0
Thursday 18 Feb 2016 08:00

بجلی چوروں کیلئے ایک نیا قانون، گھریلو صارفین کیلئے بجلی مہنگی

بجلی چوروں کیلئے ایک نیا قانون، گھریلو صارفین کیلئے بجلی مہنگی
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

حکومت نے بجلی قوانین میں ترمیم کرکے سزائیں انتہائی سخت کر دیں، نادہندگان کی جائیداد قرق کرلی جائے گی، وزارت پانی و بجلی میں چوری کی اطلاع کیلئے خصوصی ڈیسک بھی قائم، گھریلو صارفین کیلئے سب سے زیادہ ٹیرف نافذ، صنعتکاروں کو سستی بجلی کی فراہمی کیلئے دوبارہ اربوں روپے کی ماہانہ سبسڈی شروع، اقدام ٹیرف ریشنلائزیشن پالیسی کے منافی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت پانی و بجلی نے بجلی چوروں کیلئے ایک نیا قانون متعارف کرا دیا ہے، جس کے تحت بجلی کی چوری پر ایک نہیں، دو نہیں بلکہ پورے سات سال قید بامشقت کی سزا اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔
قانون میں ترمیم کے بعد بجلی چوروں کو ممکنہ طور پر سخت سزاوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:

1۔ نئے قانون کے تحت بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں نادہندگان کی جائیداد قرق کر لی جائے گی۔
2۔ نئے قانون کے تحت بجلی چور کی بغیر وارنٹ ناقابل ضمانت گرفتاری ہوسکے گی۔
3۔ بجلی کی چوری پر سات سال قید بامشقت اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ عائد ہوسکے گا۔
4۔ نئے قانون کے تحت ڈسٹری بیوشن لائن پر کنڈا ڈالنے پر تین سال تک قید بامشقت یا 30 لاکھ روپے تک جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں ہوں گی۔
5۔ صنعتی یا کمرشل صارفین کی طرف سے ٹیمپرنگ کرکے بجلی میٹر کو سست کرنے پر تین سال قید بامشقت یا 60 لاکھ روپے جرمانہ عائد ہوگا۔
6۔ زرعی صارفین کی جانب سے بجلی میٹر کو سست کرنے پر دو سال قید بامشقت یا 25 لاکھ روپے جرمانہ اور بجلی کی ٹرانسمیشن
اور ڈسٹری بیوشن لائنوں کو توڑنے پر سات سال قید بامشقت اور 30 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
7۔ بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں سے چوری پر تین سال قید بامشقت یا ایک کروڑ روپے جرمانہ ہوگا۔
8۔ نئے قانون کے تحت بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں نادہندگان کی جائیداد قرق کر لی جائے گی۔
نئے قانون پر عمل درآمد کے سلسلے میں وزارت پانی و بجلی نے بجلی چوری کی اطلاع کیلئے خصوصی ڈیسک بھی قائم کر دیا ہے۔  وزارت پانی و بجلی کے ترجمان نے میڈیا ذرائع کو بتایا ہے کہ عوام بجلی چوری کی اطلاع بذریعہ ٹیلی فون دے سکتے ہیں۔

بجلی کے ٹیرف میں ظالمانہ تبدیلی:
دوسری طرف ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ گھریلو صارفین کیلئے سب سے زیادہ ٹیرف نافذ ہوگیا ہے، جبکہ صنعت کاروں کو سستی بجلی کی فراہمی کیلئے دوبارہ اربوں روپے ماہانہ سبسڈی شروع کر دی گئی ہے۔ وزارت پانی و بجلی کی دستاویز کے مطابق وزیراعظم سپورٹ پیکیج کے تحت ملک بھر کے صنعتکاروں کیلئے بجلی 3 روپے فی یونٹ سستی کی گئی ہے۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں تمام شعبوں کیلئے کمی کے بجائے صرف صنعتوں کیلئے ٹیرف کم کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت پانی و بجلی نے کے الیکٹرک اور تمام تقسیم کار کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بشمول ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ یکم جنوری سے صنعتوں کو بجلی 3 روپے فی یونٹ سستی فراہم کریں۔ کے الیکٹرک نے کراچی میں صنعتکاروں کو جنوری کے بلوں میں 3 روپے فی یونٹ کا ریلیف منتقل کرتے ہوئے وزارت خزانہ سے ایک ارب 25 کروڑ روپے کی سبسڈی
طلب کر لی ہے۔ اسی طرح ملک کی دوسری تقسیم کار کمپنیاں بھی 4 ارب روپے سبسڈی حاصل کریں گی۔ درحقیقت حکومت کا یہ اقدام اپنی ہی منظور کردہ ٹیرف ریشنلائزیشن پالیسی کے منافی ہے۔ دوسری جانب ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ گھریلو صارفین کیلئے سب سے زیادہ ٹیرف نافذ ہوگیا ہے۔ یکم جنوری سے پیک آور اور 700 یونٹس سے زائد ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کا ٹیرف 18 روپے فی یونٹ کی سطح پر نافذ ہے، جبکہ صنعتوں کیلئے بجلی 15 روپے فی یونٹ کر دی گئی ہے۔ واپڈا حکام کے مطابق بااثر صنعتکاروں کے مطالبے پر وزارت خزانہ نے وزیراعظم سپورٹ پیکیج کے تحت ریلیف دلایا ہے۔ واضح رہے کہ نیپرا مارچ میں تمام تقسیم کار کمپنیوں کے ٹیرف کی منظوری دیدے گا، جس کے بعد اپریل میں گھریلو صارفین کو بھی ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہوجائے گا۔

بجلی چوری روکنے کیلئے حکمرانوں کی نیت صاف نہیں اور سزا عوام بھگت رہے ہیں:

بجلی مختلف طریقوں سے چوری کی جاتی ہے، میٹر بند یا سست کرکے بجلی چرانا ایک ایسا طریقہ ہے جس سے صرف بجلی چوری کرنے والے ہی واقف ہوتے ہیں یا پھر میٹر ریڈر کو پتہ ہوتا ہے، میٹر کو سست کیا گیا ہوا ہے، وہ اگر بجلی چوری میں معاونت کر رہا ہو تو پھر کمپنی کو اطلاع کر دیتا ہے، لیکن جو بجلی چور میٹر ریڈر کی ’’پیشگی اجازت‘‘ سے چوری کرتے ہیں، ان کی نہ تو رپورٹ ہوتی ہے اور نہ یہ سلسلہ رکتا ہے، کنڈے لگا کر بجلی کی چوری سے تو ہر دیکھنے والی آنکھ باخبر ہوتی ہے، لیکن بہت سے علاقے ایسے ہیں،
جو اس حوالے سے بدنام یا شہرت یافتہ ہیں۔ کنڈا ڈال کر چوری کرتے ہیں لیکن انہیں کوئی پکڑتا نہیں بلکہ اس جرم سے آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں۔ کراچی میں دن کی روشنی میں ایسے کنڈے عام دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بجلی کے ’’لائن لاسز ‘‘ 35 فیصد کے لگ بھگ ہیں۔ اس اصطلاح میں اگرچہ ترسیلی نظام میں ضائع ہونے والی بجلی بھی شامل ہے، لیکن زیادہ تر بجلی چوری ہوتی ہے، جسے ’’لائن لاسز ‘‘ کے کھاتے میں ڈال کر اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ بجلی چوری کرنا اور کروانا باقاعدہ ایک فن بن چکا ہے، بہت سی صنعتیں بجلی چوری میں ملوث ہیں اور اس میں کمپنیوں کے عملے کی معاونت بھی شامل ہوتی ہے۔ وزارت پانی و بجلی نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ بجلی چوری پر جائیداد کی قرقی بھی کی جاسکے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عملاً بھی ایسا ممکن ہے یا نہیں، کیونکہ بجلی کمپنیوں کے پاس تو ایسی کوئی فورس نہیں کہ وہ بجلی چوروں کو گرفتار کرسکے۔ جن علاقوں میں بجلی کی ’’اجتماعی‘‘ چوری ہوتی ہے، وہاں یہ اور بھی مشکل کام ہے۔

جو بجلی کمپنیوں کی جانب سے سپلائی ہوتی ہے، اس کے تناسب سے بجلی کے بلوں کا حساب کیا جائے تو پنجاب سب سے زیادہ بل ادا کرنے والا صوبہ ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پنجاب میں بجلی چوری نہیں ہوتی، بعض شہروں سے تو سو فیصد اور ننانوے فیصد بل موصول ہوتے ہیں، لیکن دوسرے صوبوں کے کئی شہر ایسے ہیں، جہاں پچاس فیصد بل بھی نہیں ملتے، مثلاً کوئٹہ
میں بجلی کے بلوں کی وصولی 42 فیصد کے لگ بھگ ہے، فاٹا میں بجلی کے بل ادا نہیں کئے جاتے اور اگر کبھی بجلی بند کر دی جائے تو جواب میں فائرنگ کرکے کھمبے اڑا دیئے جاتے ہیں، یا پھر زور زبردستی کے ذریعے سپلائی بحال کرلی جاتی ہے۔ کمپنیوں کے جو نمائندے بل ادا نہ کرنے پر بجلی کاٹنے جاتے ہیں، ان پر بھی حملے ہوتے ہیں، کراچی کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں کنڈے ڈال کر براہ راست بجلی استعمال کی جاتی ہے اور اگر کراچی الیکٹرک (کے ای) کا کوئی نمائندہ کنڈے اتارنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ کوشش ناکام بنا دی جاتی ہے اور اہل کاروں پر تشدد تک کیا جاتا ہے، اندرون سندھ تو بجلی چوری روکنے کا کوئی تصور نہیں کرسکتا کیونکہ کسی کمپنی کے کسی نمائندے کی مجال نہیں کہ وہ جا کر بجلی چوروں کی بجلی بند کرے۔ ایسے میں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کیا وزارت بجلی کے لئے ممکن ہوگا کہ وہ اپنے اس پروگرام پر جو بجلی چوری روکنے کے لئے وضع کیا گیا ہے، عملدرآمد کرا سکے۔ اس مقصد کے لئے وزارت کو پولیس کی مدد درکار ہوگی، پولیس کے پاس اتنی فورس نہیں ہے کہ بیک وقت دوچار مقامات پر جا کر گرفتاریاں کرسکے۔

بااثر لوگ بجلی چوری اپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور کسی اہلکار کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ انہیں اس کام سے روکے۔ گذشتہ سال لاہور جیسے شہر میں بعض فیکٹریوں کے مالکان نے ایک جلوس نکالا تھا، جس میں بجلی چوروں کی پکڑ دھکڑ کی اس مہم کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا، اس دوران ایک مل مالک نے یہ دلچسپ انکشاف کیا کہ انہیں
’’بچت‘‘ صرف وہی ہے جو وہ بجلی چوری کرتے ہیں، کیونکہ یہ کاروبار ویسے تو گھاٹے کا سودا ہے، دوسرے لفظوں میں وہ یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ انہیں بجلی چوری کی اجازت دی جائے۔ وزارت بجلی و پانی اگر بجلی چوری روکنے میں واقعی سنجیدگی سے کام کرنا چاہتی ہے تو پھر ریلوے اور کسٹمز کی طرح اسے اپنی پولیس بھی بنانا ہوگی، یا پھر صوبائی حکومتوں سے مل کر پولیس میں کوئی ایسا شعبہ قائم کرنا ہوگا، جو اپنی توجہ صرف بجلی چوری کے ملزموں کو پکڑنے پر مرکوز رکھے اور اس کے ذمے دوسرے کوئی فرائض نہ ہوں اس مقصد کے لئے تربیت یافتہ نفری میں اضافہ کرنا ہوگا، جو ظاہر ہے کچھ وقت بھی لے گا۔ اگر وزارت پانی و بجلی اس کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہو جائے تو بجلی کمپنیوں کی آمدنی میں کم از کم 25 فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاسکا تو سزائیں بڑھانے کے باوجود بجلی چوری روکنا ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ کوئی خود کار طریقہ ایسا نہیں ہے کہ قانون بنانے کے ساتھ ہی لوگ اس پر رضاکارانہ طریقے سے عملدرآمد بھی کرنے لگیں، جو صنعت کار ماہانہ لاکھوں نہیں کروڑوں کی بجلی چوری کرتے ہیں وہ محض سزاؤں کے خوف سے تو اس سے باز نہیں آجائیں گے۔ انہیں موقع پر گرفتار کرنا ہوگا، ان کے خلاف مقدمات بنانے ہوں گے، عدالتوں میں ان مقدمات کی پیروی کرکے انہیں ثابت کرنا ہوگا۔ تب کہیں جا کر یہ ممکن ہوگا کہ وہ بجلی چوری سے باز آجائیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایک سخت قانون محض کاغذ کا ایک پرزہ ہی رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 521763
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش