0
Thursday 7 Apr 2016 17:42

کراچی ٹریفک پولیس کا ایک اور فراڈ بے نقاب

کراچی ٹریفک پولیس کا ایک اور فراڈ بے نقاب
رپورٹ: ایس جعفری

شہر قائد میں ایک طرف دہشتگرد و جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ٹارگٹڈ آپرشن جاری ہے، تو دوسری جانب اعلٰی پولیس افسران و اہلکار مختلف جرائم اور بدعنوانیوں میں ملوث پائے جا رہے ہیں، اور اب محکمہ کراچی ٹریفک پولیس کا ایک اور فراڈ بے نقاب ہوگیا ہے، شہر بھر میں نو پارکنگ سے اٹھائی جانے والی گاڑیایوں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کا نظام ناقص ہونے کی وجہ سے سالانہ کروڑوں روپے کی خوردبرد کی جا رہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ ٹریفک پولیس سندھ نے شہر کراچی میں جدید نظام کے تحت نوپارکنگ کے لئے کمپیوٹرائز سسٹم لاگو کیا ہے، جسے ابتدائی طور پر ساؤتھ اور سٹی زون میں رائج کیا گیا، اس سلسلے میں ٹریفک چالان اور نوپارکنگ کی مد میں حاصل ہونے والی رقوم کی وصولی کو کمپیوٹرائز کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایزی پیسہ سسٹم متعارف کراتے ہوئے ساؤتھ اور سٹی زون کی پارکنگ کا ٹھیکہ شاکر اینڈ کمپنی کو دیا گیا۔ سسٹم کے تحت رقم کی وصولی کے لئے ٹریفک سیکشنز اور ٹریفک پولیس اہلکاروں کو ڈیوائسز دی گئی ہیں، جن میں استعمال کی جانے والی رسید پر کسی قسم کا سیریل نمبر موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ دن بھر میں ایک ڈیوائس سے کتنی پرچیاں نکالی گئی ہیں اور پرچی گم ہونے کی صورت میں اس پرچی کی کاپی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

ڈیوائس چلانے والے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ چالان کی مد میں دی جانے والی پرچیوں کے گم ہو جانے کے بعد ہم نہ تو پرچی کی کاپی دے سکتے ہیں، اور نہ ہی چالان کی مد میں حاصل ہونے والی دن بھر کی رقم کا ریکارڈ کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ شاکر اینڈ کو کمپنی کو دیا جانے والا ٹھیکہ ایک ایسے شخص کو دیا گیا ہے، جس کا مالک گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں موجود نہیں ہے، اور اس کمپنی کو اعلٰی پولیس افسران کی ملی بھگ سے بشیر نامی شخص چلا رہا ہے، جس نے یومیہ اجرت پر نوپارکنگ کی فیس وصول کرنے والے کارکن بھرتی کئے ہوئے ہیں، جو غیر قانونی پارکنگ کی فیس ادا نہ کرنے والوں کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو ٹریفک پولیس اہلکاروں کے تحت ذریعہ لفٹر تحت مختلف سیکشنز پر لے جاتے ہیں، جہاں شہریوں پر بھاری جرمانے عائد کئے جاتے ہیں، جن کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں کیا جاتا۔ ٹھیکہ دیتے ہوئے اس بات کا معاہدہ تحریری شکل میں موجود ہے کہ نوپارکنگ کا ٹھیکہ لینے والا شخص پارکنگ ایریا میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرے گا، اور پارکنگ سے اٹھائی جانے والی گاڑیوں کے فوٹو کھینچے جائیں گے، اور نوپارکنگ سے لفٹ کی جانے والی گاڑیوں کے لئے لفٹر اور لفٹ کرنے والی گاڑیوں کی فراہمی کی ذمہ داری بھی اسی شخص کی ہوگی۔

اس ضمن میں ٹھیکیدار چالان کی مد میں کاٹی جانے والی پرچی بھی گھروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہوگا، لیکن تقریباً پارکنگ ایریاز میں نہ تو سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں، اور نہ ہی اٹھائی جانے والی گاڑیوں کے فوٹو کھینچے جاتے ہیں، جبکہ شہریوں کو گاڑی واپس لینے کیلئے انتہائی اذیت ناک مراحل سے الگ گزرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب ٹھیکہ لینے والے افراد کے بجائے یہ کام بھی ٹریفک پولیس اہلکاروں ہی انجام دے رہے ہیں، اور اس مد میں ٹریفک پولیس اور اس کے اعلٰی افسران جعلی ٹھیکیدار کے ساتھ مل کر رقم کی خردبرد میں ملوث ہیں، جس سے سندھ حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹریفک کے مذکورہ نظام کو شفاف بنانے کے لئے سندھ حکومت کی جانب سے جنگی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں، تاکہ ریونیو کی مد میں حاصل ہونے والے کروڑوں روپے قومی خزانے میں جاسکیں۔
خبر کا کوڈ : 532116
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش