0
Tuesday 26 Apr 2016 12:38
تشیع کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے

ولایت کو نطام زندگی کے طور پر پاکستان میں متعارف کرانے کا بیڑہ لیکر نکلے ہیں، علامہ جواد نقوی

ولایت کو نطام زندگی کے طور پر پاکستان میں متعارف کرانے کا بیڑہ لیکر نکلے ہیں، علامہ جواد نقوی
رپورٹ: این ایچ نقوی

جامعہ عروۃ الوثقٰی لاہور میں جشن مولود کعبہ و جامعہ عروۃ الوثقٰی کے چھٹے یوم تاسیس کے سلسلہ میں عظیم الشان تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں ملک کے طول و ارض سے شرکاء کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس موقع پر جامعہ عروۃ الوثقٰی کے بانی و مدیر اعلٰی استاد سید جواد نقوی نے اہم خطاب کیا، جس کے چند اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی حسرتیں:
افسوس اور امید کی حالت کا نام حسرت ہے۔ امیر علیہ السلام کے قلب نورانی میں کئی حسرتیں موجود تھیں۔ جن میں سے مقصد بعثت رسول اللہ یعنی غلبہ دین ایک حسرت تھی۔ یہی قلب نورانی رسول اللہ کی حسرت بھی تھی۔ لوگوں کی ہدایت رسول اللہ کی حسرت ہے۔ یہ حسرتیں پیروان امیر علیہ السلام کے لئے ایک در کھولتی ہیں۔ تکمیل حسرت رہبر و رہنما کی ذمہ داری ہے۔ حسرت قیام نظام الٰہی، عدل الٰہی کا قیام اور طاغوتی نظام کی سرنگونی بھی کئی حسرتوں میں سے ایک تھی۔ حسرت انصار بھی امیر علیہ السلام کی ایک حسرت تھی، یعنی ناصران کی قلت تھی۔ ولایت کو نطام زندگی کے طور پر پاکستان میں متعارف کرانے کا بیڑہ لیکر نکلے ہیں۔

امام کے ناصر بنو ناسور نہ بنو:

رہبر کے لئے وہ افراد ناسور ہیں، جو خود کو رہبر سے منسوب کریں مگر اس کے حامی و ناصر نہ ہوں۔ امیر علیہ السلام کے عہد میں ناصر کم اور ناسور زیادہ تھے۔ ناسوروں کے بارے میں فرماتے تھے کہ کاش تمہیں دیکھا نہ ہوتا۔ انہوں نے مجھے تھکا دیا ہے۔ العجب ثم العجب خدا کی قسم ان لوگوں کا باطل پر یکجا ہونا اور تمہاری جمعیت کا حق سے منتشر ہو جانا۔ دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے۔ عمار یاسر، ابوذر، میثم تمار، مالک اشتر اور عثمان ابن حنیف ناصران امام (ع) تھے۔ مولا علی (ع) نے انہیں جلدی کھو دیا، یہ شوق شہادت رکھنے والے تھے۔ مولا علی (ع) کی حسرت تھی کہ کاش علی( ع) سے علم و حکمت اور معرفت لینے والا مل جائے، کاش اطاعت کرنے والے مل جائیں، امر کو بجا لانے والے مل جائیں، میسر وہ تھے، جو اطاعت نہیں کرتے تھے۔

حسرت عاملین علم:
حضرت امیر المومنین علی (ع) کی ایک حسرت یہ بھی تھی کہ ایسے شاگردان میسر آجائیں، جو میرے علم کو لے سکیں، کہا کرتے تھے، اے کمیل علم کا سمندر علی کے سینے میں ہے، اے کاش کہ کوئی علم و معرفت لینے والا مل جائے۔ خوگران سماعت فضائل حسرتیں بھی سنیں۔ ریاکار خطیب یہ حسرتیں نہیں بتائے گا۔ پیروان علی (ع) نے ان حسرتوں کی تکمیل کرنی ہے۔

خود ساختہ حسرتیں:
ہم نے مولا علی (ع) کی حسرتیں خود سے بنا لی ہیں، ان سے نہیں پوچھا کہ آپکی حسرتیں کیا ہیں، منبروں سے اسٹیج سے بتایا گیا کہ جب امام حسین (ع) پیدا ہوئے تو رسول (ص) نے گریہ کیا تو بی بی فاطمہ (س) نے وجہ پوچھی تو آپ (ص) نے فرمایا کہ حسین (ع) کو شہید کر دیا جائے گا، تو بی بی (س) نے پوچھا، کیا انکو کوئی گریہ کرنے والا ہوگا؟؟ آپ (ص) نے کہا ہاں ایک قوم پیدا ہوگی، جو انکو روئے گی تو بی بی (س) مطمئن ہوگئیں۔ اگر آج کسی عورت سے پوچھا جائے یہی کہ تمھارا بیٹا مار دیا جائے گا، ماں کے سوال یوں ہوں گے کیوں مارا جائے گا؟؟ کیا اسکا کوئی مددگار ہوگا؟؟ وہ معصوم ہیں، یہاں ہم نے انکی حسرت خود سے بنا دی، بی بی فاطمہ (س) کی حسرت کائنات پر نظام ولایت ہے، نظام عدل ہے۔

