2
0
Tuesday 21 Jun 2016 09:59

اقبال اور تصورِ امامت (1)

اقبال اور تصورِ امامت (1)
تحریر: فدا حسین بالہامی

’’فلسفۂ خودی‘‘ اقبالؔ کی فکری کائنات کا مرکز و محور ہے۔ اگر اس مرکز کو اپنی جگہ سے ہٹایا جائے تو اس فکری کائنات میں محشر بپا ہوگا۔ اس لحاظ سے اقبال کی شاعری اور فکرو فلسفہ کا جزوی مطالعہ کسی طور بھی اقبالؔ شناسی میں معاون ثابت نہیں ہو گا۔ یہا ں ایک مر بوط و منضبط فکری نظام کار فرما ہے۔ جو مبسوط اور منّظم مطالعہ کا متّقاضی ہے۔ قاری، محقق یا نقاد کسی بھی موضوع کے تحت فکرِ اقبال پر اظہار خیال کرنا چاہے۔ تو اُسکے لیئے لازمی ہے کہ وہ علامہ کے فکری التزام اور فنی دروبست سے کماحقہ، اَشنا ہو۔ علی الخصوص ’’فلسفۂ خودی‘‘ سے اعراض اس سلسلے میں نیم نگا ہی پر منتج ہوگا۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر زپرِ بحث عنوان کی بعض مخفی جہات کا سراغ فلسفۂ خودی میں بھی مل سکتا ہے۔ تصّورِ خودی دراصل قرآن کے تصّورِ نیابتِ الہیٰ کی فلسفیانہ اور بلیغانہ تفسیر ہے۔ نائب کی عظمت ور فعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس کے حکم سے کس کا نائب مقرر ہوا ہے؟۔ قرآن مجید میں تخلیق آدم کے تعلق سے جو تصریحات ملتی ہیں۔ ان کے مطابق خالق کا ئنات نے انسان کو اپنے ہی حکم سے خود اپنا نائب مقرر فرمایا ہے۔

نظریہ خودی کی تشکیل میں تین منابع خاص طور سے اقبال ؔ کے زیرِنظر رہے ہیں ۱)تصّوف کا وجود ی نظریہ، ۲)نطشے کا نظریۂ فوق البشر اور ۳)کلامِ مجید کا نظریۂ نیابت۔ علامہ اقبالؔ نے جب ان تینوں نظریات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ تو وہ اسی نتیجہ پر پہنچے۔ کہ قرآن نے انسان کو عظمت و رفعت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم مسؤلیت سونپی ہے۔ تصّوف کا نظریہ و حدت الوجود در اصل اس مسؤلیت سے راہبانہ فرار ہے نیز نطشےؔ کے افکار باغیانہ فرار کے غماز ہیں۔ اس ’’راہبانہ فرار ‘‘ اور’’باغیانہ فرار‘‘ سے بدون اور افراط و تفریط سے منزّہ ’’نظریۂ خودی‘‘ کا اصل مقصد یہی ہے کہ انسان اُس ’’باطنی کائنات‘‘ کی بو قلمونی کا چشمِ بصیرت سے مشاہدہ کرے۔ جس کو جناب امیرؑ نے پوشیدہ ’’عالم اکبر‘‘ کہا ہے۔ تاکہ انسان عرفانِ ذات کے جام سے سرشار ہو کر تسخیر کائنات کی پر خار و دشوار گزار مرحلے کو عبور کرکے بارگاہِ ایزدی تک رَسائی حاصل کر سکے۔ نیز اپنی شخصیت کی تعمیر کیلئے اپنی تمام تر خلاّقانہ صلاحتوں کو بروئے کار لائے۔ خودی کے آئینے میں خود شناسی و خود یابی کی جاذبِ نظر صورت دکھائی دے تو خود بخود عزتِ نفس کااحساس ابھرے گا ؂
جمال اپنا اگر تو خواب میں بھی دیکھے
ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی
یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھارہے

خلیفہ عبدالحکیم کا یہ جملہ قابلِ توجہ یہ ہے۔ کہ’’ اقبال صرف خودی کا پیغامبر ہی نہیں بے خودی کا رمز شناس بھی ہے۔ ‘‘ ۱ ؂ پیام خودی کی ابلاغ پر باوجود اسکے اقبال کی فکری و فنی تو انائیوں کا ایک بڑا حصّہ صرف ہوا ہے۔ پھر بھی اقبال نے خودی کو اپنے جہانِ افکار کی مطلق العنان حاکمیت نہیں بخشی ہے۔ یہ خودی بھی ا پنی تمام تر خصائص اور امتیازات کے باوجود اُسی فکری نظام کی پابند ہے جسکا تذکرہ ابتدائی سطور میں ہوا ہے۔ واضح الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ خودی (انائے انفرادی) جب تک بے خودی (انائے اجتماعی) کے ساتھ تعلق پیدا نہ کرے اسکی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ گویا اقبالؔ کی نظر میں جولازمی تعلق فرد کو جماعت کے ساتھ ہونا چاہئے۔ وہی تعلق خودی کو بے خودی کے ساتھ ہونا لازمی ہے۔ چناچہ فرد کو تمثیلی انداز میں پایند گی کا راز بتاتے ہیں ؂
پیوسطہ شجررہ، امید بہار رکھ

فکرِ اقبال کی رو سے فرد کا جو ہر خودی ہے اور جماعت کا جوہر بے خودی ۔ اس لحاظ سے افراد کے مابین تعلق جماعت کا استحکامِ ظاہری ہو تا ہے۔ اور خودی کا بے خودی کے ساتھ پیوسطہ ہونا جماعت کے واسطے استحکام جوہری (باطنی) کا مؤجب ہوتا ہے۔ اس بحثِ تمہیدی کی غایت فقط یہ کہنا ہے کہ حکیم الامت افرادِ ملت کو خودی کی بٹھی میں تپا کر ان کا استعمال ملت کی تعمیر میں کرنا چاہتے ہیں ؂
وجود افراد کا مجازی ہے ہستئ قوم ہے حقیقی
فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زنِ طلسم مجاز ہو

فردو جماعت کے باہمی ربطہ کے بارے میں اقبال کا زوایۂ نگاہ معتدل اور متوازن ہے اس سلسلے میں بر گساںؔ ، نطشےؔ ، شیڑ نر اور فردی آزادی کے زبردست حامی دیگر مغربی مفکرین سے شدید اختلاف رکھتے ہیں ۔ یہ مغربی فلاسفہ فرد کی نشونما کی راہ میں جماعتی آئین و اصول کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ علی الرّغم اسکے علامہ اقبال رموزِ بیخودی کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں ’’حیات ملیہ کا انتہائی کمال یہ ہے کہ قوم کے افراد کسی آئینِ مسلّم کی پابندی سے اپنے ذاتی جذبات اور میلانات کے حدود مقرر کریں۔ تاکہ انفرادی تباین و تناقص مٹ کر تمام قوم کے لیئے ایک قلبِ مشترک پیدا ہو جائے ‘‘ ۲ ؂ ؂
فرد را ربطِ جماعت رحمت است

جوہر اور اکمال از ملت است
ناتوانی با جماعت یار باش

رونقِ ہنگامہ احرار باش

امت و امامت:
بغیرِ امامت،امت کا تصّور ایسا ہی ہے جیسے بے سر بدن کا۔ فرداگر موج ہے اور جماعت دریاء تو امام اسکے بہاؤ کی صحیح سمت کا تعین کرنے والا ہوتا ہے۔ یہ بات تو طے ہوئی کہ فرد کی زندگی، قومی حیات پر انحصار رکھتی ہے ؂
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہاء کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

لیکن امامت ، روحِ امت کی محافظ ہوتی ہے۔ نظم و ضبط سے ہی افرادامت کو تشکیل دیتے ہیں ۔ اور یہ اجتماعی نظم و ضبط امامت پر ہی انحصار رکھتا ہے۔ جس قوم میں امامت کا تصّور ماندپڑ جائے۔ حرج و مرج اور انتشار و افتراق اس کامقدربن جاتا ہے۔ فکر و عمل میں یگانگت امت میں امامت ہی کی دین ہوتی ہے۔ کاروان بغیر رہبر، اُس ریوڑ سے بھی بد تر ہے جس کا کوئی گلہ بان نہ ہو۔ جس جماعت کا اپنے امام کے ساتھ رابطہ منقطع ہو جائے وہ وقت شناس نہیں ہوسکتی۔ اسکا بے موقع و محل عملِ خیر بھی بے ثمر ثابت ہوتا ہے۔ ان ہی کے متعلق علامہ فرماتے ہیں ؂
یہ نادان گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا

امامت کا اسلامی تصّور:
فکر اقبال ؔ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ وجودِ ملت ازخود، احتیاجِ امامت کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہونا نا گزیر ہے کہ امامت کا معیار کتنا بلند ہونا چاہیے؟ معیارِ امامت کا تعیّن کافی حد تک امت کی ہیّتِ اجتماعی کرتی ہے۔ با الفاظِ دیگر جس قدر تصّورِ امت اعلیٰ و ارفع ہوگا اسی قدر تصورِ امامت بھی مثالی اور قابلِ تقلید ہونا چاہیے۔ پس علامہ اقبال کے تصّور امت سے ہی تصّورِ امامت کے فکری نقوش قدرے روشن ہو جاتے ہیں۔ یہ بات زیادہ توضیح طلب نہیں ہے۔ کہ اقبال ؔ کے ہاں جغر افیائی حدبندیوں سے متزّہ اور و طنیت کی جھکڑ بندیوں سے ماورا اگر کوئی قومیت قابلِ توجہ ہے تو وہ وہی قومیت ہے جسکی فکری، تمدنی اورثقافتی اساس توحید ور سالت پر رکھی گئی ہے۔ جو ملت اقوامِ عالم میں ہاشمی رہبر کے طفیل ممتاز ہے ؂
اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر
خاص ہے تر کیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ؐ

اس منطقی نکتے سے مفر ممکن نہیں ہے کہ ملتِ اسلامیہ اگر ترکیب میں خاص الخاص ہے تو اسکی امامت بھی بے مثل ہی ہونی چاہیئے یہ واحد امت ہے جو جملہ اقوام عالم کیلئے اسوہ کی حیثیت رکھتی ہے کیا اس غیر معمولی امت کے بارے میں امامت کا عامیانہ اور عاجلانہ تصور شایانِ شان ہو سکتا ہے ؟ کیا اس سرمدی اور ’’خاتم الامت ‘‘ ملتِ اسلامیہ کے قدوقامت پر جز وقتی اور غیر سرمدی خلا فت کی ’’قبائے تقدیس ‘‘ راست آئے گی ؟ رموزِ بے خودی کے چھٹے اور ساتویں باب میں علامہ اقبال نے نہایت ہی اثر انگیز انداز میں ملتِ مر حومہ کے متعلق چند ایک امتیازی خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے ؂
عقدۂ قومیتِ مسلم کشود
از وطن آقائے ما ہجرت نمود
تاز بخششہائے آں سلطانِ دین
مسجدِ ما شد ہمہ روئے زمین
آں کہ در قرآن خدااو راستود
آں کہ حفظِ جانِ او موعود بود

یہ تحّرک پسند ملت کسی مقام سے پیوسطہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی گردشِ ایام اسے معدوم کر سکتی ہے۔ اس امت سے وابسطہ مومن نہ صرف خود لازوال ہے بلکہ اسکے ہاتھوں وجود میں آنے والا ہر نقش فنا پزیری سے مبّرہ ہے ؂
اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزلِ آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہوکسی مردِخدا نے تمام

امتِ وسط اور متوازن قیادت:
جب ماموم اورمومن کا مرتبہ اتنا بلند ہے توامام اور امیرالمومنین کامقام کیسا ہونا چاہیے ؟ ایک مثالی امت کو مثالی حرکی، سرمدی، عظیم،اور ہر زمان و مکان پر محیط آفاقی تصّورِ امامت ہی زیب دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی بارہا اس امت کی تخصیص کا تذکرہ ہوا ہے خدا وند تعالیٰ امتِ مسلمہ سے مخاطب ہے وَکَذَالک جعلنٰکم اُمّتََ وسَطَا اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک بیچوں بیچ والا گروہ بنایا ہے ‘‘ معروف مفسرِ قرآن سید علی نقن نقی مرحو م کے مطابق امتِ و سط کا مطلب ہے ’’ معتدل و متوازن گروہ جس کے اعمال میں نہ افراط ہے نہ تفریط ‘‘ ۳؂ متوازن گروہ کی قیادت متوازن قائد ہی کر سکتا ہے۔ بلکہ امت کا توازن امامت کا ہی مر ہونِ منت ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب جب امت کے ہاتھوں دامنِ امامت چھوٹا۔ یہ اپنا توازن ہی کھو بیٹھی۔ متوازن قیادت اور غیر متوازن قَیادت کے مابین تفاوت کو علامہ نے اپنے ایک خطبے میں واضع کیا ہے۔ انہوں نے ایک صوفی بزرگ کے ایک شعر کے ضمن میں پیغمبرانہ ولایت اور صوفیانہ ولایت کی استدلالی بحث چھیڑی ہے۔ جوقابلِ توجہ ہے۔ چنانچہ اس صوفی بزرگ عبدالقدوس گنگو ؔ ہی کا کہنا ہے ؂
محمد عربی بر فلک لافلاک رفت و باز آمد
واﷲ اگر من رفتمے ہر گز باز نیا مدے

اقبالؔ فرماتے ہیں۔ ’’شیخ موصوف (گنگو ہی ؔ ) کے اس ایک جملے سے ہم اس فرق کا ادراک نہایت خوبی سے کرتے ہیں جو شعورِ ولایت اور شعور نبوت میں پایا جاتا ہے صوفی نہیں چاہتا ہے وارداتِ اتحاد میں اسے جو لذت و سکون حاصل ہوتا ہے اسے چھوڑ کر واپس آئے اگر آئے بھی جیسا کہ اس کا آنا ضروری ہے تو اسے نوعِ انسانی کے لیئے کوئی خاص نتیجہ مترتب نہیں ہوتا ہے برعکس اس کے نبی کی باز آمد تخلیقی ہوتی ہے وہ ان واردات سے واپس آتاہے تو اس کے لیئے کہ زمانے کی رو میں داخل ہو جائے اور پھر ان قوتوں کے غلبہ و تصرف سے جو عالمِ تاریخ کی صورت گر ہیں، مقاصد کی نئی دنیا بیدار کرے ‘‘ ۴
؂
نبوت کی تنہاء اور حقیقی وارث امامت ہی ہے لہٰذا نبوت کی متعینہ خطوط پر ہی امامت اپنا لائحہ عمل طے کرتی ہے۔ بنی داخلی واردات اور خارجی حالات کے مابین توازن پیدا کرنے پر قادر ہو تا ہے۔ اسی لحاظ سے امام کیلئے یہ شرطِ اساسی ہے کہ وہ عالمِ شہود میں بھی عالمِ حقیقی سے رابطہ برقرا رکھنے کی صلاحت رکھتا ہو۔ جیسا کہ آیہ ولایت سے بھی یہی بات اخذہوتی ہے ۔کہ جو خلقِ خدا سے مکمل طور لاتعلق ہو کر خدا سے لو لگائے وہ قیادت کا حق ادا نہیں کر سکتا ہے۔ سورہ مائدہ آیت نمبر۵۵میں کنا یتاً حقیقی اور کامل ولی کے ایک انوکھے عمل کو معیارِ ولایت قرار دیا گیا ہے چناچہ خداوندتعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے۔ ’’ایمان والو تمہارا ولی بس اﷲ ہے اور اس کا رسولؐ اوروہ صاحبانِ ایمان جو حالتِ رکوع میں زکوات دیتے ہیں ‘‘ ۵ ؂ یعنی خدا و رسولؐ کے بعد اگر کوئی لائقِ ولایت ہے تو وہی ہے جو اپنے خدا کے ساتھ راز و نیاز کے وقت بھی خلقِ خدا کی حالتِ زار سے بے خبر نہ ہو ۔ اسی جوہرِ میزان کو مشہور مستشرق مائیکل ہارٹ نے بنی آخر الزمان کی شخصیت میں پا یا تو پورے اعتمادکے ساتھ کہہ اٹھا ’’ کہ یہ (حضرت محمدؐ ) واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طورپر کا میاب رہی ‘‘ ۶ ؂ حتیٰ کہ ابن تیمیہ جو امام کی عصمت و کا ملیت کا سخت مخالف ہے۔ خلفائے راشد ین کی ’’ محدودکا ملیت‘‘ کی وکالت کرتے ہیں ۔ ۷ ؂ اس طور سے وہ نظریہ امامت بھی اسلام کا مطلوب نہیں ہے جو امامت کو روحانی قیادت اوردنیاوی قیادت میں تقسیم کر تا ہے ۔ یہ دراصل مسئلہ خلافت کا صوفیانہ حل ہے۔جو حل کے بجائے خود ایک مسئلہ ہے یہ نظریہ فکرِ اقبال کے ساتھ متّصادم ہے ۔ اقبالؔ دین و سیاست کی دوئی کے ہلا کت خیز نتائج پر نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے خوبصورت پیرا یہ میں یہ بات امت کے گوش گزار کراناچاہی ؂
جدا دیں سے سیاست ہو تو رہ جاتی ہے چنگیزی

دین و دنیا میں دوئی کا خاتمہ جب ہی ممکن ہے جب دین و دانش کے ساتھ ساتھ حاکمیتِ ظاہری بھی اولی الا مرکے پاس رہے۔ اقبال ؔ کہتے ہیں ’’ نظر بلا اقتدار کے اخلاق کو تو فروغ دیتی ہے لیکن ایسی ثقافت کی بنیاد کا اس سے قیام نہیں ہو سکتا جو دیر پا ہو اس کے برعکس اگر صرف اقتدار ہو اس کے ساتھ نظر کا فقدان ہو تو ایسا اقتدار تخریبی اور انسان کش ہو جاتا ہے انسانیت کے روحانی فروغ کے لیئے دونوں کا اجتماع ضروری ہے ‘‘ ۸ ؂ علامہ اقبالؔ کی اس فلسفیانہ رائے کو تاریخی پس منظرمیں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو علامہ جوادیؔ کے یہ پُر حکمت الفاظ معاون ثابت ہوں گے۔ ’’امامت حافظ شریعت بھی ہے اور قیادتِ امت بھی حفظِ شریعت کیلئے علم لازم ہے اور حفظِ امت کے لیئے قوت و طاقت۔ ’’ زادہ بسطتہ فی العلم و لجسم ‘‘۔ اب امامِ امت وہی ہوگا جو علم میں ساری امت سے بالا ترہو یعنی باب مدینہ العلم اور طاقت میں ساری دنیا سے قوی تر یعنی لا فتی ا لاّ علی ‘‘ ۹ ؂
مسلم اول شہ مرداں علیؑ

عشق را سرمایۂ ایماں علیؑ
از ولائے دودمانش زندہ ام

در جہاں مثلِ گُہر تابندہ ام
قوّت دینِ مبین فرمودہ اش

کائینات آئیں پذیر از دو دہ اش
مرسلِ حق کرد نامش بو ترابؑ

حق یدُاللہ خواند در اُمُ الکتاب

(کلیاتِ اقبالؔ فارسی۴۷)

مندرجہ بالا بحث سے اپنے الفاظ میں نییجہ اخذ کرنا چاہیں تو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ امام بر حق و ہی ہے جسکے قلم و تلوار میں کفر و باطل کے واسطے یکساں کاٹ ہو۔ جو الوہی اسرار سے واقف کار بھی ہواور میدانِ جہاد میں کرّار بھی۔ جسکی تلوار دستِ مرحبی و عنتری کو قطع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور جسکی زبان ’’لسان اﷲ‘‘ بن کر معر کۂ حق و باطل کی نظر ی رزمگاہ میں برہانِ قاطع ثابت ہو۔ جس کا کلام اہلِ نظر کی رائے کے مطابق ’’ فوق کلام المخلوق و تحت کلام خالق‘‘ قرار پائے ۱۰؂ اگر امام ایسے محیرا لعقول کمالات کا مظہر ہے تو عقیدتمند اپنی عقیدت کے پھول کیونکر نشاور نہ کرے ؂
اے بابِ مدینۂ محبت

اے نوحِؑ سفینۂ محبت
اے ماحی نقشِ باطل من

اے فاتحِ خیبر دلِ من
اے سرِخط و جوب و امکان

تفسیرِ تو سورۂ ہائے قرآن
اے مذہب عشق را نمازے

اے سینۂ تو امینِ رازے
اے سرِ نبوّتِ محمدؐ

اے وصفِ تو مدحتِ محمدؐ

امام باطل اور امام برحق:
قلندر جز دو حرف لاالا کچھ نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا

یقیناً لااِلا اپنی وسعت کے اعتبار سے اہل ایمان کے فکر و عمل کی کائنات پر محیط ہے۔ مؤمن کے جذبات و احساسات ، کشش و مدا فعت ، محبت و نفرت، عبادت و بغاوت، جراُتِ انکار اور شعورِ اقرار، ان دو حروف کے ساتھ گہرا علاقہ رکھتے ہیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو علامہ اقبال کے شعورِر دو قبول کے پشت پر یہی دو حروف واحد محرک و عامل کی صورت میں کار فرماہیں۔ امامِ باطل کے بطلان اور امام بر حق کی حمایت کے سلسلے میں علامہ نے اسی دو حرفی ترکیب سے کام لیا ہے۔ بد قسمتی سے تاریخ میں امامت کے خاتمے پر بہت سارے حکمران کمر بستہ نظرآتے ہیں۔ اس سلسلے میں خاص طور سے دو حر بے استعمال کیئے گیئے۔

۱۔بلواسط ۲۔بلاواسطہ۔ بلواسط طریقہ کار کے تحت امامانِ بر حق کو نا حق شہید کیا گیا۔ چنانچہ جب شہادت سے امامت کو مزید تقویت و استحکام ملا تو اسے بھی موثر طریقہ اپنایا گیا۔ جسکے تحت امامت کے مختلف متبادلات اختراع کیئے گیئے۔ یہاں تک ہر کس و ناکس کو امامت کا منصب تفویض کیا گیا۔ آخر الذکر حربہ امامت کی حساسیت کو کم کرنے کے لیئے بہت حد تک عوام الناس میں مؤثر ثابت ہوا۔ نتیجہ کے طور مسلمانوں کی خاصی تعداد معرفتِ امام سے محروم رہ گئی۔ جب بھی کسی عام مسلمان کے قلب و ذہن میں امامت کے متعلق جستجو کی لہر اٹھی تو اس نے امامت کے عامیانہ تصّور کے صحرا میں دم توڑ دیا۔ اس عامیانہ تصورِ امامت کو علامہ اقبال نے اسی تیغ لا سے پارہ پارہ کر دیا ہے۔ یقیناً یہ چند ایک اشعار امامت کے متعلق علامہ کا حرف ’’لا ‘‘ ہیں۔ ؂
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے؟
کیا جانیں گے یہ دورکعت کے امام
فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اُس کی
جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر

دو رکعتی اماموں کو معرفتِ امام سے نا بلد قرار دینا اقبالؔ کے تصّورِ امامت کی حساسیت کا غماز ہے۔ظاہر ہے کہ حقیقی امت پر خیالی و اختراعی امامت کا اطلاق بعید از حقیقت ہے۔ اقبال ؔ جس امامت کی حمایت نظری و عملی اعتبار سے کرنا چاہتے ہیں۔ اسکے اسرار و اموز اور اصولی خطوط قرآن و احادیثِ نبویؐ میں کہیں پوشیدہ تو کہیں آشکار ہیں۔ اسلامی تاریخ میں یہ امامت اپنے ناقاَبلِ فراموش کار ناموں سے ممتاز دکھائی دیتی ہے۔ ’’امامت ‘‘ کے عنوان سے علامہ اقبال نے جو مختصر مگر جامع نظم لکھی ہے۔ اسے انداز ہ ہوتا ہے کہ آپ مسئلہ امامت کے متعلق کس قدر سنجیدہ ،باریک بین، حق پسند، وسیع القب اور واقف اسرار ہیں۔ گو کہ نظم امام و رہبر کی صفات و شرائط کا علامتی اظہارہے لیکن قاری اگر صاحب نظر ہو اور قرآنی آیات و احادیث کو ٹٹو لنے اور اسلامی تاریخ کے اہم ابواب کو کھنگھالنے کی جرأتِ تامہ رکھتا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس پر حقیقت آشکار نہ ہو ۔ اس نظم کو امامت کے تیءں حرفِ ’’اِلا ‘‘ کہا جا سکتا ہے ؂
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے

اگر مسلۂ امامت ، امتِ مسلمہ کیلئے عمومی نوعیت کا ہوتا تو اسکی تفہیم و ادراک کیلئے صاحب اسرار ہونے کی شرط لازمی نہ ہوتی ۔امامت کی حقیقت تک رسائی بقولِ اقبالؔ اُسوقت تک کافی مشکل ہے جب تک نہ انسان رموز انفس و آفاق سے واقف ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ رموزِ حیات سے آشنا ہی مقامِ ولایت کو سمجھ سکتا ہے ؂
ہر کہ دانائے رموزِ زندگیست
سرِ اسمائے علیؑ داند کہ چسیت

امامِ برحق کی پہچان چند ایک نشانیوں کے ذریعے کروانا چاہتے ہیں ؂
ہے وہی تیرے زمانے کا امام بر حق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لئے اوربھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرمائے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
خبر کا کوڈ : 547363
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نذر حافی
Iran, Islamic Republic of
بلاشبہ اقبالؔ کی فکری کائنات مبسوط اور منّظم مطالعے کی متّقاضی ہے اور اس فکری کائنات کا مرکز و محور فلسفہ خودی ہے۔
فکر اقبال ؔ کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ وجودِ ملت ازخود، احتیاجِ امامت کی شدت کو ظاہر کرتا ہے اور دو رکعتی اماموں کو معرفتِ امام سے نا بلد قرار دینا اقبالؔ کے تصّورِ امامت کی حساسیت کا غماز ہے۔
فدا حسین بالہامی کی اس تحریر کا مطالعہ یقیناً صاحبان علم و دانش کے علم میں اضافے اور فکر میں ندرت کا باعث ہے۔
فدا بھائی نے اقبالیات کے سلسلے میں بہت منظم اور جاندار تحقیق ہیش کی ہے۔
میری تمام دوستوں سے اپیل ہے کہ اس تحریر کا خصوصی طور پر مطالعہ کریں۔
شکریہ
Ahsan Shah
United Kingdom
So marvellous and fantastic
ہماری پیشکش