1
Wednesday 4 May 2016 21:30

عراق میں حالیہ سیاسی بحران اور استعماری سازشیں

عراق میں حالیہ سیاسی بحران اور استعماری سازشیں
تحریر: آغا مجتبٰی زمانی

ایک عرصہ سے استعماری آلہ کار بعض بیرونی ممالک مختلف طریقوں سے عراق میں قومی اور قبائلی اختلاف پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، تاکہ عراقی عوامی طرفدار حکومت کمزور ہوجائے یا داخلی یا خارجی سطح پر حکومت کو نقصان پہنچایا جائے۔ ان تمام اسباب اور خدشات کے پیش نظر حکومتِ بغداد اور عراق کے شیعہ جن کا حکومت میں زیادہ عمل دخل ہے، قومی گفتگو کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش میں مشغول رہے ہیں، تاکہ عراق میں حکم فرما سیاسی درجہ حرارت کو کم کیا جاسکے۔ عراق کے موجودہ صدر جمہوریہ فواد معصوم اور وزیراعظم حیدرالعبادی نے سیاسی رہنماؤں سے ملک کی صورت حال کو فوراً بہتر بنانے کی اپیل بھی کی ہے۔ ادھر فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق بغداد میں امن و امان قائم کرنے کے لئے سکیورٹی فورسز کی کوشش اور اسی طرح عراقی مظاہرین کے پارلیمنٹ کی عمارت سے باہر نکلنے اور بغداد کے گرین زون میں طے شدہ علاقے میں واپس جانے کے بعد بغداد میں معمولاتِ زندگی بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

البتہ عراق کے حالیہ سیاسی بحران کے حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ انہی خبروں کو زیادہ پیش کر رہے تھے، جن میں یہ کہا جاتا رہا کہ عوامی مظاہرے مہدی ملیشیا کے سربراہ سید مقتدیٰ صدر کی جانب سے کئے جا رہے ہیں، لیکن اس کے برعکس ایک بات بالکل عجیب تھی کہ عراق میں ہونے والے موجودہ مظاہرے میں صدام دور میں ایران کے خلاف لگائے جانے والے بعثی نعروں کو پلے کارڈز اور بینرز پر درج کرکے لہرایا گیا۔ یہ بات ہر تجزیہ نگار اور عراقی سیاست و تاریخ پر نظر رکھنے والے کے لئے حیران کن ہے کہ صدام کی بعثی حکومت سے جتنی آزار اور اذیت سنی بھائیوں نے دیکھی، اس سے کہیں زیادہ ظلم و زیادتیاں شیعہ علماء و عوام نے سہی ہیں۔ اب ان مظاہروں میں بعثی نعروں پر مشتمل پلے کارڈز کا لہرایا جانا ان مظاہروں کے تانے بانے کسی بڑی سازش سے جڑے ہونے سے خالی نہیں لگتا۔

عراق میں اس وقت ایسے کئی گروپس اور گروہ موجود ہیں، جو پوری عمر عراق سے باہر مغرب زدہ زندگی گزارنے میں مشغول تھے اور وہ امریکی و مغربی مفادات کے حامی کہلائے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ حالیہ مظاہرے میں تمام افراد بعثی ہوں، عالمی تعلقات عامہ کے بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ عوام کا ایک بڑا حصہ عراق کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے نالاں ہو، مگر استعماری اور بعض نام نہاد زمینی آقاؤں کے پٹھو ممالک کی سازشوں پر بھی پردہ پوشی نہیں کی جاسکتی۔ جس طرح شام کی مثال موجود ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں کو شامی حکومت سے شکایات بھی تھیں اور بعض شامی عوام نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہرے بھی کئے ہوں گے، ظاہر ہے مظاہرے کسی بھی ملک کے عوام کا حق ہوتے ہیں، لیکن شام میں ان حکومت مخالف مظاہروں کو بشار الاسد کی فلسطین حامی حکومت کے خلاف ہائی جیک کر لیا گیا۔

بالکل اسی طرح عراق میں ہونے والے حالیہ حکومت مخالف مظاہروں کو بھی استعماری اور مغربی سازش کار ہائی جیک کرنے کی پوری کوشش میں لگے ہوئے ہوں گے۔ کچھ ذرائع یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ بیرونی آلہ کار بعض عراقی گروہ جن میں دہشت گرد عناصر بھی شامل ہیں اور بغداد کے خلاف بیرونی طاقتوں کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ یاد رہے کے جون 2014ء میں عراق کے بعض شمالی اور مغربی علاقوں پر داعش دہشت گردوں نے قبضہ کر لیا تھا، حالیہ چند مہینوں میں عراقی فوج اور رضاکار فورس نے الرامادی اور تکریت سمیت عراق کے کئی شہروں کو تکفیری داعش دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور بڑی طاقتیں عراق کو ایران کے اسلامی انقلاب کے خلاف استعمال کرتی رہی ہیں اور جب صدام سے اپنے مقاصد پورے کر لئے تو امریکہ نے ہی ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے بہانے 2003ء میں عراق پر چڑھائی کر دی اور اپنے ہی ہاتھ سے بٹھائے گئے مہروں کو ہٹا دیا گیا۔ اس دن سے ہی امریکہ اپنی کٹھ پتلی حکومت بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ عراق میں کبھی ابراہیم جعفری حکومت میں رہے تو کبھی نوری المالکی برسراقتدار رہے، لیکن امریکہ نے عراقی عوام کے لئے کام کرنے والے رہنماؤں کی مسلسل مخالفت جاری رکھی۔ کبھی امریکہ عراق کے شیعوں کے حق میں بیان جاری کرتا ہے، تاکہ عراقی سنیوں میں مایوسی پھیلائی جاسکے، تو کبھی امریکہ سنیوں کی حمایت میں بیان دیتا دکھائی دیتا ہے، تاکہ عراقی شیعوں کو اشتعال دلایا جائے اور اسی طرح کبھی کردوں کی حمایت میں بیان دیتا ہے۔ لیکن عراقی عوام جان چکے ہیں کہ امریکہ نہ عراق کے شیعوں کا ہمدرد ہے اور نہ عراق کے سنیوں کا خیرخواہ۔ امریکہ تو بیانات اور چال بازیوں کے ذریعے عراق کو تقسیم در تقسیم کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔

بعض سینیئر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عراق میں کھڑا کئے جانے والے موجودہ سیاسی بحران کا مقصد داعش کو شکست سے بچانا بھی ہوسکتا ہے اور عراق کو تقسیم کرنے کی سازش بھی ہوسکتا ہے، لیکن عراق کی مذہبی اور سیاسی قیادت ایک عرصے سے ڈٹ کر استعماری سازشوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مرجعیت کے کردار کے ذریعے عراق کے بحران کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، عراق کی دینی قیادت (مرجعیت) نے گذشتہ اور حالیہ برسوں میں بہت سے بحرانوں کو حل کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ عراق کی دینی اور سیاسی قیادت کا اتحاد ہی عالمی استعمار کو شکست سے دوچار کرسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 536887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش