0
Tuesday 26 Jul 2016 15:18

بھوک ہڑتال۔۔ ابتک کیا کھویا کیا پایا!

بھوک ہڑتال۔۔ ابتک کیا کھویا کیا پایا!
تحریر: مہدی خان

مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال کو تادم تحریر 74 دن ہو گئے ہیں اور وہ اپنے ارادے میں اٹل نظر آ رہے ہیں۔ 13 مئی سے شروع ہونے والی اس بھوک ہڑتالی کیمپ نے سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ نون کے تمام جماعتوں کے مرکزی رہنماء بھوک ہڑتالی کیمپ میں تشریف لائے اور علامہ ناصرعباس جعفری سے اظہار یکجہتی کیا، اسی طرح مذہبی جماعتوں میں شیعہ علماء کونسل اور جے یو آئی فے کے علاوہ تمام مسالک کی جماعتوں نے بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا اور علامہ ناصر عباس کی حمایت کا اعلان کیا۔  تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے ناصرف بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت کی بلکہ علامہ ناصر عباس جعفری کے مطالبات کو پاکستان کے 20 کروڑ عوام کے مطالبات قرار دیا۔ اپنے نوعیت کے اچھوتے اس احتجاج نے سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے، صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں علامہ ناصر عباس کی حمایت میں مظاہرے کیے گئے اور حمایت کا اعلان کیا گیا۔ امریکہ، کینڈا، برطانیہ سمیت دیگر کئی ممالک میں قائم پاکستانی سفارت خانے کے باہر ہونے والے مظاہروں میں لوگوں نے یادداشتیں پیش کیں اور حکومتی بےحسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

نظام رہبریت کی جانب سے بھی علامہ ناصر عباس کی مکمل حمایت کی گئی اور حکومت پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ مظلوم شیعوں کی بات سنے۔ امام جمعہ تہران آیت اللہ کاشانی، اسی طرح امام جمعہ قم اور امام جمعہ مشہد نے بھی کھل کر علامہ ناصر عباس کے موقف کی تائید کی۔ اس تائید کو جہاں دیدہ لوگ نظام ولایت کی تائید سے ہی تعبیر کر رہے ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ علامہ ناصر عباس نے احتجاج کا ایسا مہذب طریقہ متعارف کرایا ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکیں۔ یہی وجہ بنی کہ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں بھی ایم ڈبلیو ایم کو موعو کیا گیا اور اس موضوع پر بات کی گئی۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماوں نے حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ پاکستان میں مکتب تشیع کے مطالبات تسلیم کرے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ علامہ ناصر عباس جعفری یہ بات باور کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ ان کے مطالبات قانونی و آئینی ہیں جن سے مخالفت نہ ممکن ہے۔ علامہ ناصر عباس جعفری کے اس عمل سے جہاں عمامے کا وقار بلند ہوا وہیں عوام کا علماء پر اعتماد بھی بڑھا ہے۔

علامہ ناصر عباس جعفری نے عید سے پہلے اعلان کیا تھا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو 17 جولائی کو پاکستان بھر میں خواتین احتجاج کیلئے نکلیں گی اور 22 جولائی کو پاکستان کی اہم شاہراہیں بند کی جائیں گی، پھر دنیا نے دیکھا کہ 17 جولائی کو پاکستان کی سڑکوں پر کنیزین زہرہ سلام اللہ نے پرامن احتجاج کا ایسا مظاہرہ کیا جس کی نظیر کم ملتی ہے۔ ملک کے تمام شہروں میں علامہ ناصر عباس جعفری کی حمایت میں خواتین کی ریلیاں اٹھیں اور حکمرانوں کو ایک واضح پیغام دیا کہ مکتب اہل بیت کے ماننے والوں کو دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا۔ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے اعلان کیا گیاکہ 22 جولائی کو ملک کے تقریباً 70 اہم مقامات پر دھرنے دئیے جائیں گے اور اہم شاہروں کو بند کیا جائیگا، لیکن معاملہ اس کے الٹ ثابت ہوا اور 70 کے بجائے تقریباً 103 جگہوں پر زبردست دھرنے دئیے گئے اور چار سے سات گھنٹوں تک اہم شاہروں کو بند کرکے بےحس حکمرانوں کو پیغام دیا گیا کہ وہ اپنے رہنما کے ساتھ کھڑے ہیں، بہتر ہے کہ ان کے آئینی و قانونی مطالبات پر عمل در آمد شروع کیا جائے۔ 22 جولائی کے پرامن احتجاج کی پاداش میں پنجاب حکومت کی جانب سے اوکاڑہ اور قصور کے مقامات پر ایم ڈبلیو ایم کے رہنماوں اور کارکنوں پر مقدمات درج کیے گئے اور درجنوں کو اٹھا کر تھانوں میں بند کردیا گیا ہے۔

ایم ڈبلیو ایم کی طرف آگلے لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا جاچکا ہے، جس کے مطابق، 7 اگست کو اسلام آباد میں عظیم الشان جلسہ منعقد کیا جائیگا جس کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائیگا، علامہ ناصر عباس کے اعلان کے مطابق وہ آئندہ اسلام آباد سے لاہور کی طرف پاکستان مارچ کرنے کا پلان رکھتے ہیں، بقول علامہ ناصر عباس جعفری کے وہ اسلام آباد سے لاہور کی طرف پیدل سفر کریں گے، علامہ ناصر عباس کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک کا مقصد قائد و اقبال کے پاکستان کا احیاء ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کسی نئے بیانیہ کی ضرورت نہیں، ہمارا بیانیہ وہی ہے جو قائد و اقبال کا بیانیہ تھا، جس کی بنیاد پر یہ ملک انگریزوں کے قبضے سے آزاد ہوا۔ اگر بیانیہ کو دیکھا جائے تو بہت ہی متاثر کن اور تمام مسالک اور مذاہب کیلئے قابل قبول ہے۔ حتیٰ اس پر اسٹیبلشمنت کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ علامہ ناصرعباس کہتے ہیں کہ ہم مسلکی پاکستان نہیں چاہتے، ہم فقط اور فقط اقبال و قائد کا پاکستان چاہتے ہیں، جہاں اقلیتیں بھی محفوظ ہوں، جہاں سب کے حقوق محفوظ ہوں، جہاں تکفیریت کا خاتمہ ہو، جہاں اداروں میں کالی بھیڑوں سے جان چھڑی جائے۔ ایسا پاکستان جس میں تمام مکاتب فکر اور مذاہب کا احترام ہو۔

اب تک علامہ ناصر عباس جعفری کی بھوک ہڑتال کو 47 دن ہو چکے ہیں، یوں اگر کامیابیوں کا لیول چک کیا جائے تو بہت ہی بہتر نظر آ رہا ہے، اس تحریک سے تشیع کی مظلومیت کو اجاگر کرنے میں مدد ملی ہے، دنیا بھر کو بتایا گیا کہ پاکستان میں 23 ہزار سے شیعوں کو فقط اس لئے مار کر دیا گیا کہ ان کا عقیدہ شیعہ تھا، وہ عقائد کی بنیاد پر زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس بھوک ہڑتال سے قوم میں جمود ٹوٹا ہے، عزاداری کا حقیقی دفاع ہوا ہے دشمن پر واضح کیا گیا ہے کہ یہ قوم کبھی بھی عزاداری سید الشہد پر کوئی کمپرومائز نہیں کر سکتی۔ بھوک ہڑتالی کیمپ کی بدولت پاراچنار میں مسائل حل ہو گئے ہیں اور جرگے کے فیصلے میں پہلی بار تشیع کی بات کو سنا گیا ہے اور قیدیوں کی رہائی اور معاملات طے پاجانے کی خوشخبری مل رہی ہے جس کا عنقریب اعلان بھی کر دیا جائیگا۔ اسی طرح سننے میں آ رہا ہے کہ گلگت میں زمینوں پر قبضے روک دئیے گئے ہیں اور معاملات حل کی طرف جا رہے ہیں، کے پی کے میں تحریک انصاف تمام باتیں ماننے کیلئے تیار ہے اور عملی اقدامات کی طرف سفر جاری ہے۔ جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ میڈیا کے سامنے بتا چکے ہیں کہ آرمی چیف خود ڈیرہ اسماعیل خان گئے ہیں اور فرقہ وارنہ ٹارگٹ کلنگ پر بریفنگ لی ہے، فوج کی طرف سے کوشش کی جارہی ہے کہ اس کلنگ میں ملوث گینگ کا خاتمہ کیا جائے۔

مجموعی طور پر صورتحال کو غور سے دیکھا جائے تو تقریباً ملک کے تمام حصوں میں معاملات حل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن واحد پنجاب ہے جہاں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، فرعونی صف حکمران تشیع کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ان کی بات کو اہمیت نہیں دیتے۔ عید سے پہلے وزیر داخلہ چوہدری نے علامہ ناصر عباس سے پونے دو گھنٹے کی ملاقات کی تھی جس میں ان کے تمام مطالبات پر اتفاق کیا گیا تھا اور کہا تھا کہ ان مطالبات کو غیرآئینی و غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا، وزیر داخلہ نے چار دن کی مہلت مانگی تھی لیکن اس کے بعد سے ابتک خاموشی ہو گئی ہے۔ لگتا ہے کہ معاملہ کہیں اور اٹک گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سات اگست سے پہلے پنجاب اور وفاق علامہ ناصر عباس کے مطالبات مان لیتا ہے یا پھر ایک بڑی تحریک کو جان بوجھ کر اپنی جانب دعوت دی جارہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 555246
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش