیں، جاؤ ایران پر حملہ کرو۔ وہاں اپنا آہنی ہاتھ استعمال کرو۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ہمارا ایران و غیر ایران کسی ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم اپنی اقدار سے پیوست ہیں اور ان کا ہر حال میں تحفظ کریں گے، چاہے تمہارا میڈیا چیزوں کو بگاڑ کر جو کچھ بھی بیان کرتا رہے۔ ہم تمہارے ظلم، بربریت کے خلاف اپنے صبر اور ایمان کے ساتھ مقاومت کریں گے۔ تم زیادہ سے زیادہ ہمیں قتل کرسکتے ہو، ہم شہادت فی سبیل اللہ کا استقبال کرتے ہیں۔ زندگی انسان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی بلکہ اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ ہم اس سرزمین پر آزاد لوگوں کی مانند زندہ رہیں گے یا اس میں نیکوکاروں کی مانند دفن ہوجائیں گے۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور راہ نہیں ہے۔ ہم خدا اس کے رسول اور ان کے اہلبیت علیہ السلام کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہیں۔ حاکمیت کا حق خدا کو ہے اور کوئی ظالم اس حق کا مالک نہیں بن سکتا۔‘‘

شیخ نمر نے اپنے آئمہ اور ان کے باوفا اصحاب کی مانند اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ ان کا قیام حق کے لئے تھا، اپنی پچپن سالہ زندگی جس میں انہوں نے سعودی ظلم و بربریت کے تحت زندگی گزاری، سے آخر کار برات کا اظہار کیا اور ظلم و خوف کی تمام پرتوں کو چیر کر اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔ یہی ان کا جرم ہے۔ یہ جرم حریت پسند انسان صدیوں سے کرتے آرہے ہیں اور آنے والی صدیوں میں بھی کرتے رہیں گے۔ ان حریت پسندوں کا خون کبھی دب نہیں سکتا۔ کربلا میرے اس دعوے پر گواہ ہے۔ یہ خون بہت جلد ظالم کو اپنے انجام تک پہنچائے گا، بالکل اسی طرح جیسے کل کا باطل اپنے انجام کو پہنچا، جیسے صدام ، قذافی، شاہ ایران اور دنیا کے تمام مستکبر اپنے انجام کو پہنچے۔ یہ سنت الہی ہے، جو روز اول سے دنیا میں رائج ہے۔ خداوند کریم شہید نمر باقر النمر کو روز قیامت شافع محشر کے پرچم تلے محشور فرمائے اور ہم کو حق کی شناخت کی توفیق دے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 510150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش