0
Monday 25 Jul 2016 13:04

مٹھی بھر لوگ ۔۔۔ یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے

مٹھی بھر لوگ ۔۔۔ یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
تحریر: مسلم عباس
muslimpk03@gmail.com


پاکستان میں اکثریت باصلاحیت افراد کی ہے، عوام بھی مذہبی اور دیندار ہیں، لیکن ایک گندی اقلیت  ملک و ملت کے وسائل پر قابض ہے۔ ہر روز کتنی ہی قیمتی جانیں دہشت گردی کے واقعات، پینے کے گندے پانی، ٹریفک کے ناقص انتظامات اور گھٹیا دوائیوں کے باعث تلف ہوجاتی ہیں۔ ان سارے حادثات کے دوران سرکاری ادارے بھی کام کرتے ہوئے فعال نظر آتے ہیں۔ کوئی بھی سرکاری ادارہ یہ ماننے پر تیار نہیں کہ اس کی غفلت یا اس کے اہلکاروں کی کرپشن کی وجہ سے کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت لے کر تھانے جائے تو  تھانے جاکر وہ خود پولیس والوں کے مظالم کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح قانون بظاہر دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں، جیسے ہمارا نیشنل ایکشن پلان، لیکن انہی قوانین کے ذریعے پر امن شہریوں کے گرد شکنجہ کسا جاتا ہے۔ پولیس اور اسمبلی کو چھوڑ کر آپ پاکستان ریلوے سروس کا حال دیکھ لیں۔ دنیا کس طرف جا رہی ہے اور ہماری ریلوے سروس کیا گل کھلا رہی ہے۔ ریلوے کے بعد محکمہ برقیات کو لے لیں، آج شاید کوئی بھی ایسا پاکستانی نہیں ہوگا جس نے محکمہ برقیات کی کرپشن کے زخم نہ کھائے ہوں۔ میٹر دیکھے بغیر بل دینا تو اس محکمے کا معمول ہے اور اگر آپ کسی اہلکار کو ہزار دو ہزار روپے تھما دیں تو 25 ہزار کا بل 15 سو روپے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے لوگ بجلی لوٹتے ہیں اور عام پاکستانیوں سے اس کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ اگر آپ کو پاکستان کے کسی پارک میں جانے کی توفیق ہوجائے تو بہت کم پارک ایسے ملیں گئے جہاں ٹائلٹ کا مناسب انتظام بھی ہو۔

اس کے علاوہ آپ سرکاری ہسپتالوں کی حالت دیکھیں ، اکثر سرکاری ہسپتالوں میں  اس قدر گندگی پائی جاتی ہے کہ ایک صحیح و سالم آدمی بھی اگر ہسپتال جائے تو مریض ہو جاتا ہے۔ دوائیاں تک موجود نہیں ہوتیں۔ ایک لمبی قطار میں مریض کھڑے ہوتے ہیں اور اکثر کئی جگہوں پر ڈاکٹر کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ ڈاکٹر کب آئے گا؟ بعض اوقات تو مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان مریضوں کے لئے کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ کم از کم ان کے بیٹھنے کے لئے کرسیاں وغیرہ لگا دی جائیں یا کوئی انتظام کیا جائے اور جو مریض ایڈمٹ ہوتے ہیں، وہاں موجود بیت الخلا میں پانی ہی نہیں ہوتا اور جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد  بلدیہ کے حوالے سے بات کریں تو اکثر لاری اڈوں پر  موجود گندگی کے ڈھیر ان کے حسنِ کارکردگی کی داد دے رہے ہوتے ہیں۔ عام ہوٹلوں کا حال دیکھیں تو آپ کو اکثر جگہوں پر صفائی کے علاوہ سب کچھ دکھائی دے گا اور بعض ہوٹل تو حرام گوشت کھلاتے ہوئے بھی پکڑے گئے۔ نادرا اور ایمبیسیوں کے بارے میں کچھ کہنا ہی وقت ضائع کرنا ہے۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر کو لیجئے، ہندوستان اپنے تمام تر مظالم کے باوجود کشمیر کی غالب  نسل نو، اکثر سیاستدانوں اور متعدد مفکرین کو کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے جبکہ ہم کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہنے کے باوجود کھو رہے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ کوئی شعبہ بھی کرپشن سے پاک نہیں۔

یہ پاکستان کی صورتحال کا ایک اجمالی نقشہ تھا، اب آیئے ممکنہ حل بھی ڈھونڈتے ہیں:
1۔ اداروں کی  یقینی نظارت
ایسا بھی نہیں کہ حکومت فلاح و بہبود کہ لئے کچھ نہیں کرتی، حکومت باقاعدہ طور پر سکولز، ہسپتال، تعمیراتی کاموں، ریلوے سرویس اور دیگر تمام سرکاری اداروں  کے لئے مخصوص بجٹ دیتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ نظارت نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ جگہ بجٹ خرچ نہیں ہوتا یا پرائیویٹ معاملات میں بھی کوئی صحیح نظارت نہیں۔ کبھی کوئی سمبوسوں میں چوہے کا گوشت ڈالتے ہوئے میڈیا پر آتا ہے اور کبھی گھی بنانے والی فیکٹری کا پتہ چلتا ہے کہ وہ مرغی کی آنتوں سے گھی بناتے رہے۔ جو مولوی فساد، تفرقہ بازی، دہشت گردی پر لگے ہوئے ہیں، ان کو پتہ ہے کہ کوئی نظارت نہیں۔ سب اپنی مستی میں ہیں، وہ کرتے ہی اسی لئے ہیں کیونکہ نظارت نہیں۔ تمام اداروں کی کرپشن کی مہم ترین وجہ نظارت کا نہ ہونا ہے۔

2۔ شکایات کی شنوائی کا سسٹم بنایا جائے
کوئی سرکاری ادارہ چاہے پرائیویٹ ہو یا سرکاری، جہاں بھی شکایات کا نوٹس نہیں لیا جاتا، وہ شعبہ زوال کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اس شعبے کے اندر اچھے افراد بھی آہستہ آہستہ کام خراب کرنے لگتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں،پاکستان میں ہر آدمی کہتا ہے کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں اور کرپشن کوئی کرتا ہی اسی وجہ سے ہے، جب اسے یقین ہوتا ہے کہ کوئی مجھے نہیں پوچھے گا۔ پورے پاکستان میں عوامی شکایت سیل قائم کئے جائیں، جن میں ہر آدمی اپنی شکایت کھلے دل سے درج کروائے اور وہ شکایت سیل عوام کو پریشان کرنے کے بجائے  باقی کام خود انجام دے۔
3۔ قانون کا سب پر لاگو نہ ہونا
ہمیں جاننا چاہیے کہ کسی قوم کی پستی اور زوال کی وجہ امیر اور طاقتور پر قانون کا نافذ نہ ہونا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس سے رشوت ختم کروائی جائے، تاکہ عام آدمی بھی طاقتور لوگوں کے خلاف بلاخوف شکایت درج کروا سکے۔
4۔ آرمی کا تقدس بچایا جائے
پاکستان آرمی کو چاہیے کہ اپنے تقدس کو ہر قیمت پر بچائے۔ کوئی بھی ملک اسی صورت میں محفوظ رہ سکتا ہے جب اس کی آرمی مضبوط ہوگی۔ تلاشیوں اور ناکوں کے دوران اگر کہیں سے آرمی کے جوانوں کی رشوت لینے کی شکایت موصول ہو تو اس کا فوری طور پر ایکشن لیا جانا چاہیے۔ اسی طرح آرمی کو فرقہ پرست عناصر کی بھینٹ بھی نہیں چڑھنے دینا چاہیے۔

5۔ عوامی طاقت کا شعور
کرپٹ لوگوں نے عوام کو یہ ذہن نشین کروایا ہوا ہے کہ لوگ کچھ بھی نہیں کرسکتے، دھرنوں، ہڑتالوں اور شکایات سے کوئی بھی تبدیلی نہیں آسکتی، حالانکہ اصل طاقت عوام کے پاس ہی ہے۔ لوگوں کو اس طرح کی باتوں سے خاموش کروا دیا جاتا ہے کہ یہاں تو وزیراعظم بھی رشوت لیتا ہے، پولیس خود ملی ہوتی ہے، سب ڈاکو ہیں۔۔۔۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، سب کو ڈاکو کہنا اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ اچھے لوگ بھی اہم پوسٹوں پر موجود ہوتے ہیں، لہذا لوگوں کو خاموشی کے ساتھ ظلم سہنے کے بجائے آواز بلند کرنے کا شعور دیا جانا چاہیے۔ پیامبر (ص) نے فرمایا کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر کسی ایک اعضاء کو تکلیف ہو تو  وہی درد دوسرے اعضاء کو بھی ہوتی ہے۔ ہم سب کو مل کر مظلوموں کی حمایت کے لئے نکلنا چاہیے۔ دیکھا گیا ہے کہ جن علاقوں میں لوگ باہر نکلتے ہیں، وہاں کی صورت حال دیکھیں، وہاں سرکاری افسران اور پولیس کا اخلاق بھی اچھا ہوتا ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اپنی ذمہ داری اگر پوری نہ کی تو لوگ اسے معطل بھی کروا سکتے ہیں اور یہاں کہ لوگ باشعور ہیں۔ بعض دفعہ پولیس یا دوسرا ادارہ اس بات پر آمادہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شکایت ہو تو اس کا نوٹس لیں گئے، کیونکہ بغیر شکایات اور ثبوت کے خود نوٹس تو نہیں لے سکتے، لیکن وہاں کوئی ایسا فرد نہیں ہوتا جو سامنے کھڑا ہو جائے۔ کئی دفعہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کہیں ایف آئی آر نہیں کاٹی جاتی تھی تو لوگوں کے احتجاج کے بعد کاٹ دی گئی۔

6۔ ایم ڈبلیو ایم کا ساتھ دیا جائے
اس وقت پاکستان میں انسانی بنیادوں پر ایم ڈبلیو ایم کے مٹھی بھر لوگوں نے بھوک ہڑتال اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اذانیں دینے، نماز جماعت منعقد کرنے اور درس اخلاق دینے سے نہ ہی تو پاکستان میں انسانی حقوق کی جنگ لڑی جاسکتی ہے اور نہ ہی عوامی شعور کی سطح بلند ہوسکتی ہے۔ عوامی شعور کی سطح کو بلند کرنے کے لئے عوام کو خانقاہوں سے نکال کر میدان ِ عمل میں لانا ضروری ہے۔ اگر عوام کو خود ان کے حقوق کے دفاع کے لئے کھڑا نہیں کیا جاتا تو کوئی درس اخلاق ان کی اصلاح نہیں کرسکتا۔ میدانِ عمل میں آنے سے ہی عوام کو اپنی خودی کا احساس ہوتا ہے، اپنی قدروقیمت کا اندازہ ہوتا ہے، اپنی طاقت کا پتہ چلتا ہے اور حقوق کے دفاع کا ہنر آتا ہے۔ جو اذان عوام کو خدا اور معاشرے سے کاٹ کر سلا دے، وہ اذان، اذان نہیں بلکہ لوری ہے اور جو دھرنا اور احتجاج لوگوں کو بیدار کرکے خدا اور معاشرے سے ملا دے  وہی اذان، اذانِ انقلاب ہے۔ اس وقت عوام کو ان کے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے ایم ڈبلیو ایم نے جو قدم اٹھایا ہے، ہمیں تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ یہ مٹھی بھر لوگ دراصل مظلوم انسانیت کی خاطر آواز بلند کئے ہوئے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہر ممکنہ طریقے سے اپنی آواز کو ان کی آواز میں شامل کریں۔
خبر کا کوڈ : 555289
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش