0
Friday 27 May 2016 14:01

تیسری جنگ

تیسری جنگ
 تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

آرمی پبلک اسکول پشاور میں مسلح افواج کے ملازمین کے بچوں پر حملے کے بعد آرمی چیف نے مشیر خارجہ کی موجودگی کے باوجود کابل کا سفر اختیار کیا، افغان صدر سمیت اعلٰی فوجی اور سیاسی قیادت کو یہ پیغام دیا کہ ہمارے بچوں کے قاتل پاکستان آرمی کے حوالے کئے جائیں۔ اس کی کوئی خبر نہیں کہ کابل نے ہمیں مطلوب افراد دیئے یا نہیں، لیکن پورے ملک میں دہشت گردوں اور عام مجرموں کو پھانسیاں دی گئیں، آپریشن میں تیزی آئی، دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی۔ پورے پاکستان میں امید کی لہر دوڑ گئی کہ ریاست شہریوں کے تحفظ میں فعال ہے، البتہ اہل تشیع کا قتل عام اب بھی جاری ہے۔ آپریشن بھی ختم نہیں ہوا، وزیرستان سے کراچی تک طالبان، جیش محمد، القاعدہ، لشکر جھنگوی اور داعش نے پاکستانیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ کوئٹہ طویل عرصے سے دہشت گردی کا نشانہ ہے، شاید ہی کوئی روز گذرتا ہو جب سکیورٹی فورسز یا ہزارہ قبیلے کے کسی فرد کو نشانہ نہ بنایا جاتا ہو۔ پاکستان آرمی کا کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج بھی کوئٹہ میں ہے، یہ ادارہ چند اہم ترین اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ آرمی چیف نے مذکورہ کالج میں افسروں سے خطاب میں کہا ہے کہ پرامن اور خوشحال پاکستان کے مقصد کے حصول تک جنگ جاری رہے گی، جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کئی آپریشن کئے، لیکن پرامن پاکستان کے حصول کے لئے ابھی اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مسلح افواج کے چیف کمانڈر کا افسروں سے خطاب ایک معمول کی خبر ہوتی ہے، لیکن موجودہ حالات میں ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں آرمی چیف کا کردار بہت نمایاں ہے، اس لئے ان کا خطاب خاص سیاسی پہلووں کا حامل بھی ہوتا ہے۔ چند دن قبل ہی افغان طالبان کے سربراہ کو اس وقت امریکی ڈرون طیاروں نے اپنے حملوں کا نشانہ بنایا تھا، جب وہ ایران سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد کوئٹہ کی جانب سفر کر رہے تھے۔ کوئٹہ میں افسروں سے خطاب سے قبل آرمی چیف نے جی ایچ کیو میں امریکی سفیر سے ملاقات میں ڈرون حملے پر احتجاج کیا تھا۔ حالانکہ اس سے پہلے دفتر خارجہ، وزیر داخلہ، علامتی مشیر خارجہ بھی امریکہ کیخلاف احتجاج ریکارڈ کروا چکے تھے۔ فاٹا کے بعد عملی طور پر بلوچستان میں آرمی کا عمل دخل بہت زیادہ ہے، کیونکہ قبائلی علاقوں کی طرح بلوچستان بھی بھارتی ایجنسی را کی پاکستان دشمن کارروائیوں کا ہدف ہے۔ پاکستانی عوام بالواسطہ طور پر اور پاکستانی سکیورٹی فورسز براہ راست بھارت کیساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ اہم تنازعہ کشمیر اور اسکے بعد افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے، جسے روکے بغیر پاکستان کبھی پرامن نہیں رہ سکتا۔

افغانستان نہ صرف علاقائی تنازعات کی بنیاد ہے بلکہ یہ عالمی سازشوں کا مرکز ہے۔ اسی لئے جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی عالمی مسئلہ ہے اور اس عالمی مسئلے سے لڑنے کے لئے پاکستان اور پاکستانی فوج پرعزم ہے، پاک فوج جیسی متحرک فوج کی قیادت پر فخر ہے کیونکہ دنیا کی کوئی بھی فوج آج تک پاک فوج کی طرح چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر پائی۔ یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان کی مجبوری تھی یا خارجہ پالیسی میں عدم توازن کا نتیجہ ہے کہ جب بھی دنیا میں القاعدہ، داعش جیسی تنظیموں کا نام آتا ہے، پوری دنیا پاکستان کی طرف انگلی اٹھاتی ہے۔ ملکی مفاد میں ایسی سیاست اور اسکے نتائج برداشت کرنا اور معاملات کو آگے بڑھانا ہر ملک کے ضروری امر ہے۔ زیر بحث نکتہ یہ ہے کہ اس امر پہ غور کرنا بھی قومی ضرورت ہے کہ اپنے مغربی بارڈر کو محفوظ بناتے بناتے جنگ ہماری گلیوں تک کیسے منتقل ہوگئی۔؟

ہماری خارجہ پالیسی میں ایک خامی یہ رہی ہے کہ اس کا سارا دارومدار دفاعی ضروریات پوری کرنے کی حد تک محدود رہا ہے، وجہ اس کی صاف ہے کہ ہمہ جہت خارجہ پالیسی کی بجائے، ضیاءالحق، پرویز مشرف اور اب جنرل راحیل شریف ہی اسے بناتے اور عمل درآمد کرواتے ہیں۔ پاکستان کے خارجہ تعلقات دفاعی ضروریات اور عالمی طاقتوں پر انحصار کے دائرے میں گھوم رہے ہیں، جامع منصوبہ بندی کا فقدان ہے، رہی سہی کسر غیر ملکی قرضے نکال دیتے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے، وہی سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ موجودہ طاقت کے مراکز کا قبلہ اگر سعودی عرب ہے، تو پالیسی کا محور شہزادے ٹھہریں گے، کسی مارشل لا کو عالمی سطح پر تائید کی ضرورت ہو تو امریکی ڈیکٹیشن چلے گی۔ لیکن اس بار سعودی عرب کیساتھ ساتھ چین اور ترکی کو بھی اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔ جب ہم بلوچستان کی بات کرتے ہیں تو معاملہ فقط طالبان لیڈر کی ہلاکت کا نہیں بلکہ سی پیک منصوبہ، گوادر بندرگاہ اور پاک ایران گیس پائپ لائن بھی تزویراتی ایشوز ہیں۔ افغان طالبان صرف کابل میں پاکستان کے مفادات کو آگے بڑھانے میں مصروف جنگ نہیں بلکہ کراچی، کوئٹہ، ایبٹ آباد، پشاور، میران شاہ اور اسلام آباد کے علاقے بہارہ کہو میں انکی موجودگی اور انکی ہلاکتیں اس بات کی بھی شاہد ہیں کہ اندرون ملک بھی انکا گہرا نیٹ ورک موجود ہے۔

ضیاءالحق کے دور میں شروع کی جانے والی پالیسی کا ایک نقص یہاں سے ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ہم افغان بھائیوں کی مدد کر رہے ہیں، وہ ہمارے ایجنڈے پہ ہوں تب بھی یہ کہاں درست ہے کہ سپاہ صحابہ سے لیکر القاعدہ تک، جتنے بھی دہشت گردی کے پودے، درخت بنے ہیں، انکی آبیاری افغانستان سے ہی ہوتی رہی۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم ہمیشہ سے امریکہ کے اتحادی ہیں، جب آرمی چیف نے امریکی سفیر سے احتجاج کیا ہے، اس کے فوری بعد امریکی حکام نے کہا ہے کہ ڈرون حملے جاری رہیں گے، مسلح افواج کے سپہ سالار کے موقف کا جواب جب امریکی اس طرح دیتے ہیں تو عام سپاہیوں، افسروں اور عوام کے مورال پر کیا اثر پڑتا ہے، اس سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کو کوئی غرض نہیں، ورنہ کولیشن اسپورٹ فنڈ کے نام پہ امداد کے لئے ہاتھ نہ پھیلائے جاتے، لگتا ہے کہ امریکہ سے احتجاج ڈرون حملے، پاکستان کی خود مختاری پر حملے، دراندازی، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر نہیں کیا جا رہا بلکہ ڈالروں میں ملنے والی امداد کے حصول اور اسکی مقدار میں اضافے کی بابت ہے۔

جنرل مشرف کے دور میں دوسری جنگ تھی جو ہم نے فاٹا میں شروع کی، وہ پاکستان کی گلیوں میں آپہنچی، آج جنرل راحیل شریف جس جنگ کی بات کرتے ہیں وہ تیسری جنگ ہے، اسکا آغاز ضیاءالحق کے دور میں ہوا تھا، اب یہ شام، عراق اور یمن تک پھیل چکی ہے، فقط پاکستان میں ڈرون حملوں پر تنقید کر دینے سے یہ نہ ختم ہوگی نہ کم۔ پاکستان دنیا کی اہم جگہ پہ واقع ہے، طاقت ور فوج رکھتا ہے، متوازن خارجہ پالیسی، علاقائی اور عالمی سطح پر نیک نیتی پہ مبنی کردار ہی ہمیں اس جنگ سے نجات دے سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے، حجت تمام ہوچکی ہے، آخر ایران میں بھی افغان بھائیوں کو پناہ دی گئی ہے، انکی مدد کی گئی ہے، لیکن وہاں دہشت گردی کا راج نہیں اور نہ ہی وہ کسی عالمی طاقت کے دست نگر ہیں۔ پہلے ہمارے وزیر داخلہ نے کہا کہ حکیم اللہ محسود پہ حملہ ہماری خود مختاری پہ حملہ ہے، اب وہ کہتے ہیں کہ ملا منصور پہ حملہ ہماری خود مختاری پر حملہ ہے، کیا پاکستان کی خود مختاری سے مراد ملا منصور اور حکیم اللہ محسود ہیں؟ اگر ہم اپنے وسائل سے اپنا ملک نہیں چلا سکتے تو ہمیں کسی کو اپنی خود مختاری کیخلاف حملوں پہ احتجاج حق بھی نہیں۔

ہاں یہ بھی یاد رہے کہ جنگ جیتنے کے لئے سچے سپاہیوں کی بجائے ایجنٹوں پر انحصار رسوا کن شکست کا سبب ہوتا ہے، کوئی انہیں مجاہد بنا کر بھرتی کرے، لیکن وہ بنتے دہشت گرد ہی ہیں۔ اسی لئے آج جنرل سے سپاہی تک ساٹھ ہزار شہیدوں کے لاشے بھی پاکستانی رائے عامہ کو یقین دلانے کے لئے کافی نہیں کہ یہ ہماری جنگ ہے، یہ حقیقت ہے کہ اہل اقتدار خود عالمی طاقتوں کے ایجنٹ رہے اور جہاد کے نام پہ ایجنٹوں سے کام چلاتے رہے۔ اگر پالیسیوں میں مفاد پرستی، شہزادوں کی کاسہ لیسی اور بیرونی سہاروں کی بجائے توازن، حقیقت پسندی اور اعتدال رہے تو ملک کو بچانے کی تیسری جنگ کامیاب ہوسکتی ہے، ورنہ اس کے نتائج ضیاءالحق اور پرویز مشرف کی طرف سے لڑی جانے والی جنگوں سے مختلف نہیں ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 541397
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش