0
Thursday 10 Mar 2016 17:02

سعودی عرب پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟

سعودی عرب پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟
تحریر: عرفان علی

پاکستان کی ہیئت مقتدرہ سعودی بادشاہت کے لئے کونسا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے؟ یہ سوال بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ایک ایسے وقت جب دنیا بھر میں سبھی سعودی عزائم کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور خود سعودی اتحادی امریکا و برطانیہ کے ذرائع ابلاغ میں سعودی بادشاہت اور اس کی وہابیت کو دنیا بھر میں مذہب کے نام پر پھیلائی جانے والی انتہا پسندی کا ذمے دار قرار دیا جا رہا ہے، تو سعودی عرب پاکستان سے کس کردار کی ادائیگی چاہ رہا ہے۔ یاد رہے کہ فوجی اتحاد کے بارے میں ہم ماضی قریب میں لکھ چکے ہیں کہ یہ نمائشی اور کھوکھلا اتحاد ہے۔ سعودی فوجی مشقوں کے بارے میں بھی ہم لکھ چکے ہیں کہ سعودی عرب دنیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ اس کے بہت سارے اتحادی ممالک اس کے ساتھ ہیں اور وہ ان کے ساتھ کو آرڈی نیشن اور مہارتوں کا تبادلہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن مستقبل میں وہ اس فوجی اتحاد سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کا اس میں کیا کردار رکھا گیا ہے، اس پر ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں، لیکن اس تحریر میں نئے نکات پر بات ہوگی۔

سعودی عرب پاکستان سے اب بھی یہی چاہتا ہے کہ پاکستان سعودی ایجنڈا میں سرد جنگ کے دور کی مانند دوبارہ اتحادی بن جائے۔ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ افغانستان جنگ میں پاکستان امریکا اور سعودی عرب کا فرنٹ لائن اتحادی تھا اور اس جنگ کا fallout آج تک منشیات اور اسلحے کے بے دریغ فروغ کی صورت میں پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کی میزبانی بھی ایک درد سر سے کم نہیں، کیونکہ ان میں قانونی سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں، جو اپنے وطن لوٹنا ہی نہیں چاہتے۔ مشرق وسطٰی میں پاکستان سعودی عرب سمیت کسی بادشاہت کے لئے آج کے دور میں کیا خدمات انجام دے سکتا ہے؟ اس سوال کے ممکنہ جوابات آپ کے ذہن میں بھی ہوں گے۔ لیکن میرے ذہن میں جو سوالات ہیں، وہ یہ ہیں کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی عرب ریاستیں براہ راست امریکا و برطانیہ کی فوجی اتحادی ہیں تو کیا پاکستان کی افواج امریکا اور برطانیہ سے زیادہ طاقتور اور ان سے زیادہ جدید اسلحہ رکھتی ہیں؟ حب الوطنی سے سرشار تجزیہ نگار کچھ بھی کہیں، لیکن لمحہ موجود کی حقیقت یہ ہے کہ امریکا، برطانیہ یا فرانس فوجی ساز و سامان کے لحاظ سے پاکستان سے بہت آگے ہیں اور پاکستان سمیت یہ عرب ممالک انہی تین ممالک سے اسلحہ خریدتے رہے ہیں۔ پاکستان اور عرب افواج کے بڑے بڑوں نے امریکا اور برطانیہ میں ہی اعلٰی فوجی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کئے ہیں۔ جب یہ ممالک براہ راست خلیج فارس کے عرب ممالک میں فوجی موجودگی رکھتے ہیں تو پاکستان کی افواج پر سعودی عرب کیوں خرچہ کرنا چاہے گا۔؟

دوسری وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ چونکہ سعودی عرب میں بادشاہت کے ہم مسلک وہابی بھی اس کی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور جن انتہا پسندوں کو وہابی بادشاہت نے خود پال پوس کر بڑا کیا ہے، آج وہی بادشاہت کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن نائف پر چاقو سے حملہ کرکے اسے شدید زخمی کرنے والا کوئی شیعہ نہیں تھا بلکہ اس سعودی شہزادے کا ہم مسلک وہابی ہی تھا۔ تو کیا جس طرح مقامات مقدسہ کو وہابی عقائد کے تابع کرنے کے لئے غیر ملکی اہلکار تعینات کئے گئے اور جس طرح بحرین کی سکیورٹی فورسز میں غیر بحرینی اور خاص طور پر پاکستانیوں کو بھرتی کیا گیا، اسی طرح اب سعودی بادشاہت کے تحفظ کے لئے اور اسے سیاسی مخالفین سے بچانے کے لئے اتحاد ی ممالک سے لوگ بلوا کر بھرتی کئے جانے کا امکان ہے، تاکہ وہ بحرین کی طرح سعودی عرب میں بھی مقامی آبادیوں کو کچل کر رکھ دیں اور اس کے لئے پاکستان کی مدد چاہتے ہیں۔ تاحال یہ نکتہ بھی امکان کی حد تک موجود ہے۔ تیسری وجہ پاکستان کے کاندھے استعمال کرکے سعودی عرب ان ممالک کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، جسے وہ اپنا دشمن یا حریف سمجھتا ہے، جیسا کہ اس نے علی اعلان ایران اور شام کو دشمنوں میں شمار کرنا شروع کر دیا ہے۔ فرض کرلیں کہ ایسا ہے تو کیا پاکستان کی ہیئت مقتدرہ بشمول موجود حکومت اس پر آمادہ ہوچکی ہے۔؟

فراموش نہ کرنے والی بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کا دفاع کے شعبہ میں تعاون پہلے سے ہی موجود ہے۔ انٹیلی جنس شیئرنگ کا سلسلہ کبھی رکا نہیں اور انسداد دہشت گردی کے شعبہ میں بھی دونوں کا قریبی تعلق اور باہمی تعاون جاری و ساری ہے۔ اب ایسا کونسا کام رہ گیا ہے جس کے لئے سعودی عرب کو پاکستان کی مدد چاہئے؟ سوائے ایران اور شام کے۔ ایران پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹ چکی ہیں اور پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل کی قرارداد کے تحت پابندیاں ہٹانے کا اعلان کر دیا ہے۔ تاحال پاکستان کی ہیئت مقتدرہ اس مسئلے پر چاہتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران تعلقات بحال ہوجائیں۔ سعودی بادشاہت کی نظر میں پاکستان اپنی تمام تر نیک نیتی اور خدمات کے باوجود دوست یا اتحادی ملک نہیں بلکہ ایک ملازم کی حیثیت رکھتا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے بحرین میں بیٹھ کر پاکستان کی ثالثی کی کوشش سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ سعودی مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ ریال کی دولت سے سب کو خریدا جاسکتا ہے۔ سعودی فوجی اتحاد کیوں قائم ہوا ہے، اس کے بارے میں اتحادیوں کو بریف کرنے کے لئے بلایا گیا ہے اور وزیراعظم نوز شریف اور بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سعودیہ تشریف لے جا چکے ہیں۔ جلد ہی اس موقف کا اعلان ہوجائے جو سعودی عرب اس اتحاد کے بارے میں کرنے والا ہے۔ (لیکن یہ بات طے ہے کہ سعودی عرب مزاحمت کے محور میں شامل تحریکوں اور خاص طور پر عراق کی شیعہ تنظیموں کے خلاف کارروائی کے نئے مرحلے کے بارے میں ذہن بنا چکا ہے، اس حوالے سے تفصیلاً پھر کبھی لکھا جائے گا۔)

سابق سفارتکار شاہد امین صاحب کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات دو مرتبہ متاثر ہوئے ۔ پہلی مرتبہ 1950ء کے عشرے میں اور دوسری مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو کے بر سر اقتدار آنے کے بعد، کیونکہ بھٹو عرب دنیا میں ایسی حکومتوں کے طرفدار تھے جو سعودی عرب کی نظر میں ریڈیکل تھیں۔ 1950ء کے عشرے میں سعودی عرب اور بھارت کے قریبی دوستانہ تعلقات استوار ہوئے تو پاکستانیوں کا دل جلا۔ پاکستان اور سعودی عرب دونوں ہی کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ مغربی دنیا کی طرف رہا۔ پاکستان نے 1960ء میں بھی سعودی عرب کو یمن جنگ میں دفاعی تعاون فراہم کیا تھا۔ شاہد امین صاحب خود سعودی عرب میں سفیر رہ چکے ہیں، انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستانی رائے عامہ ایران یا عراق کے خلاف سعودی فوجی لڑائی میں پاکستان کے فریق بننے کو قبول نہیں کرے گی۔ ایران کے ساتھ لڑائی پاکستان کے اسٹرٹیجک مفادات کے خلاف ہے، کیونکہ ایران نے انڈیا کے خلاف جنگوں میں ہمیشہ پاکستان کو اسٹرٹیجک گہرائی فراہم کی ہے۔ ان کی کتاب Pakistan's Foriegn Policy,
A Reappraisal  کا پہلا ایڈیشن سال 2000ء میں شایع ہوا تھا۔ اس میں انہوں نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ صرف اور صرف امریکا ہی سعودی عرب کی ایران کے خلاف لڑائی میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔ یاد رہے کہ شاہد امین کا اپنا جھکاؤ ایران کی نسبت سعودی عرب کی طرف زیادہ ہے، لیکن اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر وہ مجبور ہوئے کہ پاکستان کے اسٹرٹیجک مفادات کے پیش نظر سعودی جنگ میں ایران کے خلاف فریق بننا نقصان کا سودا ہے۔

سعودی عرب کو لاحق خطرات میں سب سے بڑا خطرہ سعودی شاہی خاندان کے اہم افراد کے اختلافات ہیں۔ موجودہ بادشاہ بھی عمر رسیدہ ہیں اور جلد ہی نئے بادشاہ ان کی جگہ براجمان ہوں گے۔ ان کی خواہش ہوگی کہ ان کا بیٹا جو اس وقت نائب ولی عہد ہے، اسے اپنی زندگی میں ہی بادشاہ بنا دیں، لیکن ان کے بھتیجے محمد بن نائف ولی عہد ہیں اور وہ اس راستے میں کانٹے کی طرح کھڑے ہیں۔ مجھے تو یمن جنگ کے حوالے سے بھی شک ہے کہ کہیں سعودی شاہی خاندان ایک دوسرے کے مخالفین کو مار کر اسے یمن جنگ کے کھاتے میں نہ ڈال دیں، کیونکہ کئی مرتبہ خبریں آئی ہیں کہ یمن سے جنگ کرتے ہوئے فلاں سعودی شہزادہ زخمی ہوگیا۔ دوسرا بڑا خطرہ داعش یا القاعدہ یا کسی بھی اور عنوان سے کام کرنے والے وہابی دہشت گرد ہیں، جو اب اپنے سرپرست بادشاہی خاندان سے متنفر ہوکر ان کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہیں۔ موجودہ ولی عہد پر 2009ء میں تیسرا قاتلانہ حملہ ہوا تھا، تب وہ مملکت کی اندرونی انٹیلی جنس مباحث کے سربراہ تھے اور حملہ وہابی دہشت گردوں نے ہی کیا تھا۔ ممکن ہے کہ اب جو حملہ ہو وہ خود شاہی خاندان کے اختلافات کی وجہ سے کیا جائے اور الزام دہشت گردوں پر ڈال دیا جائے۔ سعودی عرب کو ایران، شام یا یمن کے حوثیوں سے نہیں بلکہ ہم مسلک وہابی دہشت گردوں سے ہی حقیقی خطرہ لاحق ہے اور پاکستان سمیت کوئی بھی ملک اس کا تدارک نہیں کرسکتا، کیونکہ اس گھر کو آگ لگے گی گھر کے چراغ سے۔
خبر کا کوڈ : 526672
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش