1
0
Saturday 16 Jul 2016 17:07

ترک صدر طیب اردغان اور خلافت عثمانیہ کا خواب

ترک صدر طیب اردغان اور خلافت عثمانیہ کا خواب
تحریر: سید محمد احسن
only_ahsan@live.com


گذشتہ رات ترک فوج کے ہیڈکوارٹرز پر حکومت نواز ملکی فوجی دستوں کا کنٹرول بحال ہوگیا ہے، ترک صدر نے آج علی الصبح ایک نشریاتی خطاب میں کہا کہ فوج کے ایک چھوٹے سے گروہ کی طرف سے بغاوت کی سازش کو عوام نے ناکام بنا دیا ہے۔ استبنول میں انہوں نے کہا کہ فوج میں شامل غداروں کو سخت سزا دی جائے گی۔ ترکی کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق فوج کے ہیڈکوارٹرز پر حکومت نواز ملکی فورسز نے دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے، ناکام بغاوت کے دوران نوے ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اسی دوران مغوی بنائے گئے فوج کے سربراہ کو بھی رہا کرا لیا گیا ہے۔ دوسری جانب پارلیمنٹ اور صدارتی محل پر حملوں کا سلسلہ بھی تقریباً ختم ہوگیا ہے، انقرہ حکومت کے اہلکاروں کے مطابق ترک مسلح افواج کے 754 اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد 29 کرنل اور پانچ جنرل برطرف کر دیئے گئے ہیں۔ ترک فوج کے ایک گروہ نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ اس نے ملک کی اہم تنصیبات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جبکہ جمہوری حکومت کے منتخب وزیر اعظم بن علی یلدرم کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کی کوشش کو ناکام بنانے میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ جمعہ کی شب فوج کے ایک دھڑے نے اچانک ہی ملک میں مارشل لاء کے نفافذ کا اعلان کر دیا تھا، جس کے بعد ترکی میں جھڑپوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا، تاہم اس بات میں شدید اختلاف پایا جا رہا ہے کہ ترک فوج کے اندر اتنی بڑی بغاوت موجود تھی، لیکن حکومت اور حکومت کی حامی فوج کو اطلاع تک نہیں، کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ دیگر گذشتہ واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی طیب اردگان کی جانب سے اپنی پوزیشن کا مزید مستحکم کرنے اور طاقت ور بنانے کیلئے رچایا گیا ہو، البتہ یہ سازشی تھیوری ہے، لیکن ماضی کے چند حقائق جو میڈیا پر سامنے آئے اس کے بعد ایسا سوچنا بین الاقوامی سیاست کے طالب علموں کا حق ہے، اس سلسلے میں ہمیں ترک صدر کے نظریہ خلافت عثمانیہ کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔

خلافت عثمانیہ کا خواب
طیب اردگان نے اپنی کئی تقریروں میں واضح کیا ہے کہ وہ خلافت عثمانیہ کے دوبارہ استحکام کیلئے کوشاں ہے، جولائی 2012ء میں اپنی پارٹی حامیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اردغان نے کہا کہ انکی حکومت شام کے کرائسس میں اس وجہ سے دخل اندازی کر رہی ہے کہ کیونکہ ہم سلجک (Seljujs) کے وارث اور شاندار عثمانی سلطنت کی باقیات ہیں، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد میں سلجک اور خلافت عثمانیہ کی روح شامل ہے، اسی سال 2012ء ستمبر میں اپنے ایک اور خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے فاتح سلطانوں کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں، جس کا آغاز سلطان ارسلان سے ہوتا ہوا فاتح سلطان مہمت تک پہنچا، جس نے 1046AD میں اقتدار حاصل کیا۔ دھیان رہے کہ سلجک دراصل وہ خاندان تھا، جس نے اقتدار حاصل کیا اور بعد میں عظیم خلافت عثمانیہ کی صورت میں سامنے آیا اور ایک صدی سے زائد عرصہ تک ایشیا اور یورپ کے کئی علاقوں پر حکومت کی، لہذا رجب طیب اردغان کے ان نظریات کو جاننے کے بعد اندازہ ہو جاتا ہے کہ ترکی کے صدر اردگان صاحب کی شام کے مسئلے میں مداخلت اور دہشتگرد تنظیم داعش کی سپورٹ کے پیچھے کیا عزائم کارفرما ہیں، دوسری جانب یورپ کے مشرقی علاقے جو خلافت عثمانیہ کا حصہ تھے، میں ترک پالیسی بھی اسی مقصد کی تکمیل کے حوالے سے ہے۔

خلافت اسلامیہ کیلئے داعش کی سپورٹ
فرانس کے صحافی اور نیوز ویک نے اپنی رپورٹس میں اس بات کا انکشاف کیا کہ القاعدہ کو مالی تعاون دینے والے سعودی بزنس مین خفیہ ملاقات کے لئے انقرہ گئے۔ میڈیا رپورٹس نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ یاسین القدی نامی سعودی بزنس مین نے ترک صدر کے بیٹے بلال اردغان سے ملاقات کی، اس ملاقات کی تصویر ترک اخبار جمہوریت سمیت تمام عالمی میڈیا نے نشر بھی کی ہیں، جبکہ کہا جاتا ہے کہ یاسین القدی کا امریکا کے سابق نائب صدر ڈک چینی اور ترک صدر طیب اردغان سے قریبی مراسم ہیں۔ یاسین القدی سعودی بزنس مین ہے اور نائین الیون واقع میں القاعدہ کو فنانس کرنے کے الزام میں عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل ہے، القدی سے ترک صدر کے بیٹے کی ملاقات کے بعد داعش کی تشکیل تیزی کے ساتھ طے پائی، دوسری طرف ترکی کی اپوزیشن نے یہ بھی الزام لگایا کہ اردغان کا بیٹا ایک این جی او The Humanitarian Relief Foundation کے سائے تلے دہشتگروں کو سپورٹ کر رہا ہے، جس کے انہوں نے ثبوت بھی پیش کئے تھے، اسی طرح شام میں قبضہ کے بعد داعش کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تیل کی سپلائی بھی ترکی کے ذریعہ ہوتی رہی ہے، جس کو روس نے حالیہ دنوں میں بمباری کے ذریعہ ناکام کرنے کی کوشیش کی، ترکی نے جواباً روس کے طیارے کو ہدف بنا کر گرا دیا، اس واقعہ پر دنوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہوئے، بلآخر کچھ دنوں پہلے ہی اردغان نے روس سے معافی مانگ لی ہے، یہاں سے واضح ہے کہ ترکی بھی داعش کے سہولت کاروں میں شامل ہے، ترکی کا داعش کو سپورٹ کرنے کا مقصد شام و دیگر علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنا ہے، تاکہ اپنے خواب "خلافت عثمانیہ" کی بحالی کو پورا کیا جا سکے۔

میڈیا کیمپین
اس سلسلے میں ناصرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اردغان کے اس نظریئے کی حامی ناصرف بڑی مذہبی جماعتیں ہیں، بلکہ صحافی، قانون دان، سرمایہ دار اور دیگر اہم پروفیشنز سے تعلق رکھنے والے گروہ بھی شامل ہیں، جو ترکی کی خلافت عثمانیہ کا دوبارہ قیام چاہتے ہیں، اسی لئے عوامی رائے عامہ بنانے کے لئے مختلف ایسے ڈارمے اور پروپگینڈے بھی کئے جاتے ہیں، جس میں ترک صدر کی پوزیشن کو طاقت بخشی جاسکے اور اسے عالم اسلام کا ہمدرد بناکر پیش کیا جاسکے، پاکستان میں ترک صدر کی خوبیاں اور خصلتیں بیان کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر اردو میں پیجز تشکیل دیئے گئے ہیں، تاکہ پاکستانی عوام میں بھی ترک صدر کو ایک مسیحا بناکر پیش کیا جا سکے اور عالم اسلام کے مسائل کا منجی قرار دیکر زوال کا شکار ہونے والے خلافت عثمانیہ کے قیام کے لئے راہ ہموار کی جا سکے۔ اسی مقصد کی خاطر ایک واقعہ جس نے میڈیا اور بالخصوص پاکستانی میڈیا و سوشل میڈیا پر ترک صدر کے حوالے سے کافی مقبولیت حاصل کی، جس میں ترک صدر نے خودکشی کرنے والے ایک شخص کو بچا لیا، جبکہ بعد میں میڈیا کے ذریعہ ہی حقائق واضح ہوئے کہ خودکشی کرنے والا شخص ترک صدر کی سکیورٹی پر معمور ایک اہلکار تھا، اس ڈرمامے کو رچانے کا مقصد عوامی رائے عامہ کو متاثر کرنا تھا، لہذا گمان ہے کہ فوجی بغاوت کا ڈرامہ بھی پلان کا حصہ ہو، کیونکہ یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ اس فوجی بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب اردغان کی پوزیشن پہلے سے زیادہ مزید مستحکم ہوگئی ہے، یا صرف ترکی بلکہ حقائق سے ناآشنا مسلمان بھی ترک صدر کے گرویدہ ہو جائیں گے یا ہوگئے ہیں اور اسکے حوالے سے خلافت عثمانیہ کو دوبارہ بحال کرنے والے عالمی گروہ نے میڈیا کمپین باقاعدگی سے شروع کر دی ہے، اس کے برعکس پاکستانی عوام کا حال تو یہ ہے کہ وہ موجودہ ترک حکومت کو بھی اسلامی حکومت سمجھتے ہیں، لہذا ان حالات میں میڈیا کمپین مزید تڑکہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنائے گی۔ اللہ خیر کرے۔

خلافت عثمانیہ کے قیام کیلئے اسرائیل کا سہارا
ترک صدر رجب طیب اردغان چاہتے ہیں کہ خلافت عثمانیہ کے قیام میں عالمی طاقتیں انکے ساتھ تعاون کریں، لہٰذا انہوں نے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کو اپنایا ہوا ہے، حالیہ دنوں میں اسرائیل کے ساتھ منقطع ہونے والے تعلقات بھی دوبارہ بحال ہوئے ہیں، سفارتی تعلقات کی بحالی کی شرائط جو منظر عام پر آئی ہیں، ان میں اہم یہ ہے کہ ترکی فلسطین کے مسئلہ پر مداخلت نہیں کرے گا، سوائے غزہ کے محصورین کو غذا اور دیگر اجناس کی فراہمی کرنے کے، اس عمل سے اسرائیل اور ترکی دونوں کو فائدہ حاصل ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا ملک فلسطین پر جارحیت کی صورت میں مداخلت نہیں کرے گا، تو دوسری جانب ترکی عزہ میں مظلوم فلسطینیوں کو غذا اور امدادای سامان کی فراہمی کرکے عالم اسلام کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لے گا، یعنی ایک تیر سے دوشکار کھیلنا چاہتے ہیں۔ آخر میں سوال یہ ہے کیا غلط ذرائع اور چور دروازے کے ذریعہ مسلمانوں کی قیادت حاصل کرنا عین اسلام ہے؟ داعش جیسی دہشتگرد تنظیم کا استعمال کرکے خلاف عثمانیہ میں شامل علاقوں میں بغاوت کرانا کیا، عین اسلام ہے؟ کیا اسرائیل کی حمایت کے ذریعہ خلافت کا قیام ہوسکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کے جواب دینا ابھی باقی ہیں، مگر فطرت کا قانون یہ ہے کہ غلط ذریعہ کو استعمال کرکے حاصل کی جانے والی چیز زیادہ دیر تک سودمند ثابت نہیں ہوتی، لہٰذا میرا مشورہ ترک صدر کو یہی ہوگا کہ اگر وہ واقعی عالم اسلام کی قیادت کرنا چاہتے ہیں، تو عالم اسلام کو درپیش مسائل کی جانب متوجہ ہوں اور انہیں حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، پوانٹ اسکورنگ کرنا چھوڑ دیں، مسلمان خود ہی انہیں اپنی قیادت تھما دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 553113
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Kam
Pakistan
The article is biased in its content. It seems like the writer has prejudice against the Turk and its president. Those arguments presented in this article may be factually true but as a writer I think author should not come up with personal biasness but show some intellectual and honesty and openness.
ہماری پیشکش