حسین (ع) کو تشنگی لبیک:

حسین (ع) کو تشنگی لبیک کی ہے، میدان میں حاضری کی ہے، ناصروں کی ہے، نعروں کی نہیں، علی (ع) نے اپنی حسرت خود بیان کی ہے، پیشہ ور خطیب نہیں بیان کرسکتا، علی (ع) کی حسرت تھی کہ مجھے بھائی مل جائے، جو فقط خدا کے لئے میرا بھائی ہو۔ اگر بیداری شعور نہ ہو، آگاہی نہ ہو، عبادت کی انتہا بیشک ہو تو علی (ع) کی سپاہ ہی علی (ع) کےخلاف قیام کر دیتی، علی (ع) کی حسرت تھی کہ کاش ان میں شعور ہوتا، علیؑ کے کلام اور خاموشی کو سمجھتے، حسرت امت دل ِامام میں ہے، امام (ع) چاہتے کیا ہیں، مانگتے کیا ہیں، امت سے حسرت کیا ہے، امام (ع) کی؟؟؟ یہی کہ امت میدان میں ہو، جہاں امام ہو، وہاں امت ہو، امام (ع) کے پرچم تلے امت ہو۔ مولا (ع) کو بھنگڑے ڈالنے والے نہیں چاہییں۔ نہج البلاغ میں انبار کے لوگوں نے جب ترجل یعنی دھمال ڈالی اسقبال کے لئے تو فرمایا اس سے آپکو کوئی فائدہ نہیں، البتہ تم اس دنیا میں اپنے کو زحمت و مشقت میں ڈالتے ہو، اور آخرت میں اس کی وجہ سے بدبختی مول لیتے ہو، وہ مشقت کتنی گھاٹے والی ہے، جس کا نتیجہ سزائے اخروی ہو اور وہ راحت کتنی فائدہ مند ہے، جس کا نتیجہ دوزخ سے امان ہو۔ امام (ع) کے پرچم تلے نہ آو اور بعد میں جتنا مرضی مزارات پر امام (ع) کی حسرت پوری نہیں ہوگی، آج بھی امام پرچم تلے امت کے آنے کا انتظار کر رہا ہے، امت پرچم تلے نہیں آ رہی۔ گھر کی ضرورتیں پورا کرنے کے علاوہ وہ علوم بھی سیکھیں، جو مولا (ع) کی حسرتیں پوری کرتا ہے۔

آب حیات، از دم خنجر طلب
از دهان اژدها، کوثر طلب
سنگ اسود، از در بت خانہ خواه
نافهہ ی مشک، از سگ دیوانہ خواه
سوز عشق، از دانش حاضر، مجوی
کیف حق، از جام این کافر، مجوی

عصر حاضر کی تعلیم سے تیرے اندر سوز عشق پیدا ہو جائےگا ، اس کی امید نہ رکھنا۔

نجات دھندہ تعلیم:
نجات دہندہ تعلیم کے لئے شجرہ طیبہ العروۃ الوثقٰی کی بنیاد رکھی گئی، جو پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ عروۃ الوثقٰی وہ جو طاغوت کا انکار کر دے۔ اسی طرح کی تعلیم کے لئے جامعۃ الدّین القیّم کی بنیاد رکھی گئی، جو آن لائن تعلیم دے گا۔ صراط سکولنگ سسٹم کا آغاز کیا گیا، جس میں رائج تعلیم کے ساتھ ساتھ اعتقادات مذہب کی تعلیم بھی دی جائے گی۔ اسی طرح خواتین کی دینی تعلیم کے لئے ام الکتاب دینی درسگاہ کا آغاز کیا گیا، جس میں اہل تشیع کے ساتھ ساتھ سنی طالبات بھی پڑھ رہی ہیں۔ عروۃ الوثقٰی کے دروازے تمام مومنین و مسلمین کے لئے کھلے ہیں۔ ہمیں عملی اتحاد بین المسلمین کے لئے میدان میں آنا ہوگا۔ آپ تمام اس مرکز کے حقیقی وارث ہیں، یہ کسی ایک خاندان کی جاگیر نہیں ہے۔ جامعہ کا ہدف امت سازی ہے۔ بعض چمگادڑوں کو عروۃ الوثقٰی نظر نہیں آتا، ان کے لئے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔

عربی، غربی اور عبری ملکر فقط تشیع کے مقابل آتے ہیں:
عربی، غربی اور عبری ملکر فقط تشیع کے مقابل آتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ تشیع عظیم ہے۔ ہم تشیع کے لئے مقرر کردہ وقار تک اسے پہنچانا چاہتے ہیں۔ تشیع کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے۔
خبر کا کوڈ : 535315
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